عقل مند انسان

جیسا کہ معلوم ہے، آدم پہلے انسان تھے۔ ان کے دو بیٹوں، قابیل اور ہابیل کے درمیان ایک معاملے میں نزاع پیداہوئی۔ یہاں تک کہ بڑے بیٹے قابیل نے چھوٹے بیٹے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ اگر تم میرے خلاف تشدد کرو تو میں تمھارے خلاف تشدد کرنے والا نہیں (المائدۃ: 28)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بعد تم لڑائی جھگڑے کی سیاست سے مکمل پرہیز کرنا۔ اور اگر نزاع تمھارے سر تک پہنچ جائے تو تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی مانند بن جانا (فلیکن کخیر ابنَی آدم۔ أبوداؤد، کتاب الفتن)۔

اِس پیغمبرانہ نصیحت کا تعلق، صرف سیاسی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ اُس کا تعلق عام زندگی سے ہے۔ مثلاً اگر آپ کے یہاں ایک کارکُن ہے۔ وہ بہت محنتی اور بہت دیانت دار ہے۔ ایسا کارکن ہمیشہ اپنی ذات کے معاملے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی کسی کارکردگی کو لے کر سختی کے ساتھ گرفت کریں تو یقینا وہ غصے میں آجائے گا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کو یہ احساس ہوگا کہ میں اتنا زیادہ وفاداری کے ساتھ کام کررہا ہوں اور یہ مجھ کو ڈانٹ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کے بعد آپ اس قیمتی آدمی کو کھودیں۔

اس معاملے میں دو افراد شامل ہیں، ایک، آپ اور دوسرا، آپ کا کارکن۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک عقل مند آدمی بن جائے۔ یا تو آپ کا کارکن آپ کی ڈانٹ کو نظر انداز کردے اور وہ اس کو حساسیت کے درجے تک نہ پہنچائے، یا آپ خود عقل مندی کا ثبوت دیں اور کارکن کے منفی ردّ عمل کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے اُس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی عقل مندی کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کے بعد اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہ کن صورت میں نکلے گا۔

اسی طرح مثال کے طورپر آپ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ آپ کے اندر اخذ(grasp) کا غیر معمولی مادّہ ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ کسی کے اندر کوئی کمی دیکھیں تو فی الفور آپ اس کو نہایت شدت کے ساتھ محسوس کریں گے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اُس کمی کے بارے میں نہایت شدت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کریں گے۔ عام تجربے کے مطابق، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرا آدمی اُس پر برہم ہوجائے گا۔

یہ صورت حال دونوں کے لیے عقل مندی کا امتحان ہے۔ اگر دوسرا آدمی عقل مندی کا ثبوت دے اور اپنی برہمی کو ظاہر نہ ہونے دے تو یہ اُس کے لیے عقل مندی کی بات ہوگی۔ لیکن اگر دوسرا آدمی اِس عقل مندی کا ثبوت نہ دے تو ایسے موقع پر خود آپ کو عقل مند بننا ہوگا، یعنی آپ اُس کی برہمی کا منفی اثر نہ لیں اور اس کو یک سر نظر انداز کردیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو عقل مند ثابت نہ کر سکے تو اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا۔

باہمی تعلقات کی کامیابی کے لیے یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ اس اصول کا تعلق، خاندانی زندگی سے بھی ہے اور سماجی زندگی سے بھی، اور وسیع تر معنوں میں قومی زندگی سے بھی۔ اِس اصول میں ناکامی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ اداروں اور جماعتوں میں ٹکراؤ کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قوموں کے درمیان جنگ پیش آتی ہے، وغیرہ۔

میرے علم کے مطابق، اِسی اصول کو اختیار نہ کرنے کی بنا پر بر صغیر ہند میں تقسیم (1947) کا واقعہ پیش آیا۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی فریق اگر عقل مندی کا ثبوت دیتا تو یقینی طورپر تقسیم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آتا۔ تاہم اِس معاملے میں زیادہ بڑی ذمّے داری مسلم قیادت کی ہے۔ کیوں کہ اِس معاملے میں مسلم قیادت کی حیثیت مطالبہ کرنے والے فریق کی تھی، اور دوسرے فریق کی حیثیت حالات کے دباؤ کے تحت مطالبے کو مان لینے والے کی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom