معاشی کامیابی کا اصول
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا سبب اللہ لأحدکم رزقا من وجہٍ فلا یدعہ حتی یتغیر لہ أو یتنکر لہ (مسند احمد)۔ یعنی جب اللہ تم میں سے کسی کے لیے رزق کا ایک ذریعہ پیدا کرے تو وہ اُس کو نہ چھوڑے، یہاں تک کہ اُس میں تغیر آجائے یا وہ اُس کے لیے بہتر نہ رہے۔جب کوئی شخص ایک معاشی کام کررہا ہو اور اُس کے ذریعہ اُس کا رزق مل رہا ہو تو اُس کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ کسی معقول سبب کے بغیر اُس کو چھوڑ دے۔ مثلاً اُس کو اپنے صاحب معاملہ سے کوئی شکایت پیدا ہوجائے یا صاحب معاملہ کے کسی سلوک سے اُس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو یہ معاشی تعلق توڑنے کے لیے کافی سبب نہیں۔ اس طرح لگے ہوئے ذریعۂ رزق کو چھوڑنا اُس کے لیے درست نہ ہوگا۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ صبر و برداشت کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ منفی ردّ عمل کے تحت کوئی فیصلہ نہ لے۔ بلکہ تحمل کی روش اختیار کرے۔ کیوں کہ ایسے اسباب فطری ہیں اور وہ ہمیشہ پیش آتے ہیں۔
البتہ اگر حالات میں ایسی کوئی تبدیلی آجائے جو آدمی کے لیے کوئی حقیقی مسئلہ پیدا کردے یا ایسی کوئی صورت پیدا ہوجائے جس میں اُس کے کام کی معاشی افادیت غیر تسلّی بخش ہو جائے تو ایسی صورت میں آدمی نیا فیصلہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ گویا معاشی ذریعہ کو بدلنا واقعی معنوں میں کسی حقیقی عذر کی بنا پر ہونا چاہئے۔اس قسم کا فیصلہ محض وقتی جذبہ کے تحت نہیں کیا جاسکتا۔ جذباتی فیصلہ کسی بھی معاملہ میں درست نہیں، خواہ وہ معاشی معاملہ ہو یا اور کوئی معاملہ۔
ایک معاشی کام کو چھوڑنا صرف اُس وقت درست ہے جب کہ آدمی کو دوسرا بہتر معاشی کام مل گیا ہو۔ اگر وہ اپنے موجودہ کام سے مطمئن نہیں ہے تو اُس کو اپنے موجودہ کام پر باقی رہتے ہوئے نیا کام ڈھونڈھنا چاہئے۔ اُس کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ دوسرا بہتر کام حاصل کیے بغیر وہ اپنے پہلے کام کوچھوڑ دے۔ اس کو چاہئے کہ وہ نا پسندیدگی کے باوجود اس وقت تک اپنے پہلے کام پر قائم رہے جب تک کہ اُس کو دوسرا زیادہ بہتر کام نہ مل جائے۔