خدا کا تجربہ
صحیح مسلم میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے:
ان اللہ عزو جلّ یقول یوم القیٰمۃ یابن آدم مرضت فلم تعدنی قال یا رب کیف اعودک وانت ربُّ العٰلمین قال ماعلمت انّ عبدی فلانا مرض فلم تعدہ اَما علمتَ انّک لو عدتہ لوجدتنی عندہ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب فضل عیادۃ المریض ۱۶؍۱۲۶)اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم، میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب،میں کس طرح تیری عیادت کرتا جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تم نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کی عیادت کرتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی خالص رضائے الٰہی کے لئے ایک کام کرتا ہے تو کام کے درمیان اس پر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جب کہ وہ لقاء رب کا تجربہ کرتا ہے۔ اس وقت اس کا یہ حال ہوتا ہے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔
مریض کی ایک عیادت وہ ہے جس میں رضاء الٰہی کا جذبہ شامل نہ ہو۔ جس کو آدمی نمائش کے لئے یا کسی فائدہ کے لئے کرے۔ ایسی عیادت صرف دنیوی مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر ربّانی کیفیات پیدا نہیں کرتی۔دوسری عیادت وہ ہے جب کہ خدا کا ایک بندہ کسی انسان کی بیماری کو سن کر تڑپ اٹھتا ہے۔ اس کو خدا کا یہ حکم یاد آتا ہے کہ تم دوسرے انسانوں پر رحم کرو میں قیامت کے دن تمہارے اوپر رحم کروں گا۔ وہ خالص رضاء الٰہی کے جذبہ کے تحت مریض کی طرف روانہ ہوتاہے اور مریض کے حق میں دعائیں کرتا ہوا اس کے پاس پہنچتا ہے۔
بندۂ مومن خدا کا تجربہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں یہ تجربہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے اور آخرت میں وہ زیادہ مکمل صورت میں براہ راست انداز میں ہوگا۔