ایک اخباری انٹرویو

س۔ ابھی آپ کا حیدر آباد کس سلسلہ میں  آنا ہوا، اس کے بارے میں  مختصر طورپر کچھ بتائیں۔

ج۔ آندھرا پردیش کی ایک تنظیم وگیان بھارتی مہارشی بھاردواج سوسائٹی کی طرف سے حیدر آباد میں تھنکرس میٹ کے نام سے ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع انڈیانائزیشن آف ایجوکیشن تھا۔ اس کو مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی اور آر ایس ایس کے چیف، کے ایس سدرشن نے خطاب کیا۔ اس سیمینار میں  مجھے بھی خطاب کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ میں  نے ۷ دسمبر ۲۰۰۲ کو اس میں  ایک تقریر کی۔ چونکہ وہاں  ماحول انگریزی کا تھا اس لئے میں نے بھی انگریزی میں  خطاب کیا۔

س۔ کانفرنس کا موضوع بہت اہم اور نازک تھا،اس بارے میں  آپ کا کیا خیال ہے۔

ج۔ میں نے اپنی تقریر میں چند باتیں  کہیں ! چونکہ مجھے اُنہی لوگوں  کے ساتھ ہوٹل میں  ٹھہرایا گیا تھا اس لیے جلسہ گاہ کے علاوہ بھی اُن لوگوں  سے کافی باتیں  کرنے کا موقع ملا۔ میری تقریر اور گفتگو کا خلاصہ یہ ـتھا کہ ہمارا اصل مسئلہ صرف ایجوکیشن کو انڈیانائزیشن کرنا نہیں  ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندستانی سماج کے اندر مثبت شعور اور تعمیری مزاج پیدا کیا جائے۔ مثلاً ہمارا سماج بہت زیادہ رائٹ کانشس ہوگیا ہے اس کو ڈیوٹی کانشس بنانا۔ اسی طرح ہمارے سماج میں  ذاتی مفاد کا جذبہ بہت بڑھ گیا ہے اور قومی مفاد پس پشت چلا گیا ہے۔ ہمارے سماج میں  گروہی اور علاقائی پارٹیاں  بہت بڑھ گئی ہیں۔حتیٰ کہ اب کوئی پارٹی نیشنل پارٹی کی حیثیت سے نظر نہیں  آتی۔ اسی طرح مادی سوچ عام ہوگئی ہے اور اخلاقی اورروحانی سوچ کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے سماج کی یہی وہ بنیادی کمزوریاں  ہیں۔ اُن کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ بقیہ تمام چیزیں  ضمنی اور اضافی ہیں۔

س۔ الرسالہ تحریک کی ابتدا ء ً تو مخالفت کی گئی تھی مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک و بیرون ملک میں  جو پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ اس تحریک سے متفق بھی ہے اور متاثر بھی۔ اس پس منظر میں یہ بتائیں  کہ اس تحریک کے بنیادی مقاصد اور کامیابی کے اسباب کیا ہیں۔

ج۔ الرسالہ مشن کا اصل مقصد اسلام کی اصولی تعلیمات کا احیاء ہے۔ یہ تعلیمات عین فطرت پر مبنی ہیں۔ اس دنیا میں  فطرت کا نظام ہی قابل عمل نظام ہے۔ اگر کچھ لوگ غلط فہمی کی بنا پر اس کی مخالفت کریں  تب بھی فطرت کا زور اُنہیں  اس کی تائید پر مجبور کردے گا۔ یہی معاملہ الرسالہ مشن کے ساتھ ہوا ہے۔ کچھ لوگوں  نے ابتداء میں  الرسالہ مشن کی مخالفت کی مگر یہ مخالفت بلا شبہہ غلط فہمی پر مبنی تھی۔ چنانچہ اب اِن مخالفتوں  کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ عام طور پر لوگ الرسالہ کا نام لے کر یا نام لئے بغیر اس کو اختیار کر چکے ہیں۔ جلد ہی انشاء اللہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب کہ لوگ پوری طرح الرسالہ کے حوالے سے اُس کو اختیار کرلیں  گے۔

س۔ ملک میں  پچھلے دنوں  چند خطرناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے فسادات ملک و قوم کی ترقی کے لیے بہت بڑی رُکاوٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں  روکنے کے لئے بھارت کے سیکولر باشندے متفکر ہیں ۔ کیا آپ کے پاس اس کے سد باب کے لئے کوئی فارمولا ہے۔

ج۔ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات کے سدّ باب کے لئے فطرت کا زیادہ طاقتور فارمولا بالفعل موجود ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم فطرت کے اس فارمولے کو عملاً ظہور میں  آنے کاموقع دیں۔ ہم کوئی ایسا غیر موافق کام نہ کریں  جس سے فطرت کے عمل میں رُکاوٹ پڑ جائے۔فطرت کا فارمولا یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی بھیانک واقعہ ہو تواُس کے بعد فوراً ایسا ہوتا ہے کہ انسانی ضمیر جاگ اُٹھتاہے۔ اس طرح وہ اس واقعہ کے ذمہ داروں  کے اندر شرمندگی کا احساس پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف بقیہ لوگوں  کے اندر مذمت کا احساس۔ ایسی حالت میں  ہمیں  صرف یہ کرنا ہے کہ ہم جوابی رد عمل کا ہنگامہ نہ کھڑا کریں  بلکہ خاموش رہ کر فطرت کو اپنا کام کرنے کا موقع دیں ۔یہی وہ حکمت ہے جس کو حضرت عمر فاروق نے ان الفاظ میں  بیان کیا: امیتوا الباطل بالصمت عنہ۔

س۔ عام طورپر لوگوں  کا خیال ہے کہ آپ نے بابری مسجد کو ہندوؤں  کے حوالہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر آپ کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ بتائیں  کہ آپ کا موقف کیا ہے۔

ج۔ بابری مسجد کے معاملہ میں  میرا جو موقف ہے اس کو میں  نے ۱۹۹۳ ہی میں  ماہنامہ الرسالہ میں شائع کردیا تھا۔ میرا موقف ان شائع شدہ الفاظ کے مطابق، یہ تھا کہ مسلمان بابری مسجد کے سوال پر جلسہ جلوس کی مہم ختم کردیں  اور اس مسئلہ کو ملک کے ضمیر کے حوالہ کردیں۔ میرے علم و تجربہ کے مطابق،یہی مسلک قرآن و سنت کے مطابق ہے اور عقل انسانی کے مطابق بھی۔

س۔ پچھلے دنوں  آپ کو ترک اسلحہ اور ان سے متعلق دُنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کیا آپ اس کی تفصیل بتا سکتے ہیں۔

ج۔ یہاں  اس کی تفصیل بتانا مشکل ہے۔ البتہ سوئزرلینڈ کے سفرنامہ کے تحت میں  نے اس کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جوانشاء اللہ جلد ہی الرسالہ میں  شائع ہوگا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ہری ہتھیاروں  کے خاتمہ کی تحریک ۱۹۵۸ سے چل رہی تھی جس کو البرٹ آئنسٹائن اور برٹرینڈرسل نے شروع کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود عملی نکات اب تک واضح نہیں  ہوسکے تھے۔ میں نے اللہ کی توفیق سے اُن کو واضح کیا۔ اس طرح اس مشکل معاملہ کا دروازہ کھلا۔ لوگوں  نے میرے اس کنٹری بیوشن کو بہت زیادہ پسند کیا اور اس کی وجہ سے مجھے انٹرنیشنل پیس ایوارڈ دیا گیا۔

س۔ ایوارڈ کی رقم کے بارے میں  عام طورپر کافی تجسس پایا جاتا ہے۔ کیا آپ بتائیں  گے کہ اس کا مصرف کیا ہے۔

ج۔ اس قسم کے بڑے بڑے ایوارڈ کے بارے میں  انٹرنیشنل رواج یہ ہے کہ اُن کی رقم کو اُسی مقصد میں  خرچ کیا جاتا ہے جس کے نام پر وہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ مجھ کو جو ایوارڈ ملا ہے وہ پیس کے نام پر ملاہے۔ میں انشاء اللہ اُس کو پیس (امن) کے فروغ پر استعمال کروں  گا۔

س۔ ملک میں  موجود شدت پسند تنظیموں  کی ایک طویل فہرست ہے۔ جیسے آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بحرنگ دل، شیوسینا اور سیمی، وغیرہ۔ کیا آپ کو ایسا نہیں  لگتا کہ ان کی وجہ سے ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور مستقبل میں  حالات اور سنگین ہوسکتے ہیں۔

ج۔ انتہا پسند یا شدت پسند تنظیموں  سے یقینا ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مگر میں  ان نقصانات کو ناقابل تلافی نہیں  سمجھتا۔ کوئی تنظیم خواہ وہ کتنی ہی طاقتور ہو وہ فطرت کے اس قانون سے باہر نہیں  جس کو قرآن میں  ان الفاظ میں  بیان کیا گیا ہے۔ ولو لا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض۔میرا یقین ہے اور ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ہر شدت پسند لہر ایک حد تک ہی چلی۔ ایک حد کے بعد اس کو فطرت کے قانون دفع نے روک دیا۔ یہ قانون ابدی ہے اور وہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

س۔ مسلمانوں  سے بار بار یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ قرآن سے بعض آیتوں  کونکال دیا جائے۔ اس کا مسلمانوں  کی طرف سے کیا معقول جواب ہونا چاہئے۔

ج۔ ماہنامہ الرسالہ میں  اس کا واضح جواب دیا جاچکا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں  یہ لوگ اس عربی مقولہ کا مصداق ہیں  کہ: الناس اعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں  جس سے وہ بے خبر ہوں ) جو لوگ قرآن کی کچھ آیتوں  کے بارہ میں  یہ بات کہہ رہے ہیں  وہ اِن آیتوں  کے حقیقی مفہوم سے بے خبر ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان آیتوں  کی صحیح تشریح کرکے لوگوں  کی بے خبری کو توڑا جائے۔ اس کے بعد اُن کی مخالفت اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ مثلاً ان لوگوں  کا کہنا ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق، مسلمان ہم کو کافر سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں  دونوں  فرقوں  کے درمیان خوشگوار تعلقات کیسے قائم ہوسکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں  کافر کا لفظ پیغمبر کے ہم عصر منکرین رسالت کے بارے میں  آیا۔ جہاں  تک برادران وطن کا تعلق ہے، اُن کو مسلمانوں  نے ہی ہندو نام دیا تھا جس کو برادران وطن نے پسند کرتے ہوئے اختیار کرلیا۔ اب اسلامی نقطۂ نظر سے برادران وطن ہمارے نزدیک بھی اسی طرح ہندو ہیں  جس طرح وہ خود اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں۔

س۔ جلد ہی دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہونے والا ہے، اُن کے لیے کوئی پیغام۔

ج۔ دینی مدارس کے بارے میں  ماہنامہ الرسالہ میں  ایک پورا نمبر شائع ہوچکا ہے۔ یہ طویل مضمون میری تازہ کتاب دین وشریعت میں شامل ہے۔ میرے نزدیک مدرسہ یا تعلیمی ادارہ کے دو مقاصد ہیں۔ ایک مسلم نسلوں  کو مسلسل دینی شعور فراہم کرتے رہنا۔ یہ کام ہمارے دینی مدارس الحمد للہ بخوبی طورپر انجام دے رہے ہیں۔ مدارس کا دوسرا کام داعیان دین کی تیاری ہے تاکہ وہ غیر مسلموں  میں  ہر زمانہ کے مطابق، دین کا پیغام پہنچاتے رہیں۔ اس دوسرے اعتبار سے ہمارے موجودہ مدارس میں  کمی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کی تلافی کی جائے۔

س۔ جیسا کہ آپ واقف ہیں، حیدر آباد کے مسلمان مذہبی، تعلیمی اور معاشی، ہر میدان میں  ترقی کررہے ہیں۔ آپ کی نظر میں  اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں۔

ج۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ہندستان کے مسلمانوں  نے پچھلے پچاس سال میں  غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ملک کے تمام دینی ادارے ۱۹۴۷کے مقابلہ میں  آج غیر معمولی ترقی کر چکے ہیں۔ حالاں  کہ اس دوران ہمارے لکھنے اور بولنے والے لوگ شکایت اور احتجاج میں  مشغول رہے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ مسلمانوں  نے ٹھیک اسی مدت میں نمایاں  ترقی حاصل کرلی۔ اس کا سبب زمانی تبدیلیاں  ہیں۔ ۱۹۴۷ سے پہلے ہندستان میں  جو اقتصادی نظام رائج تھا وہ زیادہ تر مبنی بر زمین نظام تھا۔ قدیم زراعتی نظام میں  تمام وسائل زمین سے وابستہ ہوتے تھے اور زمین حکمرانوں  یا کچھ جاگیرداروں  اور زمینداروں  کے ہاتھ میں  ہوتی تھی۔ عوام صرف محنت و مزدوری کے ذریعہ اپنا رزق پاسکتے تھے۔ مگر ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں  تیزی سے وہ دور آگیا جو صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں  پیدا ہوا ہے۔ اس جدید نظام میں  ہزاروں  کی تعداد میں  نئے زیادہ طاقتور معاشی وسیلے پیدا ہوگئے۔ اس طرح یہ ہوا کہ اعلیٰ اقتصادی وسائل ہر انسان کی دسترس میں  آگئے۔ یہ تبدیلی اتنی ہمہ گیر تھی کہ کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی اس کے سیلاب کو روک نہیں  سکتا تھا۔ یہی زمانی انقلاب ہے جس کا مفید نتیجہ آپ حیدر آباد میں  اور پورے ملک میں  واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔

س۔ چوں  کہ الرسالہ تحریک ایک دعوتی تحریک ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں  کہ اس قلمی مشن سے عملی طورپر کیا فائدہ ہوا ہے۔

ج۔ اللہ کا فضل ہے کہ اس مشن کے تحت مختلف زبانوں  میں  جو دعوتی لٹریچر تیار کیا گیاہے اس کے نتیجہ میں  ساری دُنیا میں  سیکڑوں  لوگ دعوتی مہم میں  لگ گئے ہیں، مختلف ملکوں  میں  خاموش دعوتی کام جاری ہے۔ اس دعوتی عمل کے نتیجہ میں  اب تک کئی ہزار مرد اور عورتیں  دین حق کو پورے اطمینان قلب کے ساتھ اپنا چکے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں  ہمارے وطن سمیت اکثر ملکوں  میں  پائی جاتی ہیں۔ یہاں  اُن کا نام اور پتہ بتانا ممکن نہیں  البتہ کسی صاحب کو فی الواقع اس معاملہ میں  مزید جانکاری حاصل کرنا ہو تو ہم اس کی درخواست پر اُنہیں  ایسے مرد اور عورت کے نام اور ٹیلیفون بتاسکتے ہیں  جن سے رابطہ قائم کرکے وہ براہ راست معلومات حاصل کرسکیں۔

حیدر آباد، ۹ دسمبر ۲۰۰۲

انٹرویور: عمر عابدین قاسمی

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom