اسوۂ رسول
قرآن میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول میں تمہارے لیے بہترین نمونہ (اسوۂ حسنہ) ہے، اس کے لیے جو اللہ کی اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرے (الاحزاب ۲۱)۔رسول سے نمونہ اخذ کرنے کے معاملہ کو اس پر کیوں منحصر کیا گیا ہے کہ آدمی اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والا ہو اور وہ آخرت میں اللہ کے فضل کا امید وار ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نمونہ اخذ کرنے کا معاملہ کوئی مشین جیسا معاملہ نہیں ہے کہ ایک سوئچ دبایا اور مطلوب نتیجہ اپنے آپ نکل آیا۔ بلکہ اس میں بہت زیادہ دخل اس انسانی ذہن کا ہوجاتا ہے جس کو رسول اللہ کی زندگی سے اپنے لئے نمونہ حاصل کرنا ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آزادانہ طورپر سوچنے اور آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب چونکہ رسول اللہ کے ہر قول یا عمل میں تاویل(interpretation) کی گنجائش رہتی ہے۔ اس لئے آدمی کے لئے ہمیشہ موقع رہتا ہے کہ وہ جس انداز پر چاہے اس کی تشریح کرے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا ذاتی رجحان کام آتا ہے۔ اگر وہ سنجیدہ ہے تو وہ احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی تشریح کرے گا۔ اور اگر وہ سنجیدہ نہیں ہے تو غیر ذمہ دارانہ طورپر کوئی بھی ایسی تشریح اختیار کرلے گا جو اس کی پسند سے مطابقت رکھتی ہو۔آخرت کی فکر اور اللہ کا خوف آدمی کے اندر جواب دہی کا احساس ابھارتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آخری حد تک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ وہ جب رسول اللہ کے قول و عمل کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ اپنے ذاتی رجحان کو بالکل الگ رکھ دیتاہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچے، وہ آپ کے قول یا عمل کو عین اسی مفہوم میں لے جو کہ فی الواقع اس کا مفہوم ہے۔
جہنم کا اندیشہ اور آخرت کی فکر آدمی کو سنجیدہ بنا تے ہیں اور ایک سنجیدہ آدمی ہی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی معاملہ کو سمجھنے میں کوئی انحراف نہ کرے۔ وہ رسول کی بات کو خود رسول کے مفہوم میں لے، نہ کہ اپنے ذاتی مفہوم میں۔