مومن کا طریقہ
ابوالبرکات علوی صاحب (پیدائش ۱۹۲۹) اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ نومبر ۱۹۴۶ میں دیوبند گئے تھے۔ وہاں وہ چند روز مولانا حسین احمد مدنی (۱۹۵۷-۱۸۷۹) کے مہمان رہے ۔ یہ زمانہ وہ تھا جب کہ کانگریسی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے لوگوں کے درمیان اختلاف اپنے آخری عروج پر تھا ۔ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے پر جوش مسلمان مولانا حسین احمد مدنی کے سخت ترین مخالف تھے ۔ مولانا مدنی کے خلاف جھوٹے الزام لگانا ، ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرنا، ان کے دینی وقار کو مجروح کرنا، غرض ان کے خلاف ہر نا زیبا حرکت کو انھوں نے اپنےلیے جائز کر لیا تھا۔
نفرت اور اشتعال کی یہی فضاتھی جب کہ ابو البر کات علوی نے دیوبند کا سفر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک روز جب کہ وہ مولانا مدنی کے مہمان خانے میں تھے۔ مولانا اپنی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس وقت ایک شخص آیا۔ بظاہر وہ مولانا مدنی کے مریدوں میں سے تھا ۔ اس نے کہا : مولانا، قائد اعظم مسٹر جناح کا اللہ کے یہاں کیا حشر ہوگا۔
ابوالبرکات علوی کا بیان ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی یہ سوال سن کر کچھ دیر چپ رہے۔ اس کے بعد سنجیدہ انداز میں فرمایا اگر اس کے ارادے نیک ہیں تو اس کا اجر بھی نیک ہوگا۔ اوراگر اس کے ارادے نیک نہیں ہیں تو اس کا اجر بھی نیک نہیں ہوگا۔
یہ مثال بتاتی ہے کہ سخت ترین شکایت اور اختلاف کی حالت میں بھی مومن کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔ مومن اللہ سے ڈرنے والا انسان ہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور اس کے ہر قول اور فعل کا اس سے حساب لینے والا ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایک حد پرقائم رہے ، وہ ہر حال میں انصاف کی بات کہے۔
مولانا حسین احمد مدنی مسٹر جناح کے سخت مخالف تھے ۔ دونوں کے درمیان تعلقات اشتعال انگیزی کی حد تک خراب ہو چکے تھے ۔ اس کے باوجود جب مولانا کو مسٹر جناح کے بارے میں بولنا ہوا تو وہ عبدیت کے دائرہ میں رہ کر بولے ۔ اپنے قابل نفرت دشمن کے بارے میں بھی وہ انصاف کی حد سے باہر نہ جاسکے۔