ایک سنت
مکہ کی فتح (۸ ھ) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے طائف کا سفر کیا۔ اس سفر کےدوران جو واقعات پیش آئے، ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے :
ثُمَّ سَلَكَ فِي طَرِيقٍ يُقَالُ لَهَا الضَّيْقَةُ، فَلَمَّا تَوَجَّهَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَأَلَ عَنْ اسْمِهَا، فَقَالَ: مَا اسْمُ هَذِهِ الطَّرِيقِ؟ فَقِيلَ لَهُ الضَّيْقَةُ، فَقَالَ: بَلْ هِيَ الْيُسْرَى (سيرة ابن ہشام، الجزء الرابع ، صفحہ ۱۲۷)
پھر آپ اس راستہ میں چلے جس کو ضیقہ (تنگ) کیا جاتا تھا۔ جب آپ نے اس کا رخ کیا تو آپ نے اس کا نام پوچھا اور کہا کہ اس راستہ کا نام کیا ہے ۔ آپ کو بتایا گیا کہ ضیقہ (تنگ ) آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ یسریٰ (آسان) ہے۔
یہ واقعہ بتا تا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم وتربیت کا طریقہ کیا تھا۔ وہ آدمی کے طرزفکر کو بدلنا تھا۔ لوگ جس چیز کو "مشکل "کے روپ میں دیکھ رہے ہوں، اس کے متعلق ایسی نظر پیدا کرنا کہ وہ اس کو" آسانی" کے روپ میں دیکھنے لگیں۔ آج ضرورت ہے کہ پیغمبر کی اس سنت کو زندہ کیا جائے۔ لوگوں کے سوچنے کے طریقہ کو بدلنا اور ان کے ذہن کو درست کرنا یہی آج کرنے کا سب سے بڑا کام ہے ۔ اسی کام کے کرنے پر ملت مسلمہ کے مستقبل کا انحصار ہے۔
موجودہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کو قومی ہیرو کی حیثیت دے رکھی ہے ۔ اس کے بجائے ان کے اندر یہ ذہن بنانا کہ پیغمبر ایک قابل تقلید اسوہ ہے۔ آج مسلمان اپنی تاریخ سے فخر کی غذا لے رہے ہیں۔ اس کے بجائے انہیں تاریخ سے سبق لینے والا بنانا ۔ مسلمان اپنے مسائل کو ظلم کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اس کے بجائے ان کو اس قابل بنانا کہ وہ انھیں چیلنج کی نظر سے دیکھیں۔ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا حریف اور رقیب سمجھے ہوئے ہیں ، اس کے بجائے ان کے اندر یہ نگاہ پیدا کرنا کہ وہ دوسری قوموں کو مدعو کی حیثیت دیں اور ان کے ساتھ داعیانہ اخلاق والا معاملہ کریں۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر ایسا فکری انقلاب لانا کہ وہ موجودہ قومی نگاہ کو چھوڑ دیں اور چیزوں کو ربانی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس چھوڑی ہوئی سنت کو مسلمانوں میں دوبارہ زندہ کیا جائے۔