صبر و برداشت
حضرت ابوسعید سعد بن مالک بن سنان الخدری کی ایک روایت ہے جس کو امام بخاری اورامام مسلم دونوں نے اپنی" صحیح " میں نقل کیا ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو اللہ کی طرف سے صبر سے زیادہ بہتر اور زیادہ بڑا عطیہ نہیں دیا گیا۔( وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ)(بخاری، 1400مسلم، 1053)
صبر تمام کامیابیوں کی کنجی ہے ۔ خواہ اس کا تعلق دنیا کی کامیابی سے ہو یا آخرت کی کامیابی ہے۔ پیغمبر اسلام کی یہ تعلیم اعلیٰ ترین فطری صداقت تھی۔ چنانچہ وہ ساری دنیا میں مختلف شکلوںمیں دہرائی گئی۔ شیخ سعدی شیرازی (۱۲۹۲ - ۱۲۱۳) نے اس کو فارسی زبان میں اس طرح بیان کیا کہ صبر کڑوا ہے ، مگر اس کا پھل میٹھا ہے :
صبر تلخ است و لیکن بر شیریں دارد
اس کے بعد زندگی کا یہ قیمتی سبق عالمی ادب میں پہونچا اور ہر ملک میں اس کو کسی نہ کسی صورت سے نقل کیا گیا۔ مثلا ً فرانسیسی مفکر روسو (۱۷۷۸ – ۱۷۱۲) نے یہی بات دوبارہ اس طرح کہی کہ برداشت کڑوی چیز ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے :
Patience is bitter, but its fruit is sweet.
صبر کا کڑو اپن چند منٹ کے لیے ہوتا ہے ، مگر بے صبری کے نتیجہ میں جو کڑو اپن آتا ہے وہ برسوں تک بھی ختم نہیں ہوتا۔ صبر کا جھٹکا ذہن کے اندر صرف نفسیاتی طور پر سہنا پڑتا ہے، مگر بے صبری وہ چیز ہے جو آخر کار جانوں کو ہلاک کرتی ہے۔ جائدادوں کو برباد کرتی ہے۔ وہ آدمی کوآگ اور خون کے دریا میں پہونچا دیتی ہے۔
صبرایک اصول ہے۔ جب کہ بے صبری صرف ایک منفی رد عمل ہے۔ صبر کرنے والا اپنے آپ کوبا اصول انسان ثابت کرتا ہے۔ اس کو اندرونی طور پر اطمینان کی یہ لذت ملتی ہے کہ وہ کٹھن گھڑیوں میں بھی اصول پرقائم رہا۔ اس کے برعکس بے صبر انسان کے حصے میں یہ بد نصیبی آتی ہے کہ وہ وقتی طور پر بھڑک کر ایک جذباتی کارروائی کرے ، اور پھر ساری عمر پچھتا تا رہے کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔