ذاتی دفاع، قومی دفاع
حملے کے وقت اپنا دفاع کرنا، ایک جائز حق تسلیم کیاجاتاہے۔ لیکن حملے کی دو قسمیں ہیں، اور اِس اعتبار سے دفاع کی دو قسمیں بنتی ہیں— ذاتی دفاع (self defence) اور قومی دفاع (national defence)۔ دونوں قسم کے حملے کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے، اِس بنا پر دونوں کے لیے دفاع کا حکم بھی الگ ہے۔
ذاتی دفاع وہ ہے جب کہ کسی ایک شخص پردوسرے شخص کی طرف سے حملہ کیاگیا ہو، یا اس کا مال چھیننے کی کوشش کی جائے۔ ایسے موقع پر فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے حملہ آور سے لڑے۔ یہ ایک جائز لڑائی ہے۔ اِسی قسم کی لڑائی کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ: مَن قُتل دون مالہ فہو شہید (صحیح البخاری، کتاب المظالم؛ صحیح مسلم، کتاب الایمان)
دوسری صورت وہ ہے جب کہ ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہوجائے اور وہ اس پر حملہ کردے۔ ایسے موقع پر ملک کو بچانے کے لیے لڑنا مسلّمہ طورپر جائز ہے، اِسی قسم کی جارحیت کے خلاف لڑائی کو قومی دفاع کہاجاتا ہے۔
قومی دفاع مکمل طورپر قائم شدہ ریاست کا ایک حق ہے۔ مگر قومی دفاع صرف ریاست کی طرف سے کیاجائے گا، غیر حکومتی عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود تنظیمیں بنا کر حملہ آور کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔ اگر حکومتِ وقت، عوام کو پکارے تو وہ پکار کے مطابق، دفاع کی مہم میں شریک ہوسکتے ہیں، ورنہ جہاں تک ذمّے داری کا سوال ہے، صرف قائم شدہ ریاست ہی ایسے موقع پر دفاعی جنگ کی خدمت انجام دے گی۔ اسلامی فقہ میں اِسی مسئلے کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الرّحیل للإمام۔
اِس فرق کو نہ جاننے کی صورت میں ایسا ہوگا کہ غیر حکومتی تنظیمیں،یا غیر حکومتی افراددفاع کے نام پر جنگ چھیڑ دیں گے اور اس کو جائز جنگ سمجھیں گے، حالاں کہ یقینی طورپر وہ ایک ناجائز جنگ ہوگی۔ وہ ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں قربانیوں کے باوجود لڑنے والے کو خدا کا انعام حاصل نہیں ہوگا۔