تعبیر کا مسئلہ
مسند امام احمد میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو ایک روشن راستہ پر چھوڑا ہے۔ اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح ہے۔ اس سے کوئی شخص کج روی میں مبتلا نہیں ہوگا، مگر صرف وہ جو ہلاک ہونے والا ہے (لقد ترکتُکم علی المحجّۃ البیضاء لیلہا کنہارہا لا یزیغ عنہا الا ہالک)۔
اس سے معلوم ہوا کہ خدا کا دین اتنا زیادہ واضح ہے کہ اس کی راتیں بھی اس کے دنوں کی طرح روشن ہیں۔ اس کے باوجود پھر بھی یہ امکان باقی ہے کہ آدمی اس سے بھٹک جائے، وہ دین کے نام پر بے دینی میں پڑ جائے۔ ایسا حادثہ اس کے ساتھ پیش آئے گا، جو ہالک ہو۔ یعنی وہ ہلاکت خیز نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔اصل یہ ہے کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی زیادہ واضح ہو، اس میں تعبیر کی گنجائش بہر حال باقی رہے گی۔ یہ موجودہ امتحانی حالت کا تقاضا ہے۔ متن میں اس طرح تعبیر کا امکان ہونا اس کے اندر زیغ اور بھٹکاؤ کا امکان پیدا کردیتاہے۔
قرآن میں نہایت واضح لفظوں میں ہے کہ اللہ احد، مگر کچھ لوگوں نے اس کو وحدت ذ۱ت کے معنٰی میں لینے کے بجائے وحدت وجود کے معنٰی میں لے لیا۔ قرآن میں انفرادی نجات کا تصور ہے، مگر کچھ لوگوں نے اس کو گروہی نجات کے ہم معنٰی بنادیا۔ قرآن میں دشمن کو دوست بنانے پر زور دیا گیا ہے، مگر قرآن ہی سے دشمنکو مارو کا نظریہ برآمد کر لیا گیا۔ قرآن کے مطابق، رسول کو رحمت کا دین دیا گیا ہے، مگر خود ساختہ تعبیر کے ذریعہ اس کو جنگ کا دین بنا دیا گیا۔ قرآن میں زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کا حکم ہے، مگر تشریح کرنے والوں نے کہا کہ زیادتی پر چپ رہنا غیرت اسلامی کے خلاف ہے، وغیرہ۔
اسلام بلا شبہہ ایک روشن دین ہے۔ مگر انسان کا ذہن روشن نہیں ہوتا۔ انسان اپنے غیر روشن ذہن کی بنا پر اسلام کو اس کی اصل صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔ وہ اپنے ناقص ذہن کے تحت اسلام کی ناقص تشریح کرنے لگتاہے۔ یہاں تک کہ وہ ہلاکت کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔