تعمیر، سیاست
ابو علی محمد بن علی بن مُقْلَہ (۳۲۸ – ۲۷۲ ھ) نہایت اعلیٰ صلاحیت والا آدمی تھا۔ اس نے اپنی غیر معمولی فن کا رانہ صلاحیت سے قدیم عربی خط (خط کوفی )میں مجتہدانہ اصلاحات کیں۔ اور اس کو حسین اور جامع بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے عربی خط کو ابتدائی دور سے نکال کر تکمیلی دور میں پہنچا دیا۔ فلپ کے ہٹی نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں اس کو عربی فنِ کتابت کا بانی (Founder of Arabic Calligraphy) کہا ہے(صفحہ ۴۶۸)
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے لکھا ہے کہ ابن مقلہ ۸۸۶ء میں بغداد میں پیدا ہوا ، اور ۹۴۰ء میں بغداد ہی میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ عباسی دور (۱۲۵۸ - ۷۵۰) کا ممتاز ترین خطاط تھا۔ اس نے عربی خط کو کوفی خط کے دور سے نکال کر نسخی خط کے دور میں پہنچایا۔ اس طرح اس نے عربی خط کو نیا حسن (Beauty)عطا کیا۔ (272(V/
ابن مقلہ ابتداءً بغداد میں عباسی حکومت کے ایک دفتر میں چھ دینا رما ہوار پرمنشی تھا۔ پھر اس کا فنی کمال اس کو خلیفہ کے دربار تک لے گیا۔ یہاں اس نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ مسلسل تین بادشاہوں کا وزیر بنتارہا۔ اولاً مقتدر باللہ عباسی (۳۲۰ -۲۸۲ھ) کا ، پھر اس کے بھائی قاہر باللہ(۳۲۲ - ۳۲۰ھ) کا ، اس کے بعد راضی باللہ (۳۲۹ - ۲۹۷ھ) کا۔
واضح ہو کہ "وزیر"قدیم زمانے میں وزیر اعظم کے ہم معنی ہوتا تھا۔ کیونکہ بادشاہ کا صرف ایک وزیر ہوتا تھا اور اس کو سارے اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ مقتدر باللہ کے ابتدائی زمانے میں حامد بن عباس وزیر تھا۔ اس کے ساتھ اس نے علی بن عیسی الجراح کو نائب وزیر بنایا تو لوگوں کو سخت تعجب ہوا۔ ایک شاعر کی نظم کا ایک شعر یہ ہے :
أَعْجَبَ من كلِّ ما رأينا … أنّ وَزِيرَيْن فِي بِلَادٍ .
سب سے عجیب بات جو ہم نے دیکھی وہ یہ کہ ایک ملک میں دو وزیر ہیں
ابن مُقْلَہ کے یہ مناصب اس کے فن کی ترقی میں بے حد مدد گار ثابت ہو سکتے تھے۔ اگر ان ملے ہوئے مواقع کو وہ فن ِتحریر اور اس سلسلے کی دوسری چیزوں کی ترقی اور تحقیق میں لگاتا تو نہ صرف یہ کہ عربی رسم الخط بہت پہلے اپنے معراج کمال کو پہنچ جاتا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ تحریر اور کتاب کے میدان کی بہت سی دوسری ایجا دیں جواس کے بہت بعد سامنے آئیں اسی کے زمانے میں وجود میں آگئی ہو تیں۔
مثال کے طور پر کاغذ ابن مقلہ سے آٹھ سو برس پہلے ۱۰۵ء میں چین میں ایجاد ہوا۔ اس کا ایجاد کرنے والا سائی لون تھا جو ابن مقلہ کی طرح چینی شہنشاہ ہوئی کا وزیر تھا۔ روسی ترکستان میں عربوں اور چینیوں کی جنگ میں کچھ چینی قیدی جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے وہ کاغذ بنانا جانتے تھے۔ سمرقند میں ان سے کاغذ بنوایا گیا۔ اس کے بعد ۷۹۵ ء میں دستی کاغذ کی صنعت بغداد میں قائم ہوئی ۔ تاہم مشین کے ذریعے کاغذ بنانے کا کام پہلی بار ۱۷۵۰ء میں ہالینڈ میں کیا گیا مسلسل رول کی شکل میں کاغذ بنانے کی صنعت ۱۷۹۸ء میں فرانس میں شروع ہوئی۔
اسی طرح پرنٹنگ پریس پہلی بار غالباً چینیوں نے ۷۷۰ ء میں دریافت کیا۔ یہ ابن مُقلہ (۹۴۰- ۸۸۵ء ) کی پیدائش سے ۱۱۵ سال پہلے کا زمانہ تھا۔ پرنٹنگ کا قدیم ترین نمونہ اس سے بھی پہلے پانچویں صدی عیسوی کا چین میں دریافت ہوا ہے۔ یورپ میں ترقی یافتہ پرنٹنگ پریس ۱۵ ویں صدی میں گوٹن برگ نے بنایا اور بائبل چھاپی۔ تاہم مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس نپولین کے ذریعے ۱۷۹۸ میں پہلی بار مصر پہنچا۔
ابن مقلہ جو نہ صرف فن تحریر کا ماہر تھا کہ حیرت انگیز تخلیقی صلاحیت رکھتا تھا۔ اگر وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو اپنے میدان میں لگاتا تو کا غذ اور چھپائی اور اس طرح کی دوسری نعمتیں جو عالم اسلام کو بہت بعد کو ملیں، شاید ابن مقلہ کے زمانہ ہی میں وہ اس کو مل چکی ہوتیں۔ ابن مقلہ ہزار سال پہلے دنیا کو دورِ پریس میں داخل کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ مگر وہ اس پر قانع نہ رہ سکا کہ اپنے آپ کو اپنے مخصوص میدان میں محدود رکھے۔ وزارت کے ملے ہوئے مواقع کو وہ تحریر اور کاغذ اور چھپائی کی ترقی میں استعمال کر سکتا تھا۔ اس کے برعکس اس نے ان مواقع کو عزت و ناموری کی طرف چھلانگ لگانے کے لیے ایک زینہ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ خود بھی برباد ہوا، اور ملت بھی اس قیمتی فائدہ سے محروم رہ گئی جو اس کی خدا داد صلاحیت کے ذریعہ ملت کو پہنچ سکتا تھا۔
ابن مقلہ جب وزیر (یا وزیر اعظم )کے منصب پر پہنچ گیا تو اس کے لیے صحیح ترین بات یہ تھی کہ وہ اس اعلیٰ موقع کو تعمیری میدان میں استعمال کرے۔ مگر وہ حبِ جاہ کی اسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس میں اکثر وہ لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں جن کو حالات کسی بلند مقام پر پہنچا دیں۔ اس کے فنی اور تعمیری حوصلے اب سیاسی عزائم میں تبدیل ہو گئے۔ خاموش خدمت میں مشغول رہنے کے بجائے اب وہ خفیہ قسم کی سیاسی اور فوجی تحریکوں کا لیڈر بن گیا۔ اب اس نے چاہا کہ حکومت کے نظام میں اپنے مفید مطلب انقلاب لائے۔ اس نے ایک خفیہ منصوبہ کے تحت یہ کوشش شروع کردی کہ خلیفہ قاہر باللہ کو تخت سے اتار کر ابو احمد بن مکتفی کو عباسی سلطنت کا تاج پہنایا جائے۔
کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے (حبك الشيئ يعمى ويصم) ابن مقلہ بھی اپنی ساری ذہانت کے باوجود اسی کمزوری کا شکار ہوا۔ وہ اپنے حالات کا اور اس کے مقابلہ میں خلیفہ کی طاقت کا صحیح اندازہ نہ کر سکا۔ چنانچہ راز کھل گیا۔ ابن مقلہ پر یہ الزام لگا کہ اس نے فوجی سردار مونس خادم کے ساتھ مل کر قاہر باللہ کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی تھی۔
سازش کے انکشاف کے بعد ابن مقلہ کا گھر جلوا دیا گیا۔ ابو احمد بن مکتفی کو دیوار میں چن دیا گیا۔ تاہم ابن مقلہ کی ذہانت اس کے کام آئی۔ وہ فرار ہو کر بچ گیا اور اس کے بعد پانچ لاکھ دینار خلیفہ کو نذر کر کے دوباره وزارت حاصل کر لی۔ مگر اس کے سیاسی عزائم نے دوبارہ اس کے لیے مسائل پیدا کئے۔ یہاں تک کی راضی باللہ نے اس کو وزارت سے معزول کر کے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا اور اس کا دایاں ہاتھ کٹوا دیا۔ بلاشبہ یہ ایک سخت ترین سزا تھی جو کسی فن کار کو دی جا سکتی تھی۔ گھر کی قید میں جو اشعار وہ پڑھاکرتا تھا ، اس میں سے ایک شعر یہ تھا :
لَيْسَ بَعْدَ الْيَمِينِ لَذَّةُ عَيْشٍ يَا حَيَاتِي بَانَتْ يَمِينِي فَبِينِي
دایاں ہاتھ کٹ جانے کے بعد زندگی میں کوئی لطف نہیں ، اے میری زندگی جب میرا دایاں ہاتھ مجھ سے جداہو گیا تو تو بھی جدا ہو جا۔
ابن مقلہ کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب اس کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو اس نے بائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق کی۔ یہاں تک کہ بائیں ہاتھ سے بھی وہ اتنا ہی اچھا لکھ لیتا تھا جیسا وہ دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔ پھر اس نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ میں ایک قلم باندھا اور اس سے لکھنے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ ہاتھ کٹنے سے پہلے کے خط اور ہاتھ کٹنے کے بعد کے خط میں کوئی تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ یہ باکمال انسان اپنے گھر کے قید خانے میں ۵۶ سال کی عمر میں مرگیا۔ (ہٹی ، صفحہ ۴۲۴)
ابن مقلہ شاعربھی تھا۔ اس نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کے ماتم میں بہت سے اشعار موزوں کیے ۔ وہ کہتا تھا: وہ ہاتھ جس نے قرآن کے فلاں فلاں نسخے لکھے، جس نے رسول اللہ کی فلاں فلاں حدیثوں کی کتابت کی جس نےمشرق اور مغرب میں احکام لکھ کر بھیجے، وہ چوروں کے ہاتھ کی طرح کاٹ دیا گیا۔
مگر اس دنیا میں اس قسم کے جذباتی الفاظ کی کوئی قیمت نہیں۔ ابن مقلہ کی غلطی یہ تھی کہ وہ قر آن اور حدیث لکھنے ہی پر نہیں رکا ، اس نے حد سے نکل کر ایسے مقام پر اپنا ہاتھ ڈال دیا جو اس کا مقام نہ تھا۔ اور جوشخص اس طرح حد سے نکل جائے ، اُس کا اس دنیا میں یہی انجام ہوتا ہے۔
ابن مقلہ مر گیا مگر اس کا کردار آج بھی زندہ ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ ہیں جو عین ابن مقلہ کے راستہ پر چل رہے ہیں۔ وہ اپنے ملے ہوئے مواقع کو تعمیرملت کی بجائے ذاتی جاہ کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملت کی تاریخ تعمیر کی تاریخ بننے کے بجائے تخریب کی تاریخ بن رہی ہے۔
ماضی کے ابن مقلہ کو تاریخ معاف کر سکتی ہے، مگر حال کے" ابن مقلہ" جو اپنے مناصب کو تعمیری جد و جہدمیں نہیں لگاتے بلکہ اشتہاری قسم کے ذاتی عزائم میں اپنے قیمتی مواقع کو برباد کر رہے ہیں ، ان کے پاس دوسری بار اس اندوہناک غلطی میں مبتلا ہونے کا کیا عذر ہے ۔ کیا انھیں یاد نہیں کہ مومن کی تعریف یہ کی گئی ہےکہ وہ ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاتا (المؤمن لا يُلْدَغُ مِنْ جُحْرٍ مَرّتَيْنِ)
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہترین صلاحیتیں ہمیشہ سیاسی عزائم میں برباد ہوئی ہیں۔ سیاست بازی کے کام میں عام طور پر وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جو قدرت سے اعلیٰ صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اعلی ٰصلاحیت کو کسی تعمیری خدمت میں لگانے کے بجائے سیاسی حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجےمیں بے شمار انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ بے شمار اقتصادی وسائل برباد ہوتے ہیں۔ اور عملاً اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ کچھ لوگوں کو لیڈرانہ شہرت حاصل ہو جائے اور عوام کے حصہ میں صرف یہ نتیجہ آئے کہ ایک" ظالم" کی جگہ دوسرا" ظالم "تخت سلطنت پر بیٹھ گیا ہو ۔
تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے کہ مقابلہ آرائی کی سیاست سے کبھی کوئی حقیقی نتیجہ برآمد ہوا ہو۔ قوم کو اٹھانے کا راز یہ ہے کہ قوم کے رہنما اپنے سیاسی جھنڈے کو نیچا کر لیں۔ انفرادی حوصلوں کا "بیج" جہاں زمین میں دفن ہوتا ہے وہیں سے قومی مستقبل کا شاندار" درخت" اگتا ہے۔ آج ہماری تاریخ کو اسی قسم کی نفسیاتی شہادت کا انتظار ہے نہ کہ جسمانی قتل اور ہلاکت کا۔