خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۷
۱۔ اسلامی مرکز (نئی دہلی) میں ایک ریگولر کلاس ہوتی ہے۔ یہ جنوری ۲۰۰۱ سے برابر جاری ہے۔ یہ ہر ہفتہ سنیچر اور اتوار کو ہوتی ہے۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس میں لکچراور گفتگو کا موضوع زیادہ تر امن اور روحانیت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے ذہنی مسائل میں اُن کی کاؤنسلنگ (counselling) بھی کی جاتی ہے۔ صدر اسلامی مرکز اور دوسرے لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں۔
۲۔ مودی انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی ) کے تحت اجودھیا پرییرمیٹ (Ayodhya Prayer Meet) کا پروگرام ۱۸۔۲۰ ستمبر ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس سلسلہ میں دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک ٹیم اجودھیا گئی۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو بھی شامل کیا گیا۔ اجودھیا جاکر اُنہوں نے وہاں کے پروگرام میں شرکت کی اور مسئلہ پراظہار خیال کیا۔
۳۔ پیس انٹرنیشنل کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سوئزر لینڈ کاسفر کیا۔ یہ سفر اکتوبر ۲۰۰۲ کے دوسرے ہفتہ میں پیش آیا۔ وہاں دوسری کارروائیوں کے علاوہ اُن کو انٹرنیشنل پیس ایوارڈ دیا گیا۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۴۔ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۲ کو پینل ڈسکشن ہوا۔ اُس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی۔ گفتگو کے دوران اُنہوں نے بتایا کہ اسلام کے مطابق، غیر مسلم لوگوں کو صرف انسان کہا جاسکتا ہے، نہ کہ کافر۔ ہندستان میں جوہندو ہیں، اسلام کے مطابق، ہم بھی اُن کو ہندو کہیں گے، ہم اُن کو کافر نہیں کہہ سکتے۔
۵۔ تہران ریڈیو نے ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترفلسطین کے مسئلہ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فلسطین کی تحریک اپنے نشانہ کے اعتبار سے درست ہے مگر طریقِ کار کے اعتبار سے فلسطینی لیڈروں کو اپنی تحریک کا ری اسس منٹ (reassessment)کرنا چاہئے۔ پچھلے پچاس سال کے دوران یہ تحریک پرتشدد طریقِ کار کے اصول پر چلائی گئی مگر وہ سراسر بے نتیجہ رہی۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس تحریک کو پر امن طریقِ کار کے اصول پر چلایا جائے۔ فلسطین کی تباہیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ فلسطین میں پر امن طریقِ کار اب فلسطینیوں کے لیے صرف ایک انتخاب (choice) نہیں رہا ہے بلکہ وہ ان کے لئے لازمی ضرورت کے درجہ میں پہنچ چکا ہے۔
۶۔ جین ٹی وی (نئی دہلی) نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا۔ یہ انٹرویو اینٹی کنورژن قانون کے بارہ میں تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ کنورژن ہندستانی دستور کے مطابق، ہر شہری کا جائز حق ہے۔ ایسی حالت میں کنورژن کے خلاف قانون بنانا دستور کی نفی ہے۔ جب تک موجودہ دستور باقی ہے، اینٹی کنورژن قانون جائز طورپر نہیں بنایا جاسکتا۔
۷۔ دور درشن (نئی دہلی) نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق سپریم کورٹ کے اُس فیصلہ سے تھا جو غیر امدادی تعلیمی ادارہ کے بارہ میں آیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ اُصولی طور پر درست ہے اور عالمی نظام کے مطابق ہے۔
۸۔ ۱۰۔۱۲نومبر ۲۰۰۲ کو ہمالین انسٹی ٹیوٹ ہاسپٹل اور سادھنا مندر ٹرسٹ کی طرف سے رشی کیش میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں مغربی ملکوں کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا۔ سائنس اینڈ میڈیٹیشن(Science and Meditation)۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اور وہاں موضوع پر کئی تقریریں کیں۔ ایک تقریر جس میں مغربی ملکوں کے لوگ شریک تھے اس میں انہوں نے بتایا کہ میڈیٹیشن اور روحانیت کا ذریعہ اسلام میں نماز ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے زبانی تشریح کے علاوہ لوگوں کے سامنے نماز کو عملی طور پرپڑھ کر دکھایا۔
۹۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۵ نومبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات کی وِجے یاترا سے تھا۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ انڈیا میں ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے مگر ہر آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔ مذہبی آزادی کا حق کسی کو اس وقت تک ہے جب تک وہ دوسروں کے لئے مضر نہ بنے۔ دوسروں کے لیے مضر بنتے ہی اس کی آزادی کا حق ختم ہوجائے گا۔
۱۰۔ یونیسکو کی سرپرستی میں وومن کولیشن (Womens' Coalition) نے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ یہ سیمینار ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ کو انٹر نیشنل ڈے آف ٹالرنس ۲۰۰۲ (International Day of Tolerance 2002) کے موقع پرکیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور ٹالرنس کے موضوع پراسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ٹالرنس کوئی سرنڈر(Surrender)نہیں ہے۔ وہ پختگی کا اظہار ہے۔ٹالرنس یہ ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
Tolerance is maturity. Tolerance is the ability to live in peace with things we cannot change.
۱۱۔ نئی دہلی کے انگریزی ماہنامہ لائف پازیٹیو(Life Positive) کی کرسپانڈنٹ سسمتا ساہا (Susmita Saha) نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع اسلامی میڈیٹیشن تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ میڈیٹیشن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس میں آدمی خود اپنے اندر دھیان لگاتا ہے۔ یہ میڈیٹیشن آنکھ بند کرکے کیا جاتا ہے۔ اس میں سوچ کو معطل کرکے خاموشی کی دنیا میں پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرا میڈیٹیشن جو اسلامی میڈیٹیشن ہے وہ خدا پر مبنی ہے۔ اس میں سارا دھیان خدا کی طرف لگایا جاتا ہے۔ پہلی قسم کے میڈیٹیشن میں فائنڈر اور فائنڈنگ دونوں ایک ہوتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کے میڈیٹیشن میں فائنڈر الگ ہوتاہے اور فائنڈنگ الگ۔ اس میں انسان فائنڈر ہوتا ہے اور خدا فائنڈنگ۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ صوفی ازم میں جو نئے طریقے شامل کئے گئے وہ اسلام میں ریفارم نہ تھا بلکہ صرف ایک قسم کا جزئی اضافہ تھا۔
۱۲۔ ڈیلی امریکی اخبار ایری زونا ری پبلک (Daily Arizona Republic) کی کالمنسٹ منتوشی دیوجی(Mantoshe Devji) نے ۳۰ نومبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام کا کوئی نیا انٹرپریٹیشن (current interpretation) نہیں ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات ابدی ہیں۔ آج کل اسلامی جہاد کے نام پر مختلف مقامات پر جو کچھ ہورہا ہے وہ اسلام نہیں ہے۔ وہ اسلام کا خود ساختہ انٹرپریٹیشن ہے۔ اسلام مکمل طورپرپر امن طریقِ کار کی حمایت کرتا ہے۔ متشددانہ طریقِ کار کی اسلام میں کسی بھی حال میں گنجائش نہیں۔
۱۳۔ انڈین سنٹر فار فیلانتھرا پی کے تحت ۲ دسمبر ۲۰۰۲ کو انڈیا ھیبیٹٹ سنٹر نئی دہلی میں ایک سیمینار ہوا۔اس کا موضوع Religion and Social Development تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر اس میں ایک تقریر کی:
Role of Islam in Social Development
اس تقریر میں قرآن وحدیث کے حوالوں سے بتایا گیا کہ اسلام کی بنیاد انسانیت کی خیر خواہی پر ہے۔ توحید کے بعد اسلام میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ یہی انسانی خیر خواہی ہے۔ اس انسانی خیر خواہی کی تکمیل کے لئے اسلام میں جو معاشرتی احکام دئے گئے ہیں ان کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ سارا پروگرام انگریزی میں تھا۔ اس موقع پر سوامی گولکانندا نے اس موضوع پر ہندو نقطۂ نظر پیش کیا اور فادر والسن تھمیو نے مسیحی نقطۂ نظر پیش کیا۔
۱۴۔ نئی دہلی کے ادارہ سمپردان (Sampradaan) کے تحت انڈین سینٹر فار فیلان تھراپی (Indian Centre for Philanthropy) میں ۳ دسمبر ۲۰۰۲ کو ایک پروگرام ہوا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور ریلیجیس چیریٹی(Religious Charity) کے موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔
۱۵۔ حیدر آباد میں ۷۔۸ دسمبر ۲۰۰۲ کو تھنکرس میٹ (Thinkers' Meet) کے نام سے ایک سیمینار ہوا۔ اس کا اہتمام وگیان بھارتی مہارشی بھاردواج سوسائٹی اے۔پی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ۷ دسمبر کی صبح کو وہ حیدر آباد پہنچے اور ۱۱ دسمبر ۲۰۰۲ کو واپسی ہوئی۔ اس موقع پر سیمینار کے علاوہ مختلف اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ سیمینار کا موضوع انڈیا نائزیشن آف ایجوکیشن (Indianization of Education) تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارے سماج میں جو بگاڑ آیا ہے اس کا حل انڈیانائزیشن نہیں ہے بلکہ اسپریچولائیزیشن (spiritualization) ہے۔ وسیع کوشش کے ذریعہ لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہے۔ لوگوں کے اندر اخلاقی اور روحانی انقلاب لانا ہے۔ اس کے بعد ہی ہمارے سماجی حالات درست ہوں گے۔
۱۶۔ آؤٹ لُک میگزین (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر رنجیت بھوشن نے ۱۹ دسمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ پالیٹکس میں آئیڈیل نہیں چلتا، پالیٹکس میں ہمیشہ پرکٹکل چلتا ہے۔ مسلمانوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ پالیٹکس میں آئیڈیل چلانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی کوشش کے باوجود وہ کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا گیا کہ الیکشن کے وقت مسلمانوں کو مقامی حالات کی روشنی میں الیکشن پالیسی بنانا چاہئے، نہ کہ ملکی نقشہ کے مطابق۔
۱۷۔ نیشنل ڈیولپمنٹ اور اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کی طرف سے سہارنپور میں ۲۲ دسمبر ۲۰۰۲ کو ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ یہ پروگرام شہر کے پنجاب ہوٹل میں کیا گیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سہارنپور کا سفر کیا۔ وہاں کئی پروگرام ہوئے— پنجاب ہوٹل میں پریس کانفرنس، پنجاب ہوٹل کے عمومی جلسہ میں تقریر، خواتین کی تنظیم تیور (TEVOR) کی طرف سے کئے گئے ایک جلسہ میں تقریر، وغیرہ۔ ان تقریروں میں اسلام اور روحانیت کے پہلو سے وضاحت کی گئی۔
۱۸۔ گاندھی دھام (نئی دہلی) میں ۲۴ دسمبر ۲۰۰۲ کو عیدمِلن کا ایک پروگرام ہوا۔ اس میں بڑی تعداد میں سیاسی اور سماجی شخصیتیں شریک ہوئیں۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ عید ملن کا تصور بہت مفید تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ملن‘‘ کا اصول پوری کائنات میں جاری ہے۔ کائنات کی ہر چیز مختلف چیزوں کے ملنے سے بنتی ہے۔یہاں کی ہر چیز مجموعہ کے روپ میں ہے۔ گویا ملن کلچر ہی عالمی کلچر ہے۔ ملن کلچر کے اسی فطری طریقہ کو انسانی زندگی میں بھی اختیار کرنا چاہئے۔ ہر قسم کی ترقی ملن کلچر کے ماحول ہی میں ہو سکتی ہے۔ ملن کلچر امتزاج کا نام نہیں ہے بلکہ تنوع کو رواداری کے جذبہ کے ساتھ قبول کرنے کا نام ہے۔
۱۹۔ دہلی کے اُردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے ۲۶ دسمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ اسلام کے نام پر قتل کرنا بلا شبہہ ایک قابلِ مذمت کام ہے۔ برائی عام حالات میں بھی برائی ہے اور جو برائی اسلام کے نام پر کی جائے اُس کا جرم اور زیادہ بڑھ جاتاہے۔
۲۰۔ مودی ہاؤس (نئی دہلی) میں ۲جنوری ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ جلسہ ڈاکٹر بی کے مودی کے جنم دن کی تقریب میں تھا۔ اس موقع پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بلایا گیا تھا کہ وہ اپنے مذہب کی روشنی میں مساوات اور انسانیت کے موضوع پر اظہار خیال کریں۔ صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پر اسلام کی روشنی میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ موقع کے لحاظ سے یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔
۲۱۔ ای ٹی وی (Ernadu TV) نے ۶۔۷ جنوری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو کمپنی کے نائڈا کے اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر حج سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کمبھ میلا اور حج میں کوئی مشابہت نہیں۔ کمبھ میلا گنگا کی معبودیت کے تصور پر قائم ہے۔ جب کہ حج صرف ایک اللہ کی پرستش کے تصور پر۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ حجر اسود اور شیو لنگ میں کوئی مشابہت نہیں ۔ شیو لنگ کو اس کے پرستار افزائش نسل کا دیوتا سمجھتے ہیں۔ جب کہ حجر اسود صرف ایک پتھر ہے۔ وہ کوئی قابل پرستش چیز نہیں۔ جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ظاہری شکل کے اعتبار سے اس میں کوئی مشابہت نہیں۔
۲۲۔ سعودی عرب (ریاض) میں ہر سال المہرجان الوطنی کے نام سے بڑے پیمانہ پر تقاریر ہوتی ہیں۔اس سال یہ تقریب ۸ جنوری ۲۰۰۳ کو شروع ہوئی اور ایک ہفتہ تک جاری رہی۔ اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔وہاں اُن کو اظہار خیال کے لیے جو عنوان دیا گیا وہ یہ تھا: ہذا ہوالاسلام۔ سفر کے انتظامات مکمل کردیے گئے تھے مگر بعض وجوہ سے یہ سفر نہ ہوسکا۔ البتہ موضوع پر ایک پیپر اُنہیں بھیج دیا گیا۔
۲۳۔ مسٹر سلمان خورشید (سابق مرکزی منسٹر) کی صاحب زادی عائشہ (۱۷ سال) کا ۱۱جنوری ۲۰۰۳ کو انتقال ہوگیا۔ دہلی پبلک اسکول (آر کے پورم) میں اس موقع پر بہت بڑا فنکشن ہوا۔اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور زندگی اور موت کے موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔
۲۴ انجمن طلبۂ قدیم مدرسۃ الاصلاح کی طرف سے ۱۲ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک سمپوزیم ہوا۔ یہ سمپوزیم مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہی کے نام پر تھا۔ اس کا انعقاد ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) کے کنونشن سینٹر میں کیاگیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں بحیثیت صدر شرکت کی اور موضوع پر ایک تقریر کی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں مولانا شبلی اور مولانا حمید الدین فراہی کے کارنامے بتائے۔ نیز یہ بتایا کہ مدرسہ کاتعلیمی نظام کتنا عام ہے اوروہ نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ ملک کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہا ہے۔
۲۵۔ نئی دہلی کے روزنامہ راشٹریہ سہارا (ہندی) کے نمائندہ مسٹر نیراج نے ۱۳ جنوری ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا موجودہ ملکی مسائل پر انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ ہندوتو کوئی welldefined نظریہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ملک کی اکثریت کی حمایت اُس کو حاصل نہ ہوسکی۔ اس لیے ہندوتو ابھی تک ملک میں کوئی حقیقی مسئلہ نہیں ہے۔
۲۶۔ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے ہندی شعبہ میں ۱۶ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس میں دہلی کے پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع تھا: ہندستانی جمہوریہ کے سامنے چُنوتیاں۔ اُنہوں نے کہا کہ سب سے بڑی چنوتی تعلیم میں پچھڑا پن ہے۔ تعلیم لوگوں کو باشعور بناتی ہے۔ مثلاً ہمارا سماج اسی بنا پر رائٹ کانشش ہوگیا ہے جب کہ اچھا سماج وہ ہے جس کے افراد ڈیوٹی کانشش ہوں۔ اسی کی وجہ سے ہمارے یہاں نعروں کی پولیٹکس عام ہوگئی ہے جب کہ ایشوز کی پالیٹکس ہونا چاہئے۔ اسی لیے ہمارے سیاست داں صرف جیت کو جانتے ہیں۔ حالاں کہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ہار کو بھی ماننا جانتے ہوں۔
۲۷۔ تروینی کلا سبھا گار (منڈی ہاؤس) میں ۲۵ جنوری ۲۰۰۳ میں ایک پری سمواد ہوا۔ یہ سمواد پترکار دین دیال اپادھیائے کے نام پر کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع کے بارے میں مختصراظہار خیال کیا۔
۲۸۔ سوسائٹی فار دی پروموشن آف ریشنل تھنکنگ (SPRAT) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے احمد آباد کا سفر کیا۔ وہاں انہوں نے ۲۵۔۲۶ جنوری ۲۰۰۳ کے پروگرام میں حصہ لیا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۹۔ امریکہ سے جناب لئیق احمد صاحب نے اطلاع دی ہے کہ اُنہوں نے الرسالہ مطبوعات کو پھیلانے کے دوسرے طریقوں کے علاوہ یہ کیا کہ ہندستان کے ماہنامہ سائنس کو ’حل یہاں ہے اور ’فسادات کا مسئلہ‘ پانچ سو کی تعداد میں فراہم کیا۔ اور ’’سائنس‘‘ نے ان کتابوں کو اپنے ماہانہ شمارے میں رکھ کر اپنے تمام خریداروں کو بھیج دیا۔ اس طرح یہ کتابیں بیک وقت بہت سے لوگوں تک پہنچ گئیں۔ اس کام میں امریکہ کے مزید جن لوگوں نے تعاون کیا اُن کے نام یہ ہیں: جناب شاہد صاحب، جناب احمد صاحب، جناب ساجد ضیاء صاحب، جناب خالد خاں، جناب لئیق محمد خاں۔