خبر نامہ اسلامی مرکز - ۵۹

۱۔ رابطہ عالم اسلامی (مکہ) کے تحت ایک ادارہ قائم ہے جس کا نام هيئة الإعجاز العلمى فی القرآن والسنة ہے۔ اس کا صدر دفتر مکہ میں ہے ۔ اس ادارہ کے عرب نمائندہ احمد الصاوی ۲۰ نومبر ۱۹۸۹ کو مرکز میں آئے اور صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویوکا موضوع یہ تھا : " قرآن کی صداقت پر جدید سائنسی دلائل"

۲۔الرسالہ کی دعوت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب تمام لوگ اسی کی بولی بولتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مثلاً تعمیر حیات (۲۵ نومبر ۱۹۸۹) میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کا بیان چھپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے قضیہ کو سٹرک پر لانا غلط تھا۔" موجودہ دھماکہ خیز صورت حال پرقا بو پانے کا "یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ" مسلمان اس موقع پر فریق ثانی کی تقریروں سے اشتعال میں نہ آئیں۔ وہ پُر امن رہیں"۔ مسلمانوں کے سیاسی قائدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملکی فضاکو"اس قابل رہنے دیں کہ برادران وطن اسلام کی تعلیمات کا ٹھنڈے دل و دماغ سے مطالعہ کر سکیں " یہ سب عین الرسالہ کی باتیں ہیں۔ اللہ کا فضل ہے کہ الرسالہ کی ۱۳ سالہ جد و جہداب کامیابی کے نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی۔

۳۔نئی دہلی کے علاقہ میں ایک عیسائی چرچ ہے جس کا نام (St. Michaels Church) ہے۔اس چرچ کے منتظمین کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے ۱۴ نومبر ۱۹۸۹ کو وہاں ایک تقریر کی ۔ یہ تقریر اسلام کے تعارف پر تھی۔ تقریر میں سادہ طور پر بتایا گیا کہ اسلام کیا ہے اوراس کی تعلیمات کیا ہیں۔ تقریر آدھ گھنٹہ تک جاری رہی۔ اس کے بعد حاضرین کی طرف سے سوالات کیے گئے جن کا جواب صدر اسلامی مرکز نے دیا۔ حاضرین میں زیادہ تر عیسائی اورہندو صاحبان تھے۔

۴۔مالدیپ کے ہفت روزہ اخبار ہو یر (Haveer) کے نمائندہ مسٹر محمد وحید ۲۵ نومبر ۱۹۸۹ کو مرکز میں آئے اور صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو مذکورہ مالدیپی ہفت روزہ میں شائع ہوگا ۔ انٹرویو کا موضوع زیادہ تر" عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کے مسائل"تھا۔ وہ مرکز کی کچھ انگریزی مطبوعات اپنے ساتھ لے گئے  ۔

۵۔جناب بلال الدین صاحب بھو پالی نے بتایا کہ جناب قمر عالم صاحب جو سعودی عرب میں انجینیر ہیں، وہ الرسالہ انگریزی پابندی سے منگواتے ہیں اور ہر ماہ اس کی پچاس کاپی نکال کر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ کام وہ جدید قسم کی فوٹو کاپی مشین کے ذریعہ کرتے ہیں۔ الرسالہ کی سلائی کھول کر اس کے اوراق اس میں رکھ دینا کافی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ۵۰ کا بٹن دبانے سے اپنے آپ تمام اوراق دونوں طرف چھپ کر نکل آتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک رسالہ سے ۵۰ رسالہ بنا کر اس کو ہر ماہ لوگوں کے درمیان پھیلا رہے ہیں ۔

۶۔ڈاکٹر شمس الآفاق الہ آبادی دو مہینے (اکتو بر - نومبر ۱۹۸۹) کے لیے باہر کے ملکوں کے سفر پر گئے۔ اس سلسلے میں انھوں نے امریکہ ، کوریا، چین وغیرہ کا سفر کیا۔ وہ اپنے ساتھ انگریزی الرسالہ اور مرکز کی انگریزی کتابیں بھی لے گئے تھے۔ ہر جگہ انھوں نے لوگوں سے گفتگو کی اورالرسالہ اور کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ امریکہ کی ایک کانفرنس میں بہت سے پر وفیسر شریک تھے۔ ان سب کو انھوں نے ایک ایک الرسالہ دیا۔ ایک امریکی پروفیسر نے مذہب کے بارے   میں بے اعتمادی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کو مرکز کی کچھ انگریزی مطبوعات دیں۔ ان کو پڑھ کر مذکورہ پروفیسر نے کہا :

I was very much impressed.

۷۔کویت کے عربی مجلہ  المجتمع کے نمائندہ عبد العزیز محمد ۱۵ نومبر ۱۹۸۹ کو مرکز میں آئے  اور صدر اسلامی مرکز کا انٹرویولیا۔ انٹرویو کا موضوع زیادہ تر فلسطین کا مسئلہ تھا۔

۸۔اور ایک امریکی ادارہ انٹرنیشنل ریلیجس فاونڈیشن (نیویارک) نے ۹۲۱ صفحات پر مشتمل ایک انگریزی کتاب تیار کی ہے۔ اس کا نام (World Scripture) ہے ۔ اس کتاب کو نیو یارک کا اشاعتی ادارہ نیو ایرا بُک (New Era Book) شائع کر رہا ہے۔ اس کتاب میں دوسرے مذاہب کے علاوہ اسلام کا مفصل تعارف ہے۔ اس تعارف میں اس کے اڈیٹر نے دوسرے انگریزی تراجم قرآن کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کے مشوروں اور ان کی فراہم کردہ معلومات سے بھی مددلی ہے جس کا ذکر مذکورہ کتاب کے دیبا چہ میں کیا گیا ہے۔

 ۹۔مسٹر موکیش کو شیک نے اخبار پانچ جنیہ کے لیے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا ۔ انٹرویو کا خاص موضوع یہ تھا کہ مسلم ملکوں میں غیر مسلم اقلیتوں کی سماجی اور اقتصادی حالت کیا ہے۔ یہ انٹرویو ۱۵ نومبر ۱۹۸۹ کو اسلامی مرکز کے دفتر میں لیا گیا۔

۱۰۔مسز انیس جنگ ٹائمس آف انڈیا کی کالم نگار ہیں ۔ انھوں نے ٹائمس آف انڈیا کے لیے ۲۷ نومبر ۱۹۸۹ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا ۔ انٹرویو کا خاص موضوع یہ تھا کہ کیامسلمانوں کی مشکلات اور پس ماندگی کا ذمہ دار اسلام ہے۔ ان کے مختلف سوالات کے جواب میں جو بات کہی گئی ، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی مشکلات و مسائل کی ذمہ داری صرف دو چیزوں پر ہے ۔ (ا) ان کی حد درجہ نا اہل قیادت (۲) ان کا تعلیم میں پیچھے ہونا ۔ یہ انٹرویو ٹائمس آف انڈیا ۱۰  دسمبر ۱۹۸۹ میں شائع ہوا ہے۔

۱۱۔تبت ہاؤس نئی دہلی کی طرف سے ۲۵ نومبر ۱۹۸۹ کو ایک کل ہند سیمنار تھا جس کا عنوان تھا (Religion and Ecology) اس موقع پر اسلامی مرکز کو اسلام کا نقطۂ نظر پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ڈاکٹر ثانی اثنین خاں نے اسلامی مرکز کی نمائندگی کرتے ہوتے مذکورہ موضوع پر ایک پیپر پیش کیا۔ اس سیمنار کی کارروائیاں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر(نئی دہلی) میں انجام پائیں ۔

۱۲۔ارشاد احمد صاحب (بنگلور) نے بتایا کہ بنگلور میں انگریزی الرسالہ کے ذریعہ غیر مسلموں میں دعوت پہونچانے کا کام منظم انداز میں کیا جا رہا ہے ۔ مقامی قارئین الرسالہ نے ایک فنڈ بنایا ہے ۔ اس فنڈ کے ایک جزءسے ہر ماہ ۲۵ - ۳۰ تعلیم یافتہ غیر مسلموں کو انگریزی الرسالہ بذریعہ پوسٹ بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح چند مہینہ تک بھیجنے کے بعد انھیں خط لکھا جاتا ہے اور ان کا تاثر پو چھا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کی طرف سے جوابات موصول ہوتے ہیں ان سے ملاقات کر کے مزید گفتگو کی جاتی ہے ۔ اسی طرح دستی طور پر بھی انگریزی الرسالہ پہونچانے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ اس مہم کے مثبت نتائج ظاہر ہورہے ہیں۔

۱۳۔ایک صاحب لکھتے ہیں : میں نے آپ کے الرسالہ کے مضامین سے کافی استفادہ کیا ہے۔ میرا ذاتی مزاج انتقامی تھا۔ دینی کام بھی بطور رسم ادا کرتا تھا۔ لیکن آج اللہ کے کرم سے اور دعوت ِالرسالہ سے بالکل ہی زندگی میں تبدیلی واقع ہوگئی ۔ اکثر جگہ دوران گفتگو الرسالہ کے مضامین سے لوگوں کو دعوت دیتا ہوں (حفیظ اللہ اعوان، پونچھ)

۱۴۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ میری روح کی غذا ہے۔ جہاں ہر طرف مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی فتنے سر اٹھا رہے ہیں، الرسالہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرکے گویا اتمام حجت کر رہا ہے۔ عام جماعتیں نوجوانوں کو جذباتی اور سطحی بنا کر ان کا استحصال کر رہی ہیں۔ جب کہ الرسالہ ان میں سنجیدگی ، صحیح فکر اور حقیقت پسندی پیدا کر کے انھیں کامیابیوں سے ہم کنارکر رہا ہے (قاری محمد اسماعیل۔ بنگلور)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom