ایمان کے ذائقے
حدیث میں آیا ہے کہ: ذاق طعم الایمان من رضی باللہ رباً (صحیح مسلم کتاب الایمان، مسند احمد) یعنی ایمان کا ذائقہ چکھا اُس شخص نے جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ ایمان ایک ذائقہ ہے۔ یہ ذائقے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔خدا نے ہماری دنیا میں طرح طرح کے مادی پھل پیدا کئے۔ ہر پھل کا ذائقہ الگ الگ ہے۔ جو ذائقہ کھجور میں ہے وہ انجیر میں نہیں۔ جو ذائقہ انگور میں ہے وہ سیب میں نہیں۔ جو ذائقہ آم میں ہے وہ کیلے میں نہیں۔ اسی طرح ہر پھل کے الگ الگ ذائقے ہیں۔ جب آدمی کسی پھل کو کھاتا ہے تو وہ اس کے انفرادی ذائقہ کو پاتا ہے۔ یہی معاملہ ایمانی ذائقوں کا بھی ہے۔ خدا نے اہل ایمان کے لئے ایک ذائقہ خوشی میں رکھا ہے جو اس نے غم میں نہیں رکھا۔ ایک ایمانی ذائقہ محرومی میں ہے جو یافت میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ تنگی میں ہے جو آسودگی میں نہیں۔ایک ایمانی ذائقہ بیماری میں ہے جو صحت میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ جو مشکل میں ہے وہ آسانی میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ مقتدی بننے میں ہے وہ امام بننے میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ گم نامی میں ہے جو شہرت میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ بے اختیاری میں ہے جو اختیار میں نہیں۔ جو ایمانی ذائقہ عجز میں ہے وہ قدرت میں نہیں، وغیرہ۔
تاہم مختلف احوالمیں مختلف ایمانی ذائقے ملنا اس پر منحصر ہے کہ آدمی کے اندر سچا ایمانی شعور زندہ ہو۔ کوئی ذائقہ اپنے آپ نہیں ملتا بلکہ ایمان کی بیداری کی شرط کے ساتھ ملتا ہے۔ جس طرح مادی پھلوں کے ذائقے اس آدمی کو ملتے ہیں جس کی زبان میں ذائقہ خانے (taste buds) زندہ ہوں۔ اسی طرح مختلف احوال میں چھپے ہوئے ایمانی ذائقے اسی کے حصہ میں آتے ہیں جو اپنے ایمانی احساس کو پوری طرح زندہ کئے ہوئے ہو۔ جو لوگ اپنے ایمانی احساس کو زندہ رکھیں اُنہی کے لیے اُن کے احوال مختلف ایمانی ذائقوں کا تجربہ کرائیں گے۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنے ایمانی احساس کو کُند کرلیں، اُن پر مختلف قسم کے حالات گذریں گے مگر یہ حالات اُن کے لیے ایمانی ذائقوں کا تجربہ نہیں بنیں گے۔ وہ ایمان کے گلستاں میں رہ کر بھی ایمان کی خوشبو سے محروم رہیں گے۔