ایک مشکل، دوآسانی
قرآن کی سورہ نمبر 94 میں فطرت کے ایک قانون کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: فإن مع العُسر یُسراً، إن مع العسرِ یُسراً (الإنشراح: 5-6) یعنی بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: لن یغلبَ عُسرٌ یُسرَین، لَن یغلب عُسرٌ یُسرین (ابنِ کثیر) یعنی ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی، ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی۔
اِس تشریح کی مزید وضاحت عبد اللہ بن عباس کے ایک قول میں ملتی ہے۔ انھوں نے کہا: یقول اللہ تعالیٰ: خلقتُ عُسراً واحداً، وخلقتُ یُسرین۔ ولن یغلب عُسرٌ یُسرین (القرطبی) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مشکل ایک پیدا کی، اور آسانی دو پیدا کی۔ اور دوآسانی پر ایک مشکل غالب نہیں آسکتی۔یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں، یہ ایک معلوم واقعہ ہے اور فطرتِ انسانی کا مطالعہ کرکے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نفسیات کے تحت انسان کا جو مطالعہ کیا گیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب کسی مشکل سے دوچار ہو،اور وہ بے حوصلہ نہ ہوجائے تو اس کے اندر ڈبل طاقت آجاتی ہے۔ ایک طاقت وہ جو نارمل صورت میں پہلے سے موجودتھی، اور دوسری طاقت وہ جو اضافہ شدہ محرک (incentive) کی وجہ سے اُس کے اندر آئی۔ اِس طرح مشکل پیش آنے کی صورت میں آدمی اضافہ شدہ محرک کی بنا پر اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ عزم اور زیادہ ہمت کے ساتھ مشکل کا سامنا کرسکے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت ِ انسانی کے اِس راز کو جانے، مشکل پیش آنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو معتدل حالت میں باقی رکھے۔ ایسا کرکے وہ فطرت انسانی کو یہ موقع دے گا وہ اس کے اندر مشکلات سے مقابلہ کرنے کی طاقت کو ڈبل کرسکے اور اِس طرح اس کی کامیابی کو یقینی بنا دے— مشکل، فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ اِسی طرح یہ بھی فطرت کا ایک حصہ ہے کہ جب آدمی پر کوئی مشکل پڑے تو وہ ڈبل طاقت کے ساتھ اس کا سامنا کرنے کے قابل ہوجائے۔