رحمۃ للعالمین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں رحمۃ للعالمین (سارے عالم کے لیے رحمت) کہا گیاہے۔ اسی بات کو خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی مسدس میں اس طرح نظم کیا ہے :
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
پیغمبر اسلام رحمت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے۔ ایک مورخ کے الفاظ میں، رحمت آپ کی شخصیت کو سمجھنے کی کنجی ہے۔ آپ کا تمام قول اور تمام عمل جس بنیادی اصول کے ماتحت ہوتا تھا وہ یہی رحمت کا پہلو ہے۔ آپ وہی بات بولتے تھے جس میں انسانوں کے لیے رحمت کا سامان ہو۔ آپ اسی طریقہ کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کرتے تھے جو انسانی معاشرہ میں رحمت والا نتیجہ پیدا کرے۔
آپ جس دین کو لائے اس کی بابت قرآن میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ اس دین کے ذریعہ لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ اسی لیے آپ کے لائے ہوئے دین کا نام اسلام قرار پایا جس میں سلامتی کا مفہوم شامل ہے ۔ آپ مکمل سلامتی تھے اور آپ نے لوگوں کو سلامتی کی طرف دعوت دی۔
آپ نے انسان کو جس جنت کا طالب بننے کی دعوت دی ، اس کی تصویر قرآن میں یہ ہے کہ اس میں کوئی لغو بات یا گناہ کی بات نہ ہوگی۔ وہاں ہر طرف صرف سلامتی کا قول سنائی دے گا۔ اس طرح آپ نے لوگوں کو بتایا کہ اگر تم موت کے بعد والی دنیا میں جنت کے ماحول میں رہنا چاہتے ہو تو موت سے پہلے کی زندگی میں تم کو لغو باتوں اور گناہ والے کاموں سے بچنا ہو گا۔ تم کو دنیا کے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ تمہارے دل میں لوگوں کے لیے سلامتی اور خیر خواہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر تم نے اپنے بارے میں اس اخلاقی صفت کا حامل ہونے کا ثبوت نہیں دیا تو تم جنت کی نفیس آبادیوں میں بسائےجانے کے لیے نا اہل ٹھہر و گے۔
آپ نے انسان کو یہ تعلیم دی کہ جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے ملے تو وہ اس سے کہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ (تمہارے اوپر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو) یہ صرف ایک لفظی کلمہ نہیں ، بلکہ یہ دوسرے کے بارے میں اپنے دل کی کیفیت کا اظہار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ تمہارے لیے میرے دل میں صرف سلامتی کا جذبہ ہے۔ میں تمہارا اتنا زیادہ خیر خواہ ہوں کہ میرے دل سے تمہارے لیے امن و عافیت کی دعائیں نکلتی ہیں۔ مجھ سے تم کوئی اندیشہ محسوس نہ کرو ، بلکہ میری طرف سے مامون رہو ۔ کیوں کہ مجھ سے تم کو سلامتی اور رحمت کے سوا کوئی اور تجربہ ہونے والا نہیں۔
آپ نے لوگوں کو تلقین کی کہ ہر شخص دوسرے کے لیے نفع بخش بننے کی کوشش کرے ، اگر وہ نفع بخش نہ بن سکے تو وہ اس کے حق میں اچھی بات ہے ۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو وہ کم از کم یہ کرے کہ وہ اپنے شرسے دوسروں کو بچالے۔ آپ نے راستہ سے پتھر یا کانٹا ہٹانے کو بھی ایمان کا جزء قرار دیا۔
آپ نے اپنے پیروؤں کے لیے جو عبادتی احکام مقرر کئے ، ان میں سے ایک زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی کمائی کا ایک حصہ ہر سال دوسرے حاجت مندوں کو دیا جائے ۔ یہ گویا مال کے ذریعہ اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ میں سنجید گی کی حد تک دوسروں کا خیر خواہ ہوں۔
انسانی اخلاقیات کی بنیاد آپ نے جس اصول پر رکھی وہ یہ تھا کہ ––––– دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ یہ اصول پوری سماجی زندگی کے لیے رحمت ہے ۔ ہر آدمی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اس کو کیا چیز پسند ہے اور کیا چیز نا پسند ۔مثلاً ہر آدمی چاہتا ہے کہ مجھ سے محبت کی جائے ،مجھ سے نفرت نہ کی جائے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ امانت داری کا معاملہ کیا جائے، اس کے ساتھ دغا بازی کا معاملہ نہ کیا جائے۔ ہر آدمی کو پسند ہے کہ لوگ اس سے میٹھا بول بولیں ، کڑ وا بول نہ بولیں۔
بس پسند اور ناپسند کا یہی معاملہ ہر آدمی دوسروں کے ساتھ بھی کرنے لگے ۔ اگر ہر آدمی ایسا کرےکہ دوسروں کے ساتھ وہ وہی سلوک کرے جو سلوک وہ اپنے لیے ، پسند کرتا ہے تو ساراسماج امن اورسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
آپ نے لوگوں کو جن باتوں کی تعلیم دی، ان میں سے ایک اہم تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برا سلوک کرے، تب بھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ تم لوگوں کے ساتھ برابر کا اخلاق نہ بر تو بلکہ بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرو۔ دوسروں کے ساتھ تمہارابرتاؤ ان کے عمل کے رد عمل میں نہ ہو،بلکہ خود اپنے اعلیٰ اصولوں کی روشنی میں ہو۔
اس تعلیم میں بہت بڑی حکمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی کا یہی واحد رازہے۔ یہاں دوسروں کی طرف سے بدی کا تجربہ پیش آنے کے باوجود ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ "باوجود "کے اس اصول کو نہ مانیں وہ اس دنیا میں کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، وہ کبھی اس اعلیٰ اخلاقی رویہ پر قائم نہیں رہ سکتے۔ جس کا انھوں نے اپنی زبان سے اقرار کیا تھا۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں ہر آدمی آزاد ہے۔ ہر آدمی کو کھلا موقع حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ اس صورت حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اس دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام لوگ ایک جیسے ہو جائیں۔ ایسی یکسانیت پتھر کے بنے ہوئے مجسموں میں ہو سکتی ہے مگر زندہ انسانوں میں ایسی یکسانیت ممکن نہیں۔
اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان ٹکراؤ ہوتاہے ایک کو دوسرے سے شکایت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر لوگوں کا نظریہ یہ ہو کہ جو شخص ہم سے اچھا سلوک کرے، اس کے ساتھ ہم اچھا سلوک کریں گے ، اور جو شخص ہم سے برا سلوک کرے، اس کے ساتھ ہم بھی بر اسلوک کریں گے۔ اگر یہ نظریہ ہو تو سماجی زندگی میں کبھی امن وسلامتی کا ماحول قائم نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے آپ نے کہا کہ لوگوں کی برائی کے باوجود تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ دوسروں سے تم کو ظلم کا تجربہ ہو تب بھی تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔
اس اخلاق کو قرآن میں خلق عظیم(بر تر اخلاق )کہا گیا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں کہ آپ اس برتر اخلاق کا کامل نمونہ تھے۔
اس برتر اخلاق پر قائم ہو نا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایک برتر مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ آپ نے لوگوں کو ایک انتہائی اعلیٰ اور پاکیزہ مقصد دیا، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں کے دل میں یہ برتر مقصد پوری طرح بیٹھ جائے وہ اسی کے ساتھ ضرور اعلیٰ اخلاق والے بن جائیں گے۔
یہ برتر مقصد خدا کی معرفت ہے۔ اپنے آپ کو خدا تک پہنچانا ہے۔ اپنے آپ کو خدا کے قریب کرنا ہے۔ جو لوگ اس مقصد کی اہمیت کو سمجھیں اور صحیح معنوں میں اللہ کے طالب بن جائیں ، ان کی نظر میں ہر دوسری چیز ہیچ ہو جائے گی ۔ کڑوے بول کو سہنا ، نقصان کو برداشت کرنا ،وقار کھو نے کو گوارا کرلینا، یہ سب ان کے لیے آسان ہو جائے گا۔ کیوں کہ وہ بہت بلند سطح پر جی رہے ہوں گے۔ اور جو شخص اونچی سطح پر جئے وہ کبھی چھوٹی باتوں کی پروا نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ معلوم تاریخ میں پہلی بار آپ نے جنگ اور صلح کا صحیح انسانی اصول مقرر کیا اور اس پر خود عمل فرمایا۔
آپ نے جارحانہ جنگ کو مطلق طور پر ممنوع قرار دیا۔ آپ نے بتایا کہ جنگ صرف اس وقت کی جائے جب کہ دفاعی طور پر جنگ لڑنے کی ضرورت پیش آجائے ۔ یعنی اپنی طرف سے کبھی جنگ میں پہل نہ کی جائے ۔ البتہ اگر دوسرا فریق جارحیت کر دے تو اس سے بچاؤ کے لیے لڑا جا سکتا ہے۔
دوسرا ضروری اصول آپ نے یہ مقرر کیا کہ جنگ کے مقابلہ میں امن ہر حال میں بہتر اور مطلوب چیز ہے۔ اس لیے جنگ پیش آجانے کی صورت میں بھی مسلسل امن کی تلاش جاری رکھی جائے۔ اور اگر فریق ثانی صلح پر آمادہ ہو تو فوراً جنگ کو ختم کر کے اس سے صلح کر لی جائے ، خواہ یہ صلح خود فریق ثانی کی یک طرفہ شر ط پر کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام اصولوں کے نہ صرف داعی تھے بلکہ وہ ان کے عامل بھی تھے۔آپ نے ان تمام اصولوں پر انتہائی اعلیٰ اور معیاری صورت میں عمل فرمایا ، حتی کہ آپ کی زندگی ہمیشہ کے لیے ان تمام اصولوں کا معیاری عملی نمونہ قرار پائی ۔ آپ کا کلام بھی سراسر رحمت تھا اور آپ کی زندگی بھی سراسر رحمت۔
الرسالہ کیسٹ
نمبر۱ ایمان نمبر۵ تعمیر ملت
نمبر۲ اسلامی دعوت کے جدید امکانات نمبر ۶ سنت رسول
نمبر ۳ اسلامی اخلاق نمبر۷ میدان عمل
نمبر ۴ اتحاد نمبر ۸ پیغمبرانہ رہنمائی (زیر تیاری )
(ہد یہ فی کیسٹ ۲۵ روپیہ)
نوٹ: یہ تقریر ۱۳ اکتوبر ۱۹۸۹ کو آل انڈیا ریڈ یونئی دہلی سے نشر کی گئی۔
اس دنیا میں زندگی کی صورت صرف ایک ہے۔ ممکن (Possible) پر راضی ہو کر اس کو وقفہ ٔعمل کے طور پر استعمال کرنا ، تاکہ مستقبل میں ناممکن (Impossible) تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو سکے ۔ ممکن پر راضی ہونے سے ناممکن ملتا ہے۔ جو شخص ممکن پرراضی نہ ہو اس کا سفر ہی شروع نہ ہوگا۔ پھروہ کسی منزل تک کسی طرح پہنچ سکتا ہے۔
۲۴ ستمبر کی شام کو کانفرنس کے تمام شرکاء خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ بن غازی لے جائے گئے۔ وہاں انھوں نے رات کا کھانا کھایا اور صدر قذافی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ تاہم میں طبیعت کی خرابی کی بنا پر بن غازی نہ جا سکا اور اس پروگرام میں شرکت نہ کر سکا۔ اس اجتماعی ملاقات کا اہتمام معمرقذافی کے روایتی خیمہ میں کیا گیا تھا۔ اس خیمہ کو اور وہاں کے آداب کو اس سے پہلے میں دیکھ چکا ہوں۔
عربی کی ایک مثل ہے : خَالِفْ تُعْرَفْ . (رواج کے خلاف کام کرو، تم مشہور ہو جاؤ گے )معمر قذافی اس اصول کی دلچسپ مثال ہیں۔ وہ اپنے کو "فرزندِ صحرا "کہتے ہیں اور اکثر حالات میں وہ اس مثل کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتہ میں بلغراد (Belgrade) میں ناوابستہ ممالک (NAM) کی نویں کانفرنس ہوئی۔ اس موقع پر معمر قذافی اس طرح پہنچے کہ وہاں ان کے لیے چار اونٹ ، دو عربی گھوڑے اوراسی کے ساتھ ان کا مخصوص عربی خیمہ بھی لے جایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں کے ذریعہ انہیں بلغرادمیں قیام کے دوران سادگی کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ معمر قذافی ہر روز صبح کو اونٹ کا دودھ ایک گلاس پیتے ہیں۔ اس کو وہ حیات بخش اور اکسیر سمجھتے ہیں۔ ان کی قیام گاہ باب العزیزی کے پاس ہروقت کچھ اونٹ چرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
سری لنکا کے ڈاکٹر محمدشکری (۴۸ سال) سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مسلم ڈولپمنٹ بنک جدہ کے تعاون سے کو لمبو میں ایک بڑا تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے جس کا نام الجامعۃ النظیمیۃ الإسلامیۃ ہے۔ میں نے کہا کہ ہندستان کے اردو اخبارات میں میں نے اس قسم کے مضامین پڑھے ہیں جن سے یہ تاثر پید اہوتا ہے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ انھوں نے اس سے مکمل انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکا میں اس قسم کی کوئی منظم کاروائی کا قطعا ً کوئی وجود نہیں :
There is no organised oppression against Muslims in Sri Lanka.
انھوں نے بتایا کہ سری لنکا ر یڈیو میں" مسلم سکشن " کے نام سے ایک مستقل شعبہ ہے، اس کے تحت ریڈ یو سیلون پر روزانہ دو گھنٹہ کے لیے اسلامی پروگرام ہوتے ہیں۔ میں خود ہر جمعہ کو ریڈیو میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں تقریر کرتا ہوں ۔ ہمارے یہاں کثرت سے مسلم اسکول ہیں۔ مسلم معاملات کے لیے باقاعدہ "قاضی" مقرر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان آزاد مسلم لینڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اس قسم کی خبریں بالکل بے بنیاد ہیں۔ آزاد لینڈ کا مطالبہ تامل لوگوں کا ہے نہ کہ مسلمانوں کا۔ انھوں نے کہا کہ ہندستان ( شمالی ہند )میں اسلام سلاطین کے ذریعہ آیا۔ وہاں جو ہندومسلم کش مکش ہے وہ اسی تاریخی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے ہے۔ اس کے برعکس سری لنکا میں اسلام تاجروں کے ذریعہ پہنچا۔ اس لیے وہاں کی تاریخ مختلف ہے اور اسی بنا پر وہاں کے دونوں فرقوں میں کوئی کش مکش بھی نہیں۔
طرابلس میں ایک افریقی خاتون بھی آئی ہوئی تھیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زینب سعید کبیر ہے۔ وہ بیرو یونیورسٹی (Bayero University) کی سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں۔ یہ یونیورسٹی کا نو (نائجیریا) میں واقع ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں انگریزی الرسالہ منگاتی ہوں اور اس کی مستقل قاری ہوں ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ہم انگریزی الرسالہ کے مضامین کو کانو (Kano) کے پرچوں میں دوبارہ چھپواتے ہیں تا کہ وہ عوام تک پہنچ سکیں ۔ ان میں سے دو انگریزی زبان کے پرچے یہ ہیں :
1. The Pen Weekly
2. The Sunday Triumph Weekly
اس کے علاوہ وہ انگریزی الرسالہ کے مضامین کا مقامی زبان (Hausa) میں ترجمہ کرتی ہیں اور ان کومقامی ہو سا زبان کے پرچوں میں چھپواتی ہیں۔ مثلاً :
1. Al-Kalam Bi-weekly
2. Al-Fijr Weekly
ایک صاحب کناڈا سے آئے تھے ۔ انھوں نے کچھ لٹر یچر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کناڈا میں سرکاری سطح پر ایک تحریک چلائی جارہی ہے جس کو وہ لوگ ملٹی کلچر لزم (Multiculturalism) کہتے ہیں۔ یہ اسی قومی ایکتا کے لیے ہے جس کو ہندستان میں نیشنل انٹگریشن (National integration)کہا جاتا ہے۔ مگر مجھے کناڈا کی اصطلاح ، ہندستان کی اصطلاح سے زیادہ پسند آئی ۔ ہندستان کی اصطلاح میں بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ مختلف گروہوں کے درمیان یک جہتی کو کلچرل یکسانیت کے ذریعہ حاصل کرنا مقصودہے۔ جب کہ کنا ڈا کی اصطلاح واضح طور پر کلچرل تعددیت کو تسلیم کرتے ہوئے سماج کے اندرہم آہنگی لانا چاہتی ہے۔
جس طرح ہندستان میں مختلف تہذیبی گروہ ہیں ، اسی طرح کناڈا( اور دوسرے ملکوں) میں بھی مختلف تہذیبی گروہ ہیں۔ اس" اختلاف "کو اتحاد میں تبدیل کرنے کا راز یہ نہیں ہے کہ خود اختلاف کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی جائے۔ اس کا راز صرف ایک ہے ، وہ یہ کہ اختلاف کو بطور واقعہ تسلیم کیا جائے اور اسی کے ساتھ لوگوں کے اندر یہ مزاج پیدا کیا جائے کہ وہ باہمی طور پر رواداری اور احترام کے ساتھ رہیں۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ پاکستانی ہیں مگر آجکل یورپ کی ایک یو نیورسٹی میں کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کا الرسالہ پڑھتا ہوں۔ آپ ہندستانی مسلمانوں کے لیے مکی دور کو ماڈل قرار دیتے ہیں۔ اس سے مجھے اتفاق نہیں۔ کیوں کہ مکی دور کا مسلمان مظلومیت کی حالت میں تھا۔ اس کا کوئی قانونی اور سیاسی حق نہیں تھا۔ جب کہ ہندستانی مسلمانوں کی یہ پوزیشن نہیں ہے۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے۔ وہاں دستور اور قانون کا نظام ہے جو مسلمانوں کے لیے یکساں شہری حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ مکی دور کو ہم اپنے لیے ماڈل سمجھتے ہیں۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ بھی مظلوم تھے اور ہم بھی مظلوم ہیں۔ ہندستانی مسلمان اور مکہ کے مسلمانوں میں جو مشابہت ہے وہ مرحلہ ٔدعوت کے اعتبار سے ہے نہ کہ مرحلہ ٔمظلومی کے اعتبار ہے۔ مکہ میرے نزدیک دار ِدعوت تھا۔ وہاں مسلمان داعی کی حیثیت میں تھے اور اہل مکہ مدعو کی حیثیت میں۔ اسی طرح ہندستان میں بھی مسلمان داعی کی حیثیت رکھتے ہیں اور بقیہ اہلِ ملک ان کے لیے مدعو کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ ہندستانی مسلمانوں کو یک طرفہ طور پر صبر و اعراض کی پالیسی اختیار کرنا چاہیے تو اس سے مراد مظلومانہ اخلاق نہیں ہوتا بلکہ داعیانہ اخلاق ہوتا ہے۔ کیوں کہ داعی کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ مدعوکی زیادتیوں سے اعراض کرتےہوئے اس کو اپنی دعوت حق کا مخاطب بنائے۔ اس وضاحت کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔
شیخ محمد عبدہ (۱۹۰۵ - ۱۸۴۹) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فرانس گئے۔ وہاں انھوں نے چند سال قیام کیا۔ جب وہ اپنے وطن مصر واپس آئے تو ان سے تاثرات پوچھے گئے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پایا کہ مغربی ممالک میں اسلام ہے مگر مسلمان نہیں۔ اور یہاں مسلم ملک میں مسلمان ہیں مگر اسلام نہیں (رَأیتُ فِي بِلَادِ الغَرْبِ إسلاماً بِلَا مُسلمین - ثُمَّ عُدْتُ هُنَا فَوَجَدْت مُسْلِمَيْنِ بِلَا إِسْلَام(
اس سفر میں میری ملاقات دکتور عبدالمنعم خطاب سے ہوئی۔ وہ مصری عالم ہیں اور ۲۰ سال سے امریکہ کی ریاست اوہائیو کے شہر تالی ڈو میں رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ شیخ محمدعبدہ نے جو کچھ کہا ہے اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے (هذا حق)
شیخ محمد عبدہ نے یہ بات کردار کے اعتبار سے کہی ۔ میرے ذاتی تجربےکے مطابق بھی یہ ایک حقیقت ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انھوں نے کر دار کی طاقت کھو دی ہے۔ اور مغربی قوموں کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ کردار کی طاقت سے مسلح ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو مغلوب اور اہل ِمغرب کو غالب بنا دیا ہے نہ کہ وہ نام نہاد سازشیں( مؤامرات) جن کا ذکر مسلمانوں کی ہر تقریر و تحریر میں جوش وخروش کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
موریس بکائی کی کتاب(بائبل، قرآن اور سائنس )کا عربی ترجمہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ بڑی تعداد میں عربوں نے اس کو پڑھا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عرب نے کہا کہ موریس بکائی نے قرآن کا تو پوری طرح اعتراف کیا ہے، مگر انھوں نے حدیث کا انکار کر دیا ہے۔ میں نے کہا کہ اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ موریس بکائی نے ایک نکتہ کو نہیں سمجھا۔
اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں قرآن اترا اس زمانے میں ساری دنیا میں تمثیلی اسلوب رائج تھا۔ اس بنا پر حدیث میں زمانی رعایت کی بنا پر کہیں کہیں تمثیل کا اسلوب بھی ملتا ہے ۔ مگر قرآن میں تمثیل کا اسلوب موجود نہیں۔ مثلاً حدیث میں ہے کہ آگ کی شدت جہنم کی سانس کی وجہ سے ہے ، (إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَھَنَّمَ )یہ تمثیل ہے کہ حقیقت ۔ چنانچہ قرآن میں یہی بات ان لفظوں میں کہی گئی قُلۡ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرّٗاۚ [التوبة: 81]
موریس بکائی نے اس قسم کی حدیثوں کو حقیقت پر محمول کیا اور ان کا انکار کر دیا۔ کیوں کہ سائنسی اعتبار سے یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی کہ مئی جون کی گرمی جہنم کی پھونک سے ہو سکتی ہے۔
یہ سن کر ایک صاحب نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کے کلام میں زمانی تأثر پایا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ یہ تاثر نہیں ہے بلکہ رعایت ہے۔ "رعایت " کا لفظ اگر چہ ایک عربی لفظ ہے۔ مگر مذکورہ عرب دوست اس کو نہ سمجھ سکے ۔ آخر کار میں نے "مراعاۃ " کا لفظ استعمال کیا تو وہ فور اًسمجھ گئے ۔ جس مفہوم کے لیے ہم رعایت کا لفظ بولتے ہیں، اس کے لیے موجودہ عرب مراعات کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات وہی ہے جو مخاطب کی فہم سے مطابقت کرے۔ جو بات مخاطب کی فہم کے مطابق نہ ہو ، وہ کہے جانے کے باوجود مخاطب کے لیے لا معلوم بنی رہے گی۔ ایسی بات متکلم کی نسبت سے کہی جا چکی ہوگی ، مگر مخاطب کی نسبت سے وہ ابھی تک ان کہی پڑی ہوئی ہوگی۔
شیخ امجد حیدرآبادی (۳۱ سال) طرابلس میں ایک جاپانی فرم میں کام کرتے ہیں۔ وہ اس سے پچھلے ۴ سال سے وابستہ ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جاپانیوں کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں چار سال سے جاپانیوں کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ ان لوگوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ وہ تھکنے کو کوئی عذر نہیں سمجھتے ۔ مقرر وقت سے زیادہ کام کریں گے۔ رات کو اپنے گھر میں ہیں، کوئی کام یاد آجائے تو رات کو اٹھ کر دفتر میں آجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر چہ چند آدمی ایک کمرہ میں ہوں تو بات زیادہ کریں گے اور کام کم۔ مگر کئی جاپانی ایک کمرہ میں ہوں تو وہ کبھی بات نہیں کریں گے۔ ہر ایک صرف اپنے کام میں مشغول ہوگا۔ جب تک وہ کام کی میز پر ہیں، وہ کام کے سوا کبھی اور کچھ نہیں کریں گے۔ان کا ماٹو ہے ––– کرو یا مر جاؤ :
Do or die
میں نے پوچھا کہ آپ نے چار سال کے اندر جا پانیوں کو کبھی آپس میں جھگڑتے دیکھا۔ انھوں نے کہاکہ کبھی نہیں ۔ اس کے برعکس ہندوستان اور پاکستان کے جو تھوڑے سے مسلمان یہاں آباد ہیں ، ان میں کوئی اتحاد نہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں ان کی یہی کمی رکاوٹ ہے نہ کہ کسی غیر قوم کی سازش یا عناد۔
۲۷ ستمبر کو مسٹر فضل اللہ وِلموٹ (۴۵ سال )سے ملاقات ہوئی۔ آجکل وہ مالیزیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں رجسٹرار ہیں۔ وہ آسٹریلیا میں پیدا ہوئے۔ ان کا ابتدائی نام کلائیو و لموٹClive Wilmot) )تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ وہ انگریزی الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے الرسالہ کے بارے میں اپنا تاثر بتایا جس کا ایک حصہ یہ تھا:
The approach of Al-Risala to Islam is the right one, as it emphasises the position. It does not condemn others for our problems and asks Muslims to contribute to solving the problems facing Muslim men and women.
لیبیا کی سرحد پر چاڈ (Chad) ملک واقع ہے۔ یہاں مسلمان تقریباً ۴۵ فی صد کی تعداد میں آباد ہیں۔ یہاں کی آبادیوں میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا ہے :
It has attracted a wide variety of ethnic groups (4/15).
افریقہ کے دوسرے علاقوں کی طرح ، چاڈ میں بھی مسیحی مبلغوں نے مسلمانوں کو مسیحیت میں داخل کرنے کی بہت کوششیں کیں ۔ مگر وہ مسلم آبادی کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے :
In Chad, as elsewhere, Christian missionary work has not affected the Muslim population (4/15).
لیبیا اور چاڈ کے درمیان ایک صحرائی پٹی ہے جس کے نیچے معدنی ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ اس کو اوز وپٹی (Aouzou Strip) کہا جاتا ہے ۔ پندرہ سال پہلے لیبیا نے اس کے اندر اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ یہ لیبیا کا حصہ ہے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں میں جنگ ہوئی ۔ اس میں بے شمار جانی و مالی نقصان ہوا۔ ۱۹۸۹ میں لیبیا نے اس جنگ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا ہے ۔ وہ اس اس پر راضی ہو گیا ہے کہ ہیگ کی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جو فیصلہ کرے، وہ اس کو مان لے گا۔
یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہی صورت حال ہے جو ہندوستان کے نام نہا دلیڈروں نے اجودھیا کی بابری مسجد کے معاملہ میں اختیار کی ابتداءً انھوں نے ریلی اور جلوس کے مظاہرے کئے۔ مارچ اور بائیکاٹ کی دھمکیاں دیں۔ لاؤڈ سپیکر پر نعرے لگائے کہ ہم بابری مسجد لے کر رہیں گے اب جب کہ اس احمقانہ سیاست کے نتیجے میں ملک کے فرقہ پرست ہندو اپنی تمام انتہا پسندی اور متشددانہ ارادوں کے ساتھ جاگ اٹھے تو اب وہ مسلمانوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ مسجدوں میں اس کے لیے دعا کرو۔ اور یہ کہ کورٹ جو فیصلہ دے وہ ہمیں منظور ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں فارسی شاعر نے کہا تھا:
ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابی بسیار
طرابلس سے ایک ہفتہ وار عربی اخبار نکلتا ہے میں کا نام ہے الدعوۃ الإسلامیۃ۔ اس کے شمارہ ۲۹ مارچ ۱۹۸۹ میں صفحۂ اول کی پہلی سرخی یہ تھی : نصف مليون کاتولیکی فی إيطاليا يدخلون الإسلام (اٹلی کے پانچ لاکھ کیتھولک مسیحی اسلام میں داخل ہو گئے )یہ خبر ایک اطالوی ہفت روزہ میگزین ایسپریسوEspresso) )کے حوالہ سے دی گئی ہے۔
اطالوی میگزین کی یہ رپورٹ اٹلی کے مسلمانوں کے بارے میں ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اٹلی میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، حال میں ان کی تعداد نصف ملین افراد تک پہنچ گئی ہے۔ اٹلی میں مسلمانوں کی تعداد اب وہاں کے یہودیوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس طرح اب اٹلی میں اسلام تعداد کے اعتبار سے مسیحیت کے بعد نمبر ۲ پر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان نکاح کی صورت میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مسیحی عورت یا مرد اپنے دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لیتے ہیں (فی حَالَات الزَّوَاج بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ والمسیحیین ، فَإِن الْمَسِيحِيِّين هُمْ الَّذِينَ يتخلون عَنْ دِينِهِمْ .)
اسلام کی فکری اور نظریاتی طاقت ناقابل تسخیر حد تک عظیم ہے۔ مگر اسلام کا یہی وہ امتیازی وصف ہے جس سے موجودہ زمانے کے فریادی مسلم رہنما سب سے زیادہ بے خبر ہیں۔
۲۴ ستمبر کی شام کو میری طبیعت خراب ہو گئی ۔ کانفرنس کے منتظمین مجھ کو قریب کے ایک اسپتال میں لے گئے۔ یہ نسبتاً ایک چھوٹا اسپتال تھا۔ وہاں ایک مصری ڈاکٹر نے میرا بلڈ پریشر وغیرہ دیکھا اور ایک انجکشن اور ایک دوا تجویز کی۔ پورا اسپتال تو میں نہ دیکھ سکا۔ تاہم اسپتال کے اندر چلتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ وہاں کوئی مریض نہیں۔ ڈاکٹر اور کمپونڈر وغیرہ تو مجھے نظر آئے ۔ مگر وہاں مجھے کوئی مریض دکھائی نہ دیا۔ ہندستان میں مریض ہیں مگر اسپتال نہیں ۔ یہاں اسپتال ہیں مگر مریض نہیں۔
۲۴ ستمبر کو دن کا کھانا کلیۃ الدعوۃ الاسلامیہ میں تھا۔ یہ بہت بڑے رقبہ میں جدید طرز پر بنائی گئی ہے۔ آجکل "کلیۃ الدعوۃ " کے نام پر اکثر ملکوں میں تعلیمی ادارے قائم ہیں جن کا مقصد اسلام کے داعی تیار کرنا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک نہایت مفید کام ہے۔ مگر موجودہ صورت وہ عیسائی مبشرین اور مبلغین کے ردعمل میں شروع ہوا ہے۔ اس لیے کسی بھی کلیہ میں پورے معنی میں صحیح دعوتی ماحول موجود نہیں۔
کا نفرنس کی طرف سے ہوٹل کے ایک کمرہ میں رزرویشن آفس کھلا ہو اتھا ۔ ۲۷ ستمبر کو میں وہاں گیا تاکہ واپسی کے رزرویشن کے لیے ان کو اپنا ٹکٹ دے دوں۔ انھوں نے کہا کہ واپسی کے لیے ہم آپ کا رزرویشن کو یت کے راستہ سے کر رہے ہیں۔ چوں کہ کویت میں اگلی پرواز کے لیے اچھا کنکشن نہیں تھا، اس لیے میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بجائے آپ کراچی کے راستہ سے میرا رزرویشن کریں۔ انھوں نے دوبارہ کویت کے راستہ سے رزرویشن کرانے کی بات کی اس پر میری زبان سے نکل گیا:لا أبداً
اس کے بعد اچانک مجھے خیال آیا کہ دنیا کے سفر میں تو میں اپنی پسند کے خلاف راستہ پر سفر کرنے کے لیے " لا أبداً " کہہ کرانکار کر رہا ہوں ۔ مگر آخرت کے سفر کا معاملہ سراسر اس سے مختلف ہو گا۔ وہاں کسی شخص کے لیے انکار کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ آخرت کا سفر، دنیا کے سفر سے کتنا زیادہ مختلف ہوگا۔مگر کتنے کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو جانتے ہوں۔
ہوٹل کے رسپشن میں ایک بہت بڑی تصویر بنی ہوئی تھی ۔ اس کے ایک طرف معمرقذافی کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔
پس منظرمیں" مصنوعی دریا "کا پانی موجیں مارتا ہوا بہتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ اس کے نیچے لکھا ہوا تھا ––––– انسانی دریا بنانے والا عظیم انسان :
The great man-river builder.
لیبیا میں پانی سپلائی کا نیا تجربہ کیا گیا ہے۔ چشموں کے پانی کو ذخیرہ کر کے اس کو بہت بڑے پائپ میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ پائپ صحراؤں سے گزرتا ہوا سیکڑوں میل دور کے مقام پر پہنچتا ہے اور خشک زمینوں کی آبپاشی کرتا ہے۔
پہلی نظر میں دیکھئے تو یہ "مصنوعی دریا" ایک انسان (معمّر قذافی)نے بنایا۔ مزید غور کیجئے تو یہ پٹروڈالر کا کارنامہ نظر آئے گا۔ اور زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ یہ سرا سر خدا کی قدرت کا کر شہر ہے۔ کیوں کہ اسی نے پانی کے ذخائر پیدا کئے پھر اسی نے وہ تمام امکانات پیدا کئے جن کو استعمال کر کے کوئی شخص اس قابل ہوتا ہے کہ وہ صحراؤں میں دریائیں اور نہریں جاری کرے۔ ہر واقعہ بالآخر خداوند ذوالجلال کا کارنامہ ہے۔ مگر بے خبر انسان اس کو دوسری دوسری چیزوں کے خانہ میں ڈال دیتاہے۔ موجودہ دنیا کے تمام واقعات اپنی حقیقت کے اعتبار سے شکر کی طرف لے جارہے ہیں۔ مگر دنیا میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو واقعات سے شکر کی غذا لیتے ہوں۔
ہوٹل میں میرا قیام اس کی نویں منزل میں تھا ۔ ۲۸ ستمبر کی صبح کو مجھے نیچے اتر نا تھا۔ لفٹ میں داخل ہو کر میں نے نمبر ۹ کا بٹن دبایا۔ مگر لفٹ حرکت میں نہیں آئی۔ میں بار بار د با تارہامگر وہ مطلق متحرک نہ ہو سکی۔ میں نے سمجھا کہ یہ خراب ہے۔ اور ارادہ کیا کہ اس کو چھوڑ کر دوسری لفٹ میں چلا جاؤں۔ اچانک خیال ہوا کہ میں غلط بٹن دبا رہا ہوں ۔ نمبر ۹ تو اس منزل کا بٹن تھا جس پر ہر وقت میں موجودہ تھا۔ مجھ کو در اصل صفر ( ۰) والا بٹن دبانا چاہیے تھا ۔ چنانچہ اگلے لمحہ میں نے صفر کا بٹن دبایا تو فور اً لفٹ نے مجھے نیچے پہنچا دیا۔
اس دنیا میں کوئی حقیقی نتیجہ پیدا کرنے کے لیے صرف حرکت کا فی نہیں۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حرکت صحیح ہو۔ غیر صحیح حرکت کبھی اس دنیا میں نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی ، خواہ اس کو سیکڑوں سال تک جاری رکھا جائے۔
۲۸ ستمبر کو جمعہ تھا۔ جمعہ کی نماز مسجد مولای محمد میں پڑھی۔ وہاں پہنچ کر مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا کہ ایک صاحب تیزی سے چلتے ہوئے میری طرف آئے ۔ انھوں نے میرے قریب آکر کہا:ياشيخ ادع لى ولذريتي ۔۔۔ اسمى محمد الحمال
اصل یہ ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی گوشہ ایسا ہوتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ جہاں اس کے وسائل اس کو نا کافی نظر آتے ہیں۔ جہاں وہ کسی برتر مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اس جذبہ کا صحیح استعمال اللہ کو پکارنا ہے۔ مگر انسان جب اللہ کو نہیں پاتا تو وہ زندہ یامردہ انسانوں کو پکارنے لگتا ہے۔
امام صاحب نے طویل خطبہ دیا۔ اس عربی خطبہ میں انھوں نے مختلف باتیں بتا ئیں۔ مثلاً انھوں نے یہ حدیث سنائی : قَلِيلُ الْعِلْمِ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرِ الْعِبَادَةِ (تھوڑ اعلم زیادہ عبادت سے بہتر ہے) اس کی تشریح انھوں نے خالص روایتی اور تقلیدی انداز میں کی۔ اس قسم کی تشریح آج کے انسان کے ذہن کو نہیں جھنجھوڑتی۔ وہ اس کے فکر کا جز ء نہیں بنتی۔ وہ تقدس اور احترام کے جذبے کے تحت اس کوسن لیتا ہے، اور اس کے بعد اٹھ کر چلا جاتا ہے۔
اس حدیث میں علم سے مراد عام علم نہیں، بلکہ اس سے مراد دینی شعور یا معرفت حق ہے ۔ یہ حدیث در اصل یہ بتاتی ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت کی چیز کیا ہے۔ اسلام میں اصل اہمیت کی چیز کیفیت (Quality) ہے۔ مجر د کمیت یا مقدار (Quantity) کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں۔
سبراتہ (Sabratha) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے جوطرابلس کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کو قرطاجنہ والوں (Carthaginians) نے تجارتی مرکز کے طور پر چوتھی صدی قبل مسیح میں آباد کیا تھا ۔ ۲۲ ق م میں یہاں رومی آئے ۔ انھوں نے یہاں اپنا مشہور تھیٹر تعمیر کیا جس کے عظیم کھنڈ ر اب بھی سمندر کے کنارے موجود ہیں۔ عربوں نے اس کو ۶۴۳ ھ میں فتح کیا۔
یہ تھیٹر وہ مقام ہے جہاں رومی لوگ شاہانہ تفریح کیا کرتے تھے ۔ آج اس کے ٹوٹے ہوئےکھنڈر صرف تاریخی عبرت کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ شاید اسی طرح کی یادگاروں کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ زمین میں چلو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا (الانعام ۱۱)
یہاں کے کچھ حضرات مجھ کو مالٹا لے جانا چاہتے تھے۔ یہ طرابلس اور روم کے درمیان ایک جزیرہ ہے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہاں عرب نوجوانوں کا ایک اجتماع کریں اور اسلامی دعوت کے موضوع پر ان سے گفتگو کی جائے ۔ مگر وقت کی کمی کی بنا پر میں ان لوگوں کی اس پیش کش کو قبول نہ کر سکا ۔آئندہ کسی موقع پر ان شاء اللہ مالٹا جانے کی کوشش کروں گا۔
کچھ لوگوں نے تیونس جانے کی بھی پیش کش کی۔ وہاں بہت سے عرب نوجوان الرسالہ کے مشن سے متاثر ہیں۔ وہ عربی اور فرانسیسی زبان میں الرسالہ کے مضامین کا ترجمہ شائع کر رہے ہیں۔ مگر اس سفر کے تحت میں تیونس کا پروگرام بھی نہ بنا سکا ۔ ان شاء اللہ آئندہ کسی وقت وہاں جانے کی کوشش کروں گا۔ کچھ لوگ دمشق سے آئے تھے ، وہ واپسی میں مجھ کو دمشق لے جانا چاہتے تھے۔ مگر میں اس فرمائش کو بھی پورا نہ کر سکا۔
تیونس میں ایک تاریخی شہر ہے جس کا نام سوسہ ہے۔ یہاں تاریخی یا د گاریں ہیں جن کو دیکھنے کے لیے یورپ کے سیاح کثرت سے آتے ہیں۔ عبد المنعم محمد الباقوری (۲۱ سال )نے بتایا کہ وہ اگست ۱۹۸۹ میں سوسہ گئے۔ ان کے ساتھ جمعیۃالدعوۃ کی طرف سے چھپی ہوئی انگریزی اور فرانسیسی کتابیں( قرآن کا ترجمہ، موریس بکائی کی کتاب، وغیرہ) تھیں۔ وہ ان کتابوں کو یورپی سیاحوں کے در میان تقسیم کرنے لگے۔ دو دن تقسیم کرنے کے بعد جب وہ تیسرے دن وہاں گئے تو کچھ لوگ ان پر غضب ناک ہوگئے۔ وہ عبد المنعم باقوری کو مارنے لگے۔
میں نے پوچھا کہ جس وقت وہ لوگ ماررہے تھے، اس وقت آپ کے اندرونی احساسات کیاتھے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے مار کی کوئی پروا نہیں کی اور اپنے عمل (اسلامی کتابوں کی تقسیم )کو جاری رکھا۔ اور میں اس کو اپنی سعادت سمجھ رہا تھا (لٰکننی لم أبال بالضرب وواصلت عملى وكنت سعيداً بذلك )انھوں نے کچھ یورپی نوجوانوں کو اسلام میں داخل کیا ہے۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کا عمل آدمی کے اندر کس طرح دوسرے تمام عمدہ اوصاف پیدا کر دیتا ہے۔ یہ احساس کہ میرے پاس نجاتِ انسانی کا پیغام ہے اور میں اس کو دوسروں تک پہنچا رہا ہوں ، وہ اعلیٰ ترین احساس ہے جس سے اعلیٰ احساس اور کوئی نہیں۔ جن لوگوں کے اندر داعیانہ جذبہ جاگ اٹھے ، وہ اسی کے ساتھ خود بخود شریف اور خیر خواہ اور جری اور بہادر اور حوصلہ مند انسان بن جائیں گے۔ حق کو پانے کا احساس ان کو ہر دوسری چیز کو کھونے کےقابل بنا دے گا، خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کیوں نہ ہو۔
عرب نوجوانوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو اسلامی مرکز اور الرسالہ مشن سے بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ وہی سوالات وہاں بھی کئے گئے جو ہندوستان میں اس کے بارے میں کئے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک مجلس میں الجزائر کے ایک نوجوان نے پوچھا کہ آپ باتیں تو بہت صحیح اور اچھی کہتے ہیں، مگر آپ کے پاس کوئی عملی پروگرام (برنامج )نہیں ۔
میں نے کہا کہ وہ چیز جس کو عملی پر وگرام کہا جاتا ہے ، اس سے زیادہ آسان اور کوئی کام نہیں۔ ہر آدمی جس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہو ، وہ کاغذ پر ایک ایسا نظام مرتب کر کے پیش کر سکتا ہے جو لوگوں کو پروگرام دکھائی دینے لگے۔ مگر حقیقی اسلامی دعوت اس سے زیادہ بڑا کام ہے کہ وہ کسی پروگرام کے اندر سما سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت اور حدیث کی کتابوں میں ہم نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو موجودہ مفہوم میں کوئی پروگرام تلقین کرتے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ تخریب کے لیے پروگرام بنائے جاسکتے ہیں، لیکن تعمیر کے لیے کوئی لگا بندھا پروگرام نہیں ۔ گہری تعمیر کے کام میں لوگوں کے شعور کو اتنا ابھار نا پڑتا ہے وہ خود حالات کے اعتبار سے پروگرام کی تخلیق کر سکیں ۔ ہمارا پروگرام یہ ہے کہ ہم پروگرام ساز انسان تیار کریں (برنامجنا هو إعداد المبرمجين)
ایک مجلس میں میں نے اپنی" غیر عرب عربی" پر معذرت کی۔ ایک تعلیم یافتہ عرب نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ آپ کی عربی ، زبان کے اعتبار سے ، عربوں جیسی نہیں ہوتی۔ مگر وہ ہم کو زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔ کیوں کہ وہ محدد زبان (Precise language) میں ہوتی ہے ۔ جب کہ عام بولنے والوں کا مفہوم ان کی خطابت اور الفاظ کی کثرت میں گم ہو جاتا ہے۔ آدمی ان کی لمبی چوڑی تقریر سن کر اس حال میں اٹھتا ہے کہ اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کہنے والے نے کیا کہا۔
اس سفرمیں بہت سے عربوں سے اسلامی دعوت کے بارے میں گفتگو کرنے کا موقع ملا ۔تعلیم یافتہ عرب نوجوانوں کی ایک مجلس میں تقریباً تین گھنٹہ تک گفتگو ر ہی۔ گفتگو کا موضوع زیادہ ترموجودہ زمانے میں دعوت کے مسائل اور حکمت دین تھا۔ اس سلسلے میں میں نے ایک بار کہا : نِصْفُ الْعِلْمِ أَنْ تَعْرِفَ الْفَرْقَ وَبَقِيَّةُ نِصْفِهِ إنْ تَعْرِفَ الْمُمَاثَلَةَ . یعنی نصف علم یہ ہے کہ آدمی دو چیزوں کے درمیان فرق کو جانے ، علم کا بقیہ نصف یہ ہے کہ آدمی دو چیزوں کے درمیان مشابہت کو جانے ۔
لوگوں کے مزید سوالات کے درمیان میں نے اس فقرہ کی تفصیلی وضاحت کی۔ میں نے کہا کہ پہلے "فرق" کو جاننے کے معاملہ کو لیجیے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے زمانےمیں جو پیغمبر توحید کی دعوت لے کر اٹھے، ان کا اپنے زمانے کے حکمرانوں سے ٹکراؤ ہو گیا۔ اس بنا پر آج کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دینی دعوت کے پیغمبرانہ دعوت ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وقت کے حکمراں طبقہ کے ساتھ فوراً ہی اس کا ٹکرا ؤ پیش آجائے ۔ اب الرسالہ مشن (یا تبلیغی جماعت) کا چونکہ حکومت سے ٹکراؤ نہیں ہورہا ہے اس لیے ان کے نزدیک یہ اس کے غیر پیغمبرانہ نہج پر ہونے کی دلیل ہے۔
یہ غلط فہمی "فرق " کو نہ جاننے کی بنا پر ہے۔قدیم زمانےکے بادشاہ اپنا حق حکومت مشرکانہ عقائد کے ذریعہ حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ توحید کی دعوت انہیں براہ راست اپنی حاکمانہ حیثیت سے ٹکراتی ہوئی نظر آتی تھی ، وہ فوراً توحید کی دعوت کو کچلنے کی کوشش کرتے تھے۔ موجودہ زمانے میں جمہوری انقلاب کے نتیجے میں یہ صورت حال ختم ہو چکی ہے۔ اس بنا پر اب قدیم طرز کے ٹکر اؤکا کوئی سوال نہیں۔ جو لوگ قدیم بادشاہت اور موجودہ حکومت کے فرق کو نہ جائیں وہ اس معاملے میں کوئی رائے قائم نہیں کر سکتے۔
اب اس مشابہت کے معاملے کو لیجیے موجودہ زمانے کے اسلام پسند لوگ سیکولرزم کو اسلام کا دشمن نظریہ سمجھتے ہیں اور غیر ضروری طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ عین صلح حدیبیہ کے مثل ایک واقعہ ہے۔ حدیبیہ کا واقعہ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ تھا کہ وقت کے اقتدار نے دس سال کے لیے اپنے آپ کو اس کا پابند کر لیا تھا کہ وہ اسلامی دعوت کے مقابلہ میں عدم ِمداخلت کی پالیسی پر کاربند رہے گا۔ عین یہی موجودہ زمانے میں سیکولر حکومت کا مطلب بھی ہے ۔ موجودہ زمانے میں جدید افکار کے زیر اثر دنیا کی تمام حکومتوں نے اپنے آپ کو اس کا پابند کیا ہے کہ وہ مذہب کے معاملے میں عدم مداخلت کا طریقہ اختیار کریں گے ۔ اقوام متحدہ کی سطح پر اسی عالمی عہد کا نام "حقوق انسانی کا منشور" ہے۔ یہ صورت حال گویا ابدی صلح حدیبیہ ہے۔ دونوں کے درمیان "حدیبیہ اسپرٹ" مشترک طور پر مو جو د ہے ۔ مگر اس مشابہت کو نہ جاننے کی وجہ سے لوگ اس کے خلاف بھڑک اٹھے۔
ایک مجلس میں کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کے اندر غیر جہادی اور غیر انقلابی ذہن بنا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل لغو اور سطحی بات ہے۔ ایسا کہنے والوں نےابھی تک ہمارے مشن کو نہیں سمجھا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے نام نہاد اسلامی مفکرین نے اپنی سیاسی تعبیر کے ذریعہ دعوت کا نشانہ بدل دیا ہے۔ انھوں نے انقلابِ نظام کو اسلامی دعوت کا نشانہ بنا دیا ہے۔ حالاں کہ انقلابِ انسان اسلامی دعوت کا نشانہ ہے۔ اسی تعبیری فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے دعوتی عمل میں "سیاسی انقلاب" بطور نشانہ حذف ہے، دوسری طرف ان کے دعوتی عمل میں توجہ الی اللہ بطور نشانہ حذف ہے۔
اب جو لوگ سیاست رخی تعبیر سے متاثر ہیں ، وہ ہمارے معاملہ کو سمجھ نہیں پاتے اور ہمارے اور پر غیر انقلابی ہونے کا الزام دینے لگتے ہیں۔ مگر یہ غلط فہمی قرآن کے زیر تاثر نہیں بنی ہے بلکہ بعض لوگوں کی سیاسی تعبیر دین کے زیر تاثر بنی ہے۔ ایسی حالت میں ہمیں ان الزامات سے غیرمتاثر رہ کر اپنا کام جاری رکھنا ہے ۔ ان شاء اللہ لوگوں کی یہ بے جابد گمانیاں اپنے آپ ختم ہو جائیں گی۔
ایک تعلیم یافتہ عرب نوجوان نے کہا کہ میں نے آپ کی تمام عربی کتابیں پڑھی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ان کتابوں کے پڑھنے سے آپ پر کیا اثر ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ان کتابوں نے مجھ کو نہایت اونچے مقام تک پہنچا دیا (أِنَّهَا رَفَعَتْنِي إلَى مَقَامِ عَظیْمٍ(
ایک عرب نوجوان نے کہا کہ میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں جس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم یورو پین موجود ہیں۔ میں ان کو آپ کی انگریزی کتابیں پڑھا رہا ہوں۔ ایک مسیحی خاتون جومذ کورہ کمپنی میں سکریٹری کے درجہ پر ہیں۔ ان کو " پرافٹ آف ریولیوشن "انھوں نے پڑھنے کے لیے دی۔ اس کو پڑھ کر خاتون نے جو کچھ کہاوہ عرب نوجوان کے الفاظ میں یہ تھا کہ میں نے جو کتابیں پڑھی ہیں ، ان میں یہ بہترین کتاب ہے (اِنَّہُ أَحْسَنَ کِتابٍ قَرَأْتُ)
ایک مجلس میں ایک عرب نوجوان نے دعوت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ تکمیلی اعتبار سے اسلامی دعوت کے چار مراحل ہیں۔ اعلان ، ہجرت ، جہاد حکومت ۔میں نے کہا کہ اسلامی دعوت کی یہ تعبیر صحیح نہیں۔صحیح تعبیر وہ ہوتی ہے جو دوسرے متعلق حقائق سے نہ ٹکرائے ، جب کہ یہ تعبیر دوسری معلوم حقیقتوں سے ٹکرا رہی ہے۔ مثلاً ہمارے عقیدہ کے مطابق ، تمام انبیاء کامل معنوں میں داعی تھے۔ مگر اس تعبیر میں بیشتر انبیاء ناقص داعی قرار پاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی دعوت ان چاروں مراحل سے نہیں گزری۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خدانے پیغمبر کی مخاطب امتوں کو جو عذاب دیا وہ عین عدل تھا ۔ مگر اس تعبیر میں وہ غیر عادلانہ قرار پاتا ہے ۔ کیوں کہ اس کے مطابق بیشتر مثالوں میں خدا نے ان قوموں کو قبل از وقت عذاب دے دیا۔
اصل یہ ہے کہ دعوت تمام تر اعلان ہی کا نام ہے۔ البتہ اعلان کے شرائط ہیں مثلاً مدعو کے لیے خیر خواہ ہونا ، اس کی ایذاء پر صبر کرنا، اس کی سرکشی کے باوجود مسلسل اس کو پکارتے رہنا۔ اس کی اپنی لغت میں دعوت کو اس کے لیے قابلِ فہم بنانا، مدعو سے اجر دنیوی کا طالب نہ ہونا وغیرہ۔ اسی کا نام دعوت ہے۔ اس کے بعد ہجرت یا جہاد، یا قتال یا حکومت جیسے واقعات جو کبھی پیش آتے ہیں اور کبھی پیش نہیں آتے ، وہ سب تاریخ کے مراحل ہیں نہ کہ دعوت کے مراحل ۔
ایک مجلس میں موجودہ زمانے کی اسلامی تحریکوں کا ذکر آیا۔ پھر یہ سوال ہوا کہ یہ تمام تحریکیں اپنےمقصد میں ناکام کیوں ہوگئیں۔ ایک صاحب ان رکاوٹوں کی فہرست بتانے لگے جنہوں نے ان اسلامی تحریکوں کو نا کام کر دیا۔ میں نے کہا کہ یہ سوچ صحیح نہیں۔ اس دنیا میں تو لازماً یہی ہونا ہے کہ یہاں رکا وٹیں پیش آئیں۔ انہیں رکاوٹوں کے باوجود اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں، آپ نے رکاوٹوں کو اپنے لیے زینہ بنالیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تحریکیں صرف اس لیے ناکام ہوگئیں کہ وہ رکا وٹوں یاڈس ایڈوانٹج کو اپنے لیے ایڈوانٹج نہ بناسکیں (هَذِه الْحَرَكَات الْإِسْلَامِيَّة كُلُّهَا فَشَلَتْ بِسَبَبٍ وَاحِدٍ أَنَّهَا لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَسْتَغِلَّ الْمَوَانِع لَهُم كَفُرَصٍ(
ایک عرب نوجوان مختا ر احمد (۲۶ سال )سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس سے پہلے سیاسی اسلامی جماعتوں سے متاثر تھے۔ ان کے دماغ میں مار دھاڑ والا اسلام بسا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بعد آپ کی عربی کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ ان کو پڑھنے کے بعد میرا ذہن بالکل بدل گیا۔ ان کو پڑھ کر میرے دماغ کا بوجھ اتر گیا۔ اب میں اپنے ماضی اور حال کو سوچتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ میں قید خانے سے باہر آ گیا ہوں (کأَنِّیْ خَرَجْتُ مِنْ السِّجْنِ (
عرب ممالک میں بہت بڑا دعوتی موقع پٹرو ڈالر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ آجکل کثرت سے بیرونی ملکوں سے غیر مسلم ماہر ین اور کارکن عرب ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان آسانی کے ساتھ دعوتی کام کیا جا سکتا ہے۔
ایسے کئی عرب نوجوان ملے جو اس دعوتی امکان سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ محمد المجانی (۳۰سال )نے بتایا کہ وہ جس کمپنی میں کام کرتے ہیں ، اس میں ایک برطانی اکسپرٹ ہے جس کا نام برائن کوپنگ (Brain Copping) ہے۔ محمد المجانی نے اس برطانی مسیحی کو گاڈا رائٹزز اور دوسری کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ اس کے بعد اس کا تاثر پو چھا ۔ سوال سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ اس کے بعد بولا : جوکچھ اس میں لکھا ہے وہ بالکل حق ہے۔ اس نے مزید کہا کہ مجھے برطانیہ کا کوئی شخص نہیں معلوم جواتنی طاقت کے ساتھ خدا اور مذہب کے اثبات پر کتاب لکھ سکے۔
طارق الکردی (۲۷ سال) ایک عرب نوجوان ہیں۔ وہ الجزائر میں تھے۔ وہاں انھوں نے آئر لینڈ کی ایک عیسائی لڑکی سے شادی کر لی۔ اس کا نام گر الڈین (Geraldine Sheehen) ہے۔ شادی کے بعد وہ برابر اس کو ترغیب دیتے رہے کہ وہ اسلام قبول کرلے ۔ مگر وہ راضی نہ ہوسکی۔ حتی کہ اسلام سے نفرت کا اظہار کرتی رہی۔
۲۷ ستمبر کو ایک ملاقات میں طارق الکر دی نے بتایا کہ پہلے میں اسلام کو اس کے سامنے فقہی اور تقلیدی انداز میں پیش کرتا تھا۔ اس کے بعد مجھے انگریزی الرسالہ ملا۔ میں نے اس کو انگریزی الرسالہ کے کچھ شمارے پڑھائے ۔ ان کا بیان ہے کہ جب میں نے اس کو انگریزی الرسالہ پڑھایا تو اس کو پڑھ کر وہ رو پڑی (فبکت) اب اسلام اس کو عین فطرت کا دین نظر آیا ۔ اس نے پوری رضا مندی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا اور کہا:
I feel I knew this before. It's not a new thing for me.
مذکورہ خاتون کو تعدد ازواج کے مسئلہ پر سخت اعتراض تھا ۔ طارق الکردی نے اس کو انگریزی الرسالہ (اگست ۱۹۸۹) پڑھنے کے لیے دیا۔ اس کو پڑھ کر خاتون نے کہا کہ اب میں نے اسلام کے اس مسئلہ کومان لیا۔ اب مجھے اسلام کے بارے میں کوئی شک نہیں۔
۲۸ ستمبر کو دوپہر کا کھانا "ذات العماد" میں تھا۔ کھانے کی میز پر میرے علاوہ تین عرب تھے ۔ ایک عرب بزرگ نے اپنی گفتگو کا آغاز اس عربی مثل سے کیا : إنْ كَانَ الْكَلَامُ مِنْ الْفِضَّةِ فَالسُّكُوت مِنْ الذَّهَبِ (بولنا اگر چاندی ہے تو چپ رہنا سونا ہے) اس کے بعد انھوں نے بولنا شروع کیا تو وہ مسلسل بولتے رہے۔
کافی دیر تک وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ آخر میں میں نے ان سے کہا : یا أخی أَتُحِبُّ الذَّهَبَ أَمْ الْفِضَّةَ ( آپ سونا پسند کرتے ہیں یا چاندی) انھوں نے ایک لمحہ سوچا۔ اس کے بعد سنجیدگی کے ساتھ بولے : أَفْضَل الذَّهَب وَلَكِن عِنْدِى الْفِضَّة (میں سونے کو اچھا سمجھتا ہوں،مگر میرے پاس چاندی ہے)
یہ عربوں کی ممتاز خصوصیت ہے کہ وہ فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ مگر یہی بات ہندستان اور پاکستان میں تقریباً معدوم کے درجہ میں ہے۔ یہاں ہر آدمی اسلام کے نام پر بے تکان بول رہا ہو گا۔ لیکن اس کی کسی کمزوری یا غلطی کی طرف توجہ دلائیے تو وہ کبھی اس کا اعتراف نہیں کرے گا، خواہ۔۔