جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

ایک بار میں راجستھان کے ایک مقام پر گیا۔ یہ سفر مولانا محمد تقی امینی (وفات: 1991) کے ساتھ ہوا تھا۔ ہم دونوں ایک صاحب سے ملے۔ وہ آبادی سے باہر ایک فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔ اُن کو اپنے والد سے کافی مال وراثت میں ملا تھا۔ انھوں نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی، اور دونوں اس فارم ہاؤس میں رہنے لگے۔ بظاہر یہ فارم ہاؤس ایک خوب صورت دنیا کا منظر پیش کررہا تھا، لیکن اُس کے اندر جو عورت اور مرد رہ رہے تھے، وہ کامل افسردگی کی تصویر تھے۔

اِن دونوں نے اپنی پسند کی شادی کی، اور پھر اِس فارم ہاؤس کے اندر ایک پُر مسرت اِزدواجی زندگی گزارنے لگے۔ کچھ سالوں تک دونوں بہت خوش تھے۔ اُس کے بعد دونوں، فارم ہاؤس کی اِس زندگی سے اکتا گیے۔ میں اور مولانا محمد تقی امینی اُس گھر میں ایک رات اور ایک دن ٹھیرے۔ اِس مدتِ قیام میں میں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کررہے ہوں۔ یہ فارم ہاؤس جو کبھی خوشیوں کا گہوارہ معلوم ہوتاہوگا، اب وہ افسردگی کا ایک قبرستان بنا ہوا نظر آتا تھا۔

میں نے اپنی زندگی میں اِس طرح کے بہت سے لوگ دیکھے ہیں، مسلمانوں میں بھی اور غیرمسلموں میں بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نہایت محنت سے مال کمایا، لیکن جب مال اُنھیں حاصل ہوگیا تو انھوں نے دریافت کیا کہ مال میں اُن کے لیے کوئی خوشی نہیں۔

کسی نے نہایت ذوق وشوق کے ساتھ اپنی پسند کی شادی کی، لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ شادی اُن کے لیے صرف ایک خشک ذمے داری ہے، نہ کہ خوشیوں کی پُرمسرت زندگی۔ کسی نے اپنی پوری زندگی کو سیاست میں وقف کیا، تاکہ وہ سیاسی اقتدار کی کرسی پر پہنچ سکے، لیکن جب سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تو اُس کے لیے خوشیوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔کسی کا نشانہ یہ تھا کہ اُس کے پاس ایک کشادہ اور خوب صورت مکان ہو، لیکن مکان جب بن کر تیار ہوگیا تو اس کے چہرے سے خوشی رخصت ہوچکی تھی، وغیرہ۔

موجودہ دنیا کا سب سے زیادہ الم ناک پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے المیہ (tragedy)کے سوا اور کچھ نہیں۔ بڑے بڑے ادیبوں نے ہر زبان میں لاکھوں کی تعداد میں ناول لکھے ہیں۔ یہ ناول گویا انسانی جذبات کی ترجمانی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان میں کوئی طَربیہ (comedy)ناول کبھی زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔دنیا میں جتنے بھی مقبول ناول ہیں، وہ سب کے سب المیہ (tragedy)ہیں۔

اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان اِس احساس میں جی رہا ہے کہ وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا، وہ اس کو حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ المیہ ناول انسان کے دل کو چھوتے ہیں، طربیہ ناول انسان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتے۔

یہ انسانی زندگی کا بڑا عجیب پہلو ہے کہ ہر انسان کی عمر کا پہلا نصف حصہ خوشی کی تلاش میں گزرتا ہے، اور بقیہ نصف حصہ اِس احساس میں کہ بظاہر خوشیوں کے سامان حاصل کرنے کے باوجود میں اپنے لیے خوشیوں کی مطلوب دنیا نہ بناسکا۔

تاریخ کا یہ تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی موجودہ زندگی اِس لیے نہیں ہے کہ وہ یہاں اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنائے۔ موجودہ زندگی صرف اس لیے ہے کہ آدمی حسنِ عمل سے اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں خوشیوں کی مطلوب دنیا پاسکے۔ موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات،اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانے کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات حسب استحقاق جنت میں داخلے کا مرحلہ، یعنی خوشیوں کی اُس دنیا میں داخلے کا مرحلہ،جس کو ہر آدمی کی روح تلاش کررہی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom