معرفتِ دین، احکامِ دین

دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ اس کے ایک حصے کو معرفت کہہ سکتے ہیں، اور اس کا دوسراحصہ وہ ہے جس کو احکام کہاجاتاہے۔ اگر چہ دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں، جس طرح ایک انسانی شخصیت کے لیے روح اور جسم دونوں یکساں طورپر ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن معرفت اور احکام میں یہ فرق ہے کہ معرفت، دین کا اصل حصہ(real part) ہے اور اس کے مقابلے میں، احکام کا حصہ دین کا اضافی حصہ (relative part) ہے۔ دین میں مذکورہ دو حصے کا ہونا نصّ کے ذریعے ثابت ہے۔ مثلاًپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بارے میں فرمایا: لکلِّ اٰیۃٍ منہا ظَہْرٌ وبَطْنٌ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:238) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک ظَہر(outer portion) ہے اور دوسرا اس کا بَطن (inner portion) ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی آیات کا ایک پہلو سطور(lines) میں ہے اور اس کا دوسرا پہلو بین السطور(between the lines) میں ملتا ہے۔ اِس حدیث کو لے کر کہا جاسکتا ہے کہ دین کی معرفت نام ہے داخلی معنویت کا، اوردین کے مسائل یا احکام سے مراد دین کا خارجی ڈھانچہ ہے۔

مثال کے طور پر ایمان کو لیجیے۔ فقہی اعتبار سے ایمان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان سے کہے کہ: أشہد أن لاّ إلٰہ إلاّ اللہ، وأشہد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ۔ جس شخص نے اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کردیے، وہ فقہی مسئلے کے اعتبار سے مومن بن گیا، لیکن جہاں تک ایمان کی معرفت کی بات ہے، وہ اِس قسم کے تلفّظ سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ کسی شخص کو ذہنی انقلاب (intellectual revolution)کے ذریعے حاصل ہوتاہے، نہ کہ محض ادایگیٔ الفاظ کے ذریعے۔

معرفت والا ایمان کیا ہے، اس کو قرآن کی اِس آیت سے سمجھئے: وإذا سمعوا ما أُنزل إلی الرّسول تریٰ أعینَہم تفیض من الدّمع مما عرفوا من الحق (الأنعام: 83) اِس آیت میں ایک ایسے گروہ کا ذکر ہے، جو قرآن کی کچھ آیتوں کو سن کر ایمان لایا۔ انھوں نے بھی اُسی طرح اپنی زبان سے کلمۂ ایمان ادا کیا، لیکن اُن کی یہ ادایگی ایک قلبی عرفان کی بنیاد پر تھی۔ ان کا یہ عرفانِ حق اتنا گہرا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ پڑا۔

ایمان کی نسبت سے اوپر جو بات کہی گئی، وہی دین کی تمام باتوں کے لیے درست ہے۔ دین کی تمام تعلیمات کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ایک پہلو وہ ہوتا ہے، جو نص کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، اور اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نص کے الفاظ پر گہرے غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے۔

دین میں گہری معرفت حاصل کرنے کی شرط کیا ہے۔ اس کی واحد شرط تقویٰ ہے، یعنی خداکا خوف۔ معرفت کی یہ شرط قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اتّقوا اللہ ویعلّمکم اللہ (البقرۃ:282)۔ یعنی تم اللہ سے ڈرو اور پھر اِس ڈر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کی توفیق سے تم دین کے گہرے علم تک پہنچ جاؤگے۔ دین کے ظاہری احکام کو جاننے کے لیے خوفِ خدا کی ضرورت نہیں، اِس کے لیے فقہ کی کتابوں کو پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن دین کے معرفت والے حصے تک پہنچنا، صرف اُس شخص کے لیے ممکن ہے جو خدا سے ڈرنے والا ہو، خدا کے خوف نے جس کو مَین کٹ ٹو سائز(man cut to size) بنا دیا ہو۔

اِس معاملے میں ایک حدیث پر غور کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر، فلیقل خیراً أو لیصمت (صحیح البخاری، کتاب الادب) یعنی جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات بولے، ورنہ چپ رہے۔ یہ حدیث ہم کو کلامِ تقویٰ کی ایک پہچان دیتی ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ جس آدمی کے دل میں اللہ کا ڈر سمایا ہوا ہو، وہ اگر کسی کے خلاف بولے گا تو وہ صرف اُس وقت بولے گا، جب کہ اس کے پاس اپنے قول کے حق میں ناقابلِ انکار دلیل موجود ہو۔ اگر اس کے پاس ایسی دلیل نہ ہو تو وہ اِس موضوع پر بالکل خاموش رہے گا۔

اِس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا کہ آدمی کسی شخص کے بارے میں ایک مخالفانہ بیان (negative remark) دے، لیکن وہ صرف ایک مجرّد بیان ہو، اس بیان کے ثبوت کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، تو ایسا بیان یقینی طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آدمی خوفِ خدا سے کانپنے والا آدمی نہیں۔ اس کا بیان ایک بے خوفی کا بیان ہے، نہ کہ خوفِ خدا والابیان۔

مجھے ذاتی طورپر اِس معاملے میں نہایت تلخ تجربے ہوئے ہیں۔ بے ریش اور باریش دونوں قسم کے لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوں نے میرے بارے میں مخالفانہ ریمارک دیے، جب کہ اِس ریمارک کے ساتھ کوئی دلیل شامل نہ تھی۔ مثلاً کسی نے میرے بارے میں کہا کہ وہ ایک ’’متنازعہ شخصیت‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر ’’اَسلاف سے بے اعتمادی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کی فکر میں ’’انتہا پسندی‘‘ ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ ’’ردّ عمل کی نفسیات‘‘ کے تحت لکھتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی تحریریں ’’بُزدلی‘‘ کا سبق دیتی ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ اسلام کو اس کی ٹوٹیلٹی (totality) میں پیش نہیں کرتے۔ کسی نے کہا کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے ’’منکر‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے یہاں ’’تنقیدات اور تفرّدات‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں، وغیرہ۔

اِن تمام لوگوں کی مشترک صفت یہ ہے کہ وہ صرف مخالفانہ ریمارک دیتے ہیں، لیکن وہ اپنے ریمارک کی کوئی علمی دلیل نہیں دیتے، حتی کہ وہ اپنے اِس مخالفانہ ریمارک کے حق میں میری کسی تحریر سے کوئی اقتباس بھی پیش نہیں کرتے۔ وہ یا تو اقتباس پیش کیے بغیر اپنا بیان دیتے ہیں، یا اگر کوئی اقتباس پیش کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ بدلی ہوئی اور ناقص صورت میں ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنی تحریر میں خود کیا کہا ہے، بلکہ میری تحریر کا حوالہ دے کر وہ خود اپنی بات کہنے لگتے ہیں۔

اِس قسم کی تمام باتیں بلاشبہہ خدا سے بے خوفی کا نتیجہ ہیں۔ اور جو دل خدا کے خوف سے خالی ہو، وہ یقینی طورپر معرفت سے بھی خالی ہوگا۔ یہی آج کل تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ آج کل، دین کے موضوع پر لکھنے اور بولنے والوں کا سیلاب آیا ہوا ہے، لیکن اِن لوگوں کی تحریریں اور تقریریں محض الفاظ کا ڈھیر ہوتی ہیں۔ ڈکشنری کے تمام الفاظ بولنے کے باوجود ان کی تقریروں اور تحریروں سے سننے اور پڑھنے والے کودین کی کوئی معرفت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ یہ تمام تقریریں اور تحریریں لفظی معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہیں، نہ کہ معرفتِ حق کی بنیاد پر۔

آج کل ہر طرف تقریروں اور تحریروں کا جنگل نظر آتا ہے، لیکن یہ تقریریں اور تحریریں سوکھی گھاس کی مانند ہوتی ہیں۔ اِن میں نہ تو معرفت کی خوش بو ہوتی ہے اور نہ حکمت کی روشنی۔ اِن میں نہ تو محبتِ الٰہی کی غذا ہوتی ہے اور نہ خوفِ خدا کی چنگاری۔ اِن تقریروں اور تحریر وں میں سطحی لوگوں کے لیے ادبی چاشنی یا قومی فخر جیسی منفی خوراک تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں نہ وضوح (clarity) ہوتا ہے اور نہ دین کی گہری بصیرت۔

یہ تقریریں اور تحریریں صرف شَبد جنجال کا نمونہ ہوتی ہیں، لیکن اُن سے روحِ انسانی میں نہ اہتزاز (thrill) پیدا ہوتا اور نہ آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈتاہے۔ اُن کو پڑھ کر اور سن کر انسان نہ جنت کی طرف دوڑنے والا بنتا ہے اور نہ جہنم سے بھاگنے والا۔ یہ تقریریں اور تحریریں انسان کے لیے خشک صحرا میں سفر کی مانند ہوتی ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔

اس معاملے کا تجربہ میں نے مختلف انداز سے کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص مجھ سے ملے گا اور کسی مقرّر کی تقریر کا ذکر کرے گا۔ وہ نہایت پُر جوش طورپر ان کی تقریروں کی تعریف کرے گا۔ لیکن جب میں اُس سے پوچھوں گا کہ ان کی تقریر میں آپ کو کیا نئی اور خاص بات ملی تو وہ کچھ نہ بتاپائے گا۔ یہ تجربہ میں نے بار بار کیا ہے۔ آج کل کے تقریباً تمام مشہور مقررین کا حال یہ ہے کہ ان کی تقریروں کو سن کر لوگ خوب خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، لیکن وہ اِن تقریروں سے کچھ اپنے لیے لے کر نہیں لوٹتے۔ اِن تقریروں میں الفاظ کی بھر مار تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں سننے والے کے لیے کچھ ٹیک اوے (take away) نہیں ہوتا۔

یہی معاملہ کتابوں کا ہے۔ کسی دینی کتاب کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے آدمی کو سچائی کی دریافت ہو، وہ خدا کو پہچانے، وہ اس کے ذریعے سے کوئی روحانی خوراک حاصل کرے۔ مگر یہاں بھی یہی حال ہے کہ لوگ مقالات اورکتابوں کی تعریفیں کرتے ہیں، مگر جب اُن سے پوچھا جائے کہ اِس کتاب میں تم کو خود اپنے لیے کیا ملا، اِس سے تم کو خود اپنے ذہنی ارتقا کے لیے کیا سامان حاصل ہوا۔ جب اُن سے ایسا سوال کیاجائے تو اِس کے جواب میں وہ کچھ بھی نہیں کہہ پاتے۔ اُن کے پاس کہنے کے لیے کوئی ایسی نئی بات نہیں ہوتی، جس کو انھوں نے اِس کتاب کے مطالعے کے ذریعے پایا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom