چند مثالی خواتین

تاریخ میں کچھ ایسی خواتین گزری ہیں جن کو دوسروں کے لیے نمونے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اِن خواتین میں سے چند خواتین کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔

ہاجرہ اُمّ ِاسماعیل

اِن خواتین میں سے ایک ہاجرہ اُمِّ اسماعیل ہیں جو پیغمبر ابراہیم کی زوجہ تھیں۔ ان کا زمانہ چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ عرب میں صحرا کے فطری ماحول میں ایک نئی نسل بنائی جائے، جو مشرکانہ کلچر کی کنڈیشننگ سے پاک ہو۔ اِس مقصد کے لیے ایک خاتون کی قربانی درکار تھی۔ ہاجرہ امِ اسماعیل نے یہ قربانی دی۔ وہ مکہ کے غیرآباد صحرا میں اپنے بچے کو لے کر مقیم ہوگئیں۔

یہ نہایت صبر آزما عمل تھا۔ بظاہر یہ موت کے حالا ت میں زندگی تلاش کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ جب حضرت ابرہیم نے انھیں بتایا کہ یہ خدا کا حکم ہے، اُس وقت ہاجرہ نے غیر آباد اور بے آب وگیاہ صحرا میں کہا کہ— پھر توخدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا: إذَن لا یُضیِّعُنَا (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ: واتّخذ اللہ إبراہیم خلیلاً)۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہی پیش آیا۔ اُن کی نسل سے وہاں ایک ایسی قوم بنی جس کو ایک مغربی اسکالر نے ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔

اِس واقعے میں تمام خواتین کے لیے ایک عظیم سبق ہے، یہ کہ اگر وہ خداکے بھروسے پرآگے بڑھ کر کوئی نیک کام کریں تو اُن کو یقینی طورپر خداکی مدد حاصل ہوگی۔ نیک کام میں ان کی قربانی ضرور نتیجہ خیز ثابت ہوگی، وہ کبھی رائگاں نہ جائے گی۔

آسیہ بنتِ مُزاحم

اِسی طرح کی ایک مثال آسیہ بنتِ مُزاحم کی ہے۔ اُن کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ تھا۔ اُن کے زمانے میں پیغمبر موسیٰ کا ظہور ہوا۔ اُس وقت فرعون مصر کا بادشاہ تھا۔ فرعون، حضرت موسیٰ کا دشمن ہوگیا۔ لیکن فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم حضرت موسیٰ کے پیغام توحید سے متاثر ہوئیں اور اُن پر ایمان لائیں۔ اِس پر فرعون سخت برہم ہوا اور آسیہ کے قتل کا حکم دے دیا۔

آسیہ بنت مزاحم نے قتل ہونا منظور کرلیا، لیکن وہ دینِ توحید کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئیں۔ یہ اُن کے لیے ایک عظیم قربانی کا عمل تھا۔ اُن کی اِس قربانی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو قبول کرلیا۔ اُس وقت ان کی زبان سے یہ دعا نکلی: ربّ ابْنِ لی عندک بیتاً فی الجنۃ، ونجِّنی مِن فرعون وعملہ، ونجّنی من القوم الظّالمین (التّحریم: 11) یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے،اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عمل سے بچالے، اور مجھ کو ظالم قوم سے نجات دے۔

یہ دعا اسمِ اعظم کے ساتھ کی ہوئی دعا تھی جو اُسی وقت مقبول ہوگئی۔ اِس واقعے میں یہ نصیحت ہے کہ اگر کوئی عورت (یا مرد) آسیہ جیسی قربانی کا ثبوت دے تواُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی توفیق ملتی ہے، اس کو یقینی طورپر قبولیت کا درجہ حاصل ہوتاہے۔

مریم والدہ حضرت مسیح

اِسی طرح کی ایک مثال حضرت مریم کی ہے جو پیغمبر مسیح کی والدہ تھیں۔ اُن کا زمانہ ڈھائی ہزارسال پہلے کا زمانہ تھا۔انھوں نے اپنی زندگی کو مکمل طورپر خداکے کام کے لیے اور خدا کے ذکر و دعا کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں خدا کی طرف سے یہ خصوصی عنایت حاصل ہوئی کہ اُن کو رزقِ خداوندی (آلِ عمران: 37)پہنچنے لگا۔

’رزقِ خداوندی‘ کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی روحانی غذا ہے۔ یہ خدائی فیضان (divine inspiration) ہے، جو خدا کی طرف سے اُس کے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں (یا ایسے مرد) اعلیٰ ربّانی کیفیات میں جینے لگتے ہیں۔ اُن کو وہ چیز عطا ہوتی ہے جس کو ربانی حکمت (divine wisdom) کہاجاتاہے۔ ایسے لوگ خدا کے خصوصی الہامات کا مہبط بن جاتے ہیں۔

خدا کی یہ خصوصی رحمت جو حضرت مریم کو حاصل ہوئی، اُس کا دروازہ ہر عورت اورہر مرد کے لیے کھلا ہوا ہے، بشرطیکہ وہ اُس اخلاص کا ثبوت دے جس کا ثبوت حضرت مریم نے دیا تھا۔

خدیجہ بنت خویلد

اِسی طرح کی ایک مثالی خاتون خدیجہ بنت خویلد (وفات: 620 ء) ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ تھیں۔ ان کویہ درجہ حاصل ہے کہ انھوں نے آگے بڑھ کرپیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔ پیغمبر اسلام کے لیے مکہ کا زمانہ بہت زیادہ تکلیف اور صعوبت کا زمانہ تھا۔ اِس پوری مدت میں انھوں نے کھلے دل کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا۔ پیغمبر اسلام سے نکاح کے بعد ان کو بہت زیادہ مصیبتیں پیش آئیں، لیکن انھوں نے کبھی آپ سے شکایت نہیں کی۔ وہ ہرحال میں صبر اور شکر کا نمونہ بنی رہیں۔

روایات میں آتا ہے کہ ایک دن حضرت جبریل ان کے گھر آئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو دیکھا لیکن حضرت خدیجہ نے جبریل کو نہیں دیکھا۔ پیغمبراسلام نے حضرت خدیجہ نے کہا کہ یہ جبریل ہیں اور وہ تم کو خدا کی طرف سے سلام پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔ وہ تم کو خوش خبری دے رہے ہیں کہ جنت میں تمھارے لیے ایک خوب صورت گھر ہے، جہاں نہ شور ہوگا اورنہ تکلیف (لا صخب فیہ ولا نصب۔ سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 259)۔

حضرت خدیجہ کو اِس دنیا میں جنت کی خوش خبری دی گئی۔ یہ واقعہ ایک استثنائی معاملے کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ ایک نمونے کو بتار ہا ہے۔ حضرت خدیجہ کے ذریعے تاریخ میں یہ نمونہ قائم ہواکہ جوعورت (یا مرد) حضرت خدیجہ جیسے صبر اور شکر کا ثبوت دے، اُس پر خدا کے فرشتے اُتریں گے اور اِسی دنیا میں وہ اُس کو اِس بات کی بشارت دیں گے کہ اگلے مرحلۂ حیات میں تمھارے لیے جنت ہے، یعنی خوشیوں اور راحتوں کی ابدی دنیا۔

عائشہ بنت ابی بکر

اِسی طرح کا ایک مثالی نمونہ عائشہ بنت ابی بکر الصدیق (وفات: 678 ء) کا ہے۔ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں۔ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد تقریباً پچاس سال تک زندہ رہیں، اور پیغمبر اسلام کے بعد لمبی مدت تک لوگوں کو اسلام کا حکیمانہ پیغام پہنچاتی رہیں۔ وہ ریکارڈنگ کے زمانے سے پہلے پیغمبر اسلام کا زندہ ریکارڈ بنی رہیں۔ اُن کی اسلامی معرفت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اصحابِ رسول اُن سے علمِ دین سیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔

حضرت عائشہ کی زندگی تمام خواتین کے لیے ایک اعلیٰ نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عائشہ نے انتہائی سادہ زندگی اختیار کی۔ معاشی اور مادی معاملات میں انھوں نے آخری حد تک قناعت کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح ان کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے کامل فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے اپنی زندگی پیغمبر اسلام سے علمِ دین سیکھنے میں وقف کردی۔ اِس بنا پر حضرت عائشہ کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد لمبی مدت تک تمام لوگوں کے لیے دین کی معلّم بنی رہیں۔

یہی امکان تمام خواتین کے لیے کھُلا ہوا ہے۔ اگر وہ سادہ زندگی اختیار کریں، اپنے آپ کو دین کا علم سیکھنے میں وقف کردیں تو اُنھیں بھی خدا کی نصرت حاصل ہوگی اور وہ لوگوں کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائیں گی، جس طرح حضرت عائشہ اپنے زمانے میں بنیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom