بے خبری
اقبال کا ایک مشہور فارسی شعر ہے ۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ کا دین آدمی کو غار میں اور پہاڑی ویرانوں میں لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارا دین اسلام ہم کو جنگ وشکوہ کا سبق دیتا ہے :
مصلحت در دین عیسیٰ غار وکوہ
مصلحت در دین ما جنگ و شکوه
اقبال کا یہ شعر بتا تا ہے کہ وہ اپنے زمانہ سے ، کم از کم شعوری طور پر ، بالکل بے خبر تھے ۔ اقبال ۱۸۷۷ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹۳۸ میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ پورا زمانہ وہ ہے جب کہ "عیسیٰ "کو ماننے والی قوموں نے صدیوں کی ترقیاتی کوششوں کے بعد اپنے آپ کو اتنا اونچا اٹھایا کہ وہ تقریباً پوری دنیا پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر غالب آگئیں۔ بالفاظ دیگر، انھوں نے دین اسلام کے پیرووں کو "غارو کوہ "میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ اور خود" جنگ و شکوہ "کے ہر میدان میں مکمل برتری حاصل کرلی۔
اس واضح واقعے کے باوجود اقبال اپنا مذکورہ بالا شعر کہتے ہیں جو اصل صورت حال کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شعر ماضی سے بھی بے خبری کا ثبوت ہے اور حال سے بے خبری کا بھی۔
مسیحی لوگ ابتدائی زمانےمیں اپنے مخالفین کی دارو گیر سے بھاگ کر غاروں اور پہاڑوں میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ غالب قوم بن گئے ۔ یہی واقعہ خود مسلمانوں کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ مکہ کے ابتدائی دور میں مسلمان اپنے دین کو لے کر پہاڑی گھاٹیوں میں چلے گئے ، اور ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔ اس کے بعد حالات بدلے اور مسلمان عالمی سطح پر غالب اور فاتح بن گئے ۔
اقبال اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے صرف دور ثانی کو جانتے ہیں اور مسیحیوں کے صرف دور اول کو۔ ایسے بے خبر لوگ اگر اپنی قوم کو وقت کے مطابق صحیح رہنمائی نہ دے سکیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔
اس قسم کی رہنمائی صرف جھوٹا فخر دے سکتی ہے، مگر جھوٹا فخر کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔