پیچھے کی سیٹ

انگریزی زبان کی ایک مشہور مثل ہے کہ ٹاپ کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے:

There is always room at the top

یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اِس سے زیادہ درست اور اہم بات وہ ہے جو اِس قول کے برعکس ہے، اور وہ یہ کہ— پیچھے کی سیٹ پر ہمیشہ جگہ خالی رہتی ہے:

There is always room at the back seat.

بَیک سیٹ پر جانا، کسی آدمی کے لیے بظاہر شکست خوردگی اور پسپائی کی بات ہوتی ہے۔ لیکن بیک سیٹ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سے آدمی کو ہر حال میں ایک نیا آغاز مل جاتا ہے، وہ کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئی صورت میں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوجاتا ہے۔

مسیحیت میں بعد کے زمانے میں پوپ کا مذہبی عہدہ شروع ہوا۔ اس کی اتنی ترقی ہوئی کہ قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں پوپ عملی طورپر پورے یورپ کا پولٹکل ہیڈ بن گیا تھا۔یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد چرچ کے خلاف طاقت ور تحریک اٹھی، یہاں تک کہ یہ ناممکن ہوگیا کہ پوپ کی سیاسی طاقت بدستور باقی رہے۔

اُس وقت مسیحی چرچ اور سیاسی لیڈروں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کو لیٹرین ٹریٹی (Lateran Treaty) کہاجاتا ہے۔ یہ معاہدہ1929میں ہوا، جب کہ اٹلی میں مسولینی (وفات: 1945) حکومت کررہا تھا۔ اِس معاہدے کے مطابق، پوپ پچھلی سیٹ پر بیٹھنے پر راضی ہوگیا۔ چناں چہ روم کے اندر ویٹکن سٹی(Vatican City) کے نام سے ایک خود مختار اسٹیٹ وجود میں آئی، جس کا رقبہ تقریباً ایک سو دس ایکڑ تھا۔

اس طرح ویٹکن کے محدود رقبے پر راضی ہونے کا یہ فائدہ مسیحی چرچ کو ملا کہ پوپ کا پُر عظمت تاریخی ٹائٹل محفوظ رہا— پوپ، دنیا کی سب سے چھوٹی اسٹیٹ کا ہیڈ ہے۔ لیکن عملاً اس کو پوری دنیا کے اندر ایک عظیم مقام ملا ہوا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہے کہ پوری دنیا میں مسیحی سرگرمیوں کو منظم کرسکے۔

اس کے برعکس اب دوسری مثال لیجیے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں خلافت کا سیاسی ادارہ قائم ہوا۔ وہ ایک ہزار سال تک شوکتِ اسلام کی علامت بنا رہا۔ آخری مرحلے میں تُرکی اِس خلافت کا صدر مقام تھا۔ یہاں خلیفۃ المسلمین رہتا تھا، جو عملاً ساری مسلم دنیا کے لیے انٹرنیشنل ہیڈ کی حیثیت رکھتا تھا۔

پہلی عالمی جنگ میں ترک خلافت، جرمنی کے اتحاد میں شریک ہوئی۔ اِس جنگ میں ترک خلافت کو زبردست شکست ہوئی۔ اِسی زمانے میں نیشنل ازم کا عروج ہوا اور بین الاقوامی خلافت کا بقا عملاً ناممکن ہوگیا۔ اِس طرح یہ مسلم خلافت عملاً ٹوٹ پھوٹ گئی، یہاں تک کہ کمال اتاترک نے 1924 میں اِس ختم شدہ خلافت کے رسمی خاتمے کا اعلان کردیا۔

اِس معاملے میں مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع تھا کہ وہ بیک سیٹ پر چلے جائیں۔ اور پوپ کی طرح خلیفۃ المسلمین کے ٹائٹل کو محفوظ رکھیں جو ہزار سالہ تاریخی روایات کے نتیجے میں ایک پُراسرار عظمت حاصل کرچکا تھا۔ اُس زمانے کے مسلم رہ نما اگر ایک محدود رقبۂ زمین میں خلیفۃ المسلمین کا مرکز قائم کرنے پر راضی ہوجاتے تو آج مسلمانوں کے پاس بھی ایک اسلامی ویٹکن (Islamic Vatican) موجود ہوتا۔

مگر اُس زمانے کے مسلم رہ نما، مثلاً سید جمال الدین افغانی، محمد علی جوہر اور ابولکلام آزاد، وغیرہ نے انتہائی نادانی کے ساتھ غَوغائی سیاست برپا کردی۔ وہ بیک سیٹ پر جانے کے بجائے، خلافت کو دوبارہ اُس کی قدیم حیثیت کے ساتھ باقی رکھنا چاہتے تھے، مگر عملاً اِس سیاست کی کامیابی کاکوئی امکان نہ تھا۔ چناں چہ ایک ذلّت آمیز ناکامی کے سوا، مسلم رہ نماؤں کو کچھ اور نہیں ملا۔ ہزار سال کی تاریخی روایات نے خلیفۃ المسلمین کا پُرشوکت ٹائٹل بنایا تھا، پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے کی صورت میں یہ ٹائٹل بلاشبہہ اُسی طرح باقی رکھا جاسکتا تھا، جس طرح پوپ کا ٹائٹل باقی ہے۔ مگر مسلم رہ نماؤں کی ناقابلِ فہم نادانی کے نتیجے میں یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom