مثبت اثر
مشہور نحوی سیبویہ (م ۱۷۷ھ) ایران میں پیدا ہوا اور بصرہ میں پرورش پائی۔ اس کی نوجوانی کا واقعہ ہے جب کہ وہ حدیث وفقہ کا طالب علم تھا۔ ایک دن وہ حماد بن سلمہ کی مجلس میں تھا ۔ انھوں نے ایک حدیث کا املا کراتے ہوئے کہا : لَيْسَ أحد من أَصْحَابِي إِلَّا لَو شِئْت أخذت عَلَيْهِ، لَيْسَ أَبَا الدَّرْدَاء " سیبویہ سن کر بول اٹھا: لَيْسَ أَبُو الدَّرْدَاء ۔ اس پر حماد نے چلا کر کہا : سیبویہ تم غلطی پر ہو۔ یہ استثناء ہے اس لیے (ابو کے بجائے ابا ہے)سیبویہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ میری نحوکمزور ہے اور مجھے اس میں مہارت پیدا کرنی چاہیے ۔ اب اس نے نحو سیکھنا شروع کر دیا ۔(مجالس العلماء للزجاجي ،صفحہ ۱۱۸)
وہ بصرہ و کوفہ کے نحوی علما ء خلیل ، یونس اور عیسی بن عمر کی مجلسوں میں جانے لگا۔ اس نے اس فن میں اتنی محنت کی کہ بالآخر وہ اس کا امام بن گیا۔ نحو و ادب کے شاذ مسائل میں اس کا کوئی ثانی نہ رہا ۔ اس کے بعد اس نے نحو پر ایک ایسی کتاب لکھی جو اپنی اہمیت اور بلندی کی وجہ سے "الکتاب "کے نام سے مشہور ہے ۔ اس فن کے علماء کا کہنا ہے کہ فنِّ نحو پر اس کے برابر کی کوئی کتاب آج تک لکھی نہ جاسکی –––– جس شخص کی نحو کمزور تھی ، وہ تاریخ کا سب سے بڑا نحوی بن گیا۔
ہر شخص کی زندگی میں ایسے واقعات آتے ہیں جب کہ اسے ٹھیس لگتی ہے ۔ جب اس کو دوسروں کی طرف سے بے اعترافی کی ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ جب وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان بے جگہ ہو گیا ہے۔
ایسے مواقع پر اثر لینے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی ان تجربات کے بعد بے ہمتی اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ ایسے آدمی نے گویا اپنے آپ اپنے کو مار لیا۔ دوسرا شخص وہ ہے جس کے لیے ایسا تجربہ ایک مہمیز بن جائے ۔ ایسے آدمی کے لیے اس کا تجر بہ اس کی صلاحیتوں کو جگانے کا باعث بن جاتا ہے۔ وہ از سر نو محنت اور عمل کے رخ پر چل پڑتا ہے، یہاں تک کہ ماضی کا ناکام انسان مستقبل کا کامیاب انسان بن جاتا ہے ۔ مثبت تاثر آدمی کوکامیابی کی طرف لے جاتا ہے اور منفی تاثر نا کامی اور بربادی کی طرف ۔