ففٹی ففٹی کا معاملہ
قرآن کی سورہ نمبر 28 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: إنّک لا تہدی مَن أحببتَ، ولٰکنّ اللہ یہدی مَن یشاء، وہو أعلم بالمُہتدین(القصص: 56)۔ یعنی تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے، اُس کو ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ہدایت کا معاملہ کسی انسان کے لیے ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا پچاس فی صد تعلق، داعی کی دعوت سے ہے۔ دعوت کی تعریف قرآن کے مطابق، یہ ہے کہ اُس کو اِس طرح پیش کیا جائے کہ وہ مدعو کے دل میں اُتر جائے (النساء: 63)۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ بات کو اِس طرح کہاجائے کہ وہ سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کرے۔ مثلاً ایک شخص جس کے اندر ریشنل تھنکنگ ہو، اُس کے سامنے اگر دعوت کو ٹریڈیشنل انداز میں پیش کیاجائے تو اس کا مائنڈ ایڈریس نہیں ہوگا۔ اِس کا نام حکمتِ تبلیغ ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ حکمتِ تبلیغ کا پورا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کاکام کرے۔
قرآ ن کی مذکورہ آیت کے مطابق، ہدایت کا دوسرا نصف حصہ مشیتِ خداوندی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں مشیتِ خداوندی سے مراد فطرتِ خداوندی ہے۔ قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں فطرت کے قانون کو خدا کی طرف منسوب کرکے بتایا جاتا ہے۔ آیت کے الفاظ بظاہر یہ ہیں کہ ’’بلکہ جس کو اللہ چاہے‘‘ لیکن اصل حقیقت کے اعتبار سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت اور تبلیغ کے باوجود ہدایت صرف اُس کو ملتی ہے، جو خود بھی طالبِ ہدایت ہو۔ اگر مدعو طالبِ ہدایت نہیں ہے تو داعی کی یک طرفہ کوشش سے اُس کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
طالبِ ہدایت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کو ہدایت کے معاملے میں اُسی طرح متحرک کرے، جس طرح وہ دُنیوی معاملات میں اپنے ذہن کو متحرک کرتاہے۔ مثلاً ایک شخص کو دولت حاصل ہوجائے تو وہ احساسِ برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہاں ضرورت تھی کہ وہ اپنے ذہن کواستعمال کرکے یہ سمجھے کہ دولت کا تعلق دنیا کی ضرورتوں سے ہے، دولت کا تعلق سچائی سے نہیں۔ دولت پانے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس نے سچائی کو بھی پالیا۔ اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ دولت اور سچائی کے اِس فرق کو سمجھے گا اور احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو حق سے مستغنی سمجھنے کی غلطی نہیں کرے گا، اور پھر وہ سچائی کو پانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اِسی طرح ایک شخص جب ایک ماحول میں لمبی مدت تک رہتا ہے تو اُس کو اُس ماحول کے افکار سے متعصبانہ تعلق ہوجاتا ہے، اور ماحول کی طرف سے اُس کو جو کچھ ملا ہے، اُس کو وہ حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ مزاج اُس کے لیے حق کو پہچاننے میں رُکاوٹ بن جاتاہے۔ اب اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ متعصابہ فکر اور حقیقی فکر کے فرق کو سمجھے گا، اور جس آدمی کے اندر ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کی صلاحیت ہو، اُس کے سامنے جب حق آتا ہے تو وہ اس کو پہچان لیتا ہے اور پھر پورے دل وجان کے ساتھ وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔
سچائی کو پانے کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تلاش کا ہے اور دوسرا مرحلہ دریافت کا۔ یہ دونوں مرحلے قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتے ہیں۔قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں فرمایا: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحیٰ: 7) یعنی خدا نے تم کو تلاشِ حق میں سرگرداں پایا، پھر تم کو اُس نے ہدایت دے دی۔ اِس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی پہلے حق کا مُتلاشی (seeker) بنتا ہے، پھر اُس کو حق کی دریافت ہوتی ہے۔ متلاشی بننے کا مطلب ذہنی استعداد ہے۔ جب کسی آدمی کے اندر ذہنی استعداد پیدا ہوجائے تو وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ اُس کے سامنے حق آئے تو وہ اس کو اپنی تلاش کا جواب سمجھے اور پوری آمادگی کے ساتھ اس کو فوراً مان لے۔