موت کے قریب

۲ فروری ۲۰۰۳ کو تمام دنیا کے اخباروں  کی پہلی خبر صرف ایک تھی۔ وہ یہ کہ—امریکہ کا خلائی شٹل کولمبیا دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے (disintegrate)ہوگیا۔ یہ کولمبیا کا ۲۸واں  خلائی سفر تھا۔ یہ امریکی شٹل (US space shuttle Columbia) اپنے ۱۶ دن کے سفر کے بعد زمین پر اترنے والا تھا۔ وہ تقریباً دو لاکھ فٹ کی بلندی پر ۱۹ ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک زمینی کنٹرول سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا اور وہ دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت اس میں  ۷ مسافر تھے جو سب کے سب مر گئے۔ اس خبر کا عنوان نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے ان الفاظ میں  قائم کیا ہے—گھر سے صرف ۱۶ منٹ دور:

Just 16 minutes from home.....

میں  نے اس خبر کو پڑھا تو میں نے سوچا کہ یہی اس دنیا میں  ہر انسان کا آخری انجام ہے۔ ہر انسان اپنا ایک خوابوں  کا گھر (dream home) بناتا ہے جس میں  وہ پُر مسرت زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ لیکن ابھی وہ اس گھر سے صرف ۱۶ منٹ دور ہوتا ہے کہ اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے دنیوی گھر میں  داخلہ کے بجائے آخرت کی عدالت میں  پہنچا دیا جاتا ہے۔

اس خلائی شٹل میں  ایک ہندستانی نژاد خاتون کلپنا چاؤلہ (۴۱ سال) بھی تھیں  جو کرنال میں پیدا ہوئیں۔ سارا ہندستان ان کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔ ان کے دوست اور رشتہ دار سفر کرکے امریکہ پہنچ چکے تھے تاکہ اسپیس شٹل کے اترنے کے بعد وہ کلپنا چاؤلا کو براہ راست مبارکباد دے سکیں۔ کلپنا چاؤلہ اگر حفاظت کے ساتھ واپس آگئی ہوتیں  تو ان کا ہیروانہ استقبال ہوتا۔ مگر موت نے درمیان میں  حائل ہوکر ایک کمیڈی کو ایک ٹریجڈی میں  تبدیل کردیا۔

یہ واقعہ کلپنا چاؤلہ کے لئے ایک ذاتی تجربہ تھا اور دوسروں  کے لئے وہ ایک سبق۔ اس واقعہ کو جاننے والا وہی ہے جو اس کے اندر خود اپنی تصویر دیکھ لے، جو اس کے اندر اپنی ذات کے لئے سبق حاصل کرلے۔

 

گمراہ نہ ہونا

امت محمدی کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں  آئی ہے: ان امتی لا تجتمع علی ضلالۃ (ابن ماجہ، کتاب الفتن) یعنی بے شک میری امت کبھی کسی گمراہی پرجمع نہ ہوگی۔اس حدیث کامطلب عام طورپر یہ لیا جاتا ہے کہ پوری کی پوری امت ہمیشہ ہدایت پر رہے گی۔ وہ کبھی ضلالت پر جمع نہ ہوگی۔ حالاں  کہ حدیث کایہ مطلب نہیں۔ حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ امت محمدی پر ایسا وقت کبھی نہیں  آئے گا کہ دوسری امتوں  کی طرح،ساری امت ضلالت پر مجتمع ہوجائے۔ بلکہ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ضلالت عام کے باوجود کچھ لوگ ضلالت سے بچے رہیں  گے اور لوگوں  کو ہدایت کا راستہ دکھاتے رہیں  گے۔ اس حدیث میں  ایک تاریخی حقیقت کو بتایا گیا ہے، نہ کہ دوسری امتوں  کے مقابلہ میں  امت محمدی کی فضیلت کو۔

اصل یہ ہے کہ یہ کوئی فضیلت کا معاملہ نہیں۔ بلکہ وہ ایک سادہ فطری حقیقت کا بیان ہے۔ پچھلی امتوں  میں  عمومی بگاڑ کا سبب یہ تھا کہ ان کا آسمانی متن محفوظ نہ رہا۔ اس بنا پر ان کے یہاں  صحیح اور غلط کو جانچنے کاکوئی معیار باقی نہ تھا۔ یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ رہا کہ خدا کی مستند ہدایت کیا ہے۔ اور کوئی چیز غلط ہے تو کیوں  غلط ہے۔ کتاب ہدایت کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت اندھیرے میں  بھٹکے ہوئے مسافر کی ہوگئی۔مگر امت محمدی اس نوعیت کے بگاڑ سے محفوظ ہے۔ پچھلی امتوں  میں  کتاب ہدایت کے گم یا غیر محفوظ ہونے کی بنا پر بعد کے زمانہ میں  دین کو معلوم کرنے کا ذریعہ لوگوں  کا عمل یا لوگوں  کی اپنی تشریحات ہی باقی رہیں۔ دوسرے لفظوں  میں  یہ کہ صحیح اور غلط کو پرکھنے کی جو آسمانی یا خدائی کسوٹی ہے وہی موجود نہ رہی۔ مستند ہدایت کے گم ہونے کی وجہ سے لوگ ہدایت سے دور ہوگئے۔ مگر امت محمدی میں  چونکہ کتاب ہدایت اصل حالت میں موجود ہے، اس لئے حق کے طالب اس سے ہدایت معلوم کرتے رہیں  گے۔ اور لوگ کبھی عمومی گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  گے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: من قال لا الہ الا اللّٰہ دخل الجنۃ۔ اس حدیث کے الفاظ کو لے کر کچھ لوگوں  نے یہ مسئلہ بنایا کہ کلمہ گو کے لئے جنت ہے۔ یعنی کلمہ کے الفاظ میں کچھ ایسی پر اسرار فضیلت موجود ہے کہ زبان سے اس کاتلفظ کرلینا ہی جنت میں  داخلہ کے لئے کافی ہوجائے گا۔ یہ تشریح درایت کے نقطۂ نظر سے بظاہر قابل فہم معلوم نہیں ہوتی۔ کیوں  کہ جنت جیسی قیمتی چیز کسی آدمی کو حقیقی عمل کی بنیاد پر ملنی چاہئے، نہ کہ محض کچھ الفاظ کی لسانی ادائیگی سے۔ اب اگر قرآن خدانخواستہ محفوظ حالت میں  نہ ہو توہمارے پاس وہ مستند معیار (criterion) ہی موجود نہ ہوگا جس پر جانچ کر اس کے صحیح یا غلط ہونے کو معلوم کیا جاسکے۔

اب اگر اس نظریہ کو قرآن کے معیار پر جانچا جائے تو قرآن میں ہمیں  اس کا واضح جواب مل جاتا ہے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے سورہ المائدہ ۸۳۔۸۵ کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن کی اس آیت میں  بھی وہی بات کہی گئی ہے جو مذکورہ حدیث میں ہے، یعنی قول پر جنت کا انعام (فاثابہم اللہ بما قالوا جنٰت) مگر اسی کے ساتھ قرآن کی اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قول سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد قول معرفت ہے، نہ کہ مجرد قول لسانی۔اس سے مراد معرفت حق ہے (مما عرفوا من الحق)۔ یعنی یہ بشارت اس انسان کے لئے ہے جس کو سچائی کا گہرا عرفان حاصل ہو۔ یہ عرفان اتنا گہرا تھا کہ اس کے اثر سے اس کی آنکھیں  بہہ پڑیں۔ اس نے سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک زندگی کو چھوڑا اور دوسری زندگی کو اختیار کیا۔ کلمہ کی گواہی اس کی اندرونی شخصیت میں ایک مکمل انقلاب کا اظہار تھی۔ وہ اس بات کا اعلان تھی کہ کلمہ کی دریافت نے اس کو ایک نیا انسان بنا دیا ہے۔ نیت اور قول اور عمل، ہر اعتبار سے اب وہ ایک بدلا ہوا انسان ہے، نہ کہ وہ انسان جو کلمہ کے اقرار سے پہلے تھا۔

قرآن اگر خدانخواستہ محفوظ حالت میں  نہ ہو تو ’’کلمہ گو‘‘ کے نظریہ کی صحت اور غلطی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ ہوگا۔ جب کہ قرآن کے محفوظ ہونے کی بنا پرہم اس حیثیت میں  ہیں  کہ اس نظریہ کی صحت و غلطی کو مستند طورپر جان سکیں۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ پچھلی امتیں  مجموعی طورپر گمراہی کا شکار ہوگئیں۔ جب کہ امت مسلمہ کے لیے محفوظ کتاب الٰہی اس بات کی ضامن ہے کہ وہ کبھی بھی عمومی گمراہی کا شکار نہ ہوسکے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom