قربانی اور اسلام
حج اور عید اضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان ایک مخصوص دن میں خدا کے نام پر جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی عام زندگی سے کوئی علیحدہ چیز نہیں، اس کا تعلق انسان کی تمام زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ قربانی کی اسپرٹ کے ساتھ دنیا میں رہیں۔ قربانی کی اسپرٹ تمام اسلامی اعمال کا خلاصہ ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے :وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (51:56) ۔یعنی اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ عبادت کی حقیقت کیا ہے۔ اس کو پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 50 ؛صحیح مسلم، حدیث نمبر 8)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تم کو دیکھتا ہے۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے تصورِ عبادت کے مطابق، انسان کے لیے زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ انسان، خدا کی ہستی کو اِس طرح دریافت کرے کہ اُس کو ہر لمحہ خدا کی موجودگی (presence) کا احساس ہونے لگے۔
اس کا شعور اِس معاملے میں اتنا بیدار ہو جائے کہ اس کو ایسا محسوس ہونے لگے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔ یہ احساس اس کی پوری زندگی کو خدائی رنگ میں رنگ دے۔ اس کے ہر قول اور ہر عمل سے ایسا محسوس ہونے لگے جیسے کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے، جیسے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، خدا کی براہِ راست نگرانی کے تحت کررہا ہے۔ اِسی زندہ شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا نام عبادت ہے۔ یہ درجہ کسی آدمی کو صرف اُس وقت ملتا ہے، جب کہ اس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنالیا ہو۔
ارکانِ اسلام اور حج
عبادت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ ان میں سے پانچ چیزیں بنیادی عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ پانچ چیزیں کیا ہیں، ان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:بُنِیَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَہَادَةِ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 8) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔اِس بات کی گواہی دینا کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد، اللہ رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور حج پورا کرنا،اور رمضان کے روزے رکھنا۔
یہ گویا کہ پانچ ستون (pillars) ہیں جن کے اوپر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت ایک دکھائی دینے والی چیز ہے۔اِس حدیث میں عمارتی ڈھانچے کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح ستونوں کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی، اسی طرح ان پانچ ارکان کے بغیر اسلام کا قیام بھی نہیںہوتا۔ اسلام کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ ستونوں کو زندگی میں قائم کیا جائے۔
اسلام کے ان پانچ ارکان کی ایک اسپرٹ ہے، اور ایک اس کا فارم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل اہمیت ہمیشہ اسپرٹ کی ہوتی ہے، لیکن فارم بھی یقینی طورپر ضروری ہے۔ جس طرح جسم کے بغیر روح نہیں، اسی طرح فارم کے بغیر اسلام بھی نہیں۔ اِس معاملے میں بھی اسپرٹ کا اہتمام بہت ضروری ہے، لیکن یہ اہتمام فارم کے ساتھ ہوسکتاہے، فارم کے بغیر نہیں۔
کلمۂ توحید
ان ارکان میں سے پہلا رکن کلمۂ توحید ہے۔ اس کلمہ کا ایک فارم ہے اور اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اس کا فارم یہ ہے کہ آپ عربی کے مذکورہ الفاظ (کلمۂ شہادت) کو اپنی زبان سے ادا کریں ۔ کلمہ کی اسپرٹ معرفت ہے، یعنی خدا کو دریافت کے درجے میں پالینا۔ کلمۂ توحید کی وہی ادائیگی معتبر ہے جو معرفت کی بنیاد پر ہو۔ معرفت کے بغیر کلمہ پڑھنا صرف کچھ عربی الفاظ کا تلفّظ ہے، وہ حقیقی معنی میں کلمۂ توحید نہیں۔
یونان کے قدیم فلسفی ارشمیدس (Archimedes) کو یہ جستجو تھی کہ کشتی پانی کے اوپر کیسے تیرتی ہے۔ وہ اس کی تلاش میں تھا۔ ایک دن وہ پانی کے حوض میں لیٹا ہوا نہا رہا تھا۔ اچانک اس کو فطرت کے اس قانون کی دریافت ہوئی جس کو بائنسی (law of buoyancy) کہاجاتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر اہتزاز(thrill) کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وہ اچانک حوض سے نکلا، اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ: میں نے پالیا، میں نے پالیا(Eureka, Eureka)۔
اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلمہ کی ادائیگی کیا ہے۔ کلمۂ توحید کی ادائیگی دراصل داخلی معرفت کا ایک خارجی اظہار ہے۔ یہ حکم بلا شبہ اسلام کے ارکان میں اولین اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ اہمیت اس کی داخلی معرفت کی بنا پر ہے، نہ کہ صرف لسانی تلفظ کی بنا پر۔
نماز
اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ دوسرے ارکان کی طرح نماز کا بھی ایک فارم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فارم قیام اور رکوع اور سجود پر مبنی ہے۔ اسی کے ساتھ نماز کی ایک اسپرٹ ہے، وہ اسپرٹ سرنڈر (surrender) ہے، یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردینا۔ خدا کو کامل معنوں میں اپنا مرکز ِ توجہ بنا لینا۔ پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life)اختیار کرلینا۔اِسی اسپرٹ کادوسرا نام قرآن میں ذکر ِ کثیر (الاحزاب،33:41) ہے، یعنی خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔ نماز کا مقصد بھی قرآن میں ذکر بتایاگیا ہے (طٰہٰ،20:14) ذکر کامطلب رسمی طورپر صرف کسی قسم کی تسبیح خوانی نہیں، بلکہ ہر موقع پر سچے احساس کے ساتھ خدا کو یاد کرتے رہنا ہے۔
آدمی جب دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر وہ چیز پیدا ہونا چاہیے جس کو قرآن میں توسّم (الحجر،15:75) کہاگیا ہے، یعنی ہر دنیوی تجربے کو خدا ئی تجربے میں کنورٹ کرتے رہنا۔ ہر چیز سے ربّانی غذا حاصل کرتے رہنا۔ حقیقی نماز وہی ہے جو آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کردے کہ وہ ہر چیز سے اپنے لیے توسّم کی غذا حاصل کرتا رہے۔ نماز کے فارم کے ساتھ جب یہ اسپرٹ شامل ہوجائے تب کسی آدمی کی نماز حقیقی نماز بنے گی، ورنہ حدیثِ رسول کی زبان میں، اس سے کہہ دیا جائے گا:ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ( صحیح البخاری،حدیث نمبر 757) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
روزہ
اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رُکن روزہ (صوم)ہے۔ روزہ کا فارم یہ ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ وہ اپنے دن کو بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارے۔ روزہ کی اسپرٹ صبر(patience)ہے۔ حدیث میں آیا ہے:ہُوَ شَہْرُ الصَّبْرِ(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 1887)۔ یعنی رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔
صبر کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سلف ڈسپلن (self-discipline) کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہو۔ وہ اپنی انا کو گھمنڈ نہ بننے دے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سماجی زندگی میں جب اس کو کوئی شاک (shock)لگے تو وہ اس شاک کو اپنے اوپر سہے، وہ اس کو دوسرے تک پہنچنے نہ دے۔
زکوٰۃ
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا فارم یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی کے ایک حصے سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے، اور اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کے حکم کے مطابق، وہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے۔ یہ زکوٰۃ کا فارم ہے۔ زکوٰۃ کی اسپرٹ انسان کی خیر خواہی ہے، یعنی تمام انسانوں کو اپنا سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں انسان دوست رویہ (human-friendly behaviour) اختیار کرنا۔ صرف اپنے لیے جینے کے بجائے، ساری انسانیت کے لیے جینا۔ آدمی اگر زکوٰۃ کی رقم دے دے، لیکن دل سے وہ انسانوں کا خیر خواہ نہ بنے تو اس کی زکوٰۃ ادھوری زکوٰۃ مانی جائے گی۔ ایسے آدمی کی زکوٰۃ پورے معنوںمیں زکوٰۃ نہیں ہوگی(البقرۃ، 2:264)۔
حج
اسلامی ارکان میں سے پانچواں رکن حج ہے۔ حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ شرعی اصطلاح میں، حج سے مراد وہ عبادتی سفر ہے جس میں آدمی اپنے وطن سے نکل کر مکہ (عرب) جاتا ہے اور وہاں ماہِ ذو الحجّہ کی مقرر تاریخوںمیں حج کے مراسم ادا کرتاہے اور خدا کے نام پر جانور کو قربان کرتا ہے۔ یہ حج کا فارم ہے ۔ حج کی اسپرٹ قربانی (sacrifice) ہے۔ حج کا فارم اور حج کی اسپرٹ دونوں جب کسی کی زندگی میں اکھٹا ہوں تو وہ حج کی عبادت کرنے والا قرار پاتاہے۔
حج کے دوران منٰی کے مقام پر تمام حاجی، جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ انھیں تاریخوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مسلمان عید اضحی مناتے ہیں۔ عید اضحی گویا کہ حج کی عبادت میں ایک قسم کی جُزئی شرکت ہے۔ عید اضحی کے ذریعے تمام دنیا کے مسلمان مکہ میں کیے جانے والے حج کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا ہَذِہِ الْأَضَاحِیُّ؟ قَالَ:سُنَّةُ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3127)۔ یعنی اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے زمانے میں جو قربانی دی جاتی ہے، وہ اُس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم نے قائم کیا تھا۔
اِس لیے حج اور قربانی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو سے پیغمبر ِ خدا، حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے۔ اِس مطالعے سے نہ صرف یہ ہوگا کہ ہم کوحج اور قربانی کا تاریخی پس منظر معلوم ہوگا، بلکہ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوجائے گا۔ حج یا عیداضحی میں قربانی دراصل حضرت ابراہیم کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم کی زندگی کی روشنی میں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم 1985ق م میں عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 175 سال سے زیادہ عمر پائی۔ ’’اُر‘‘ قدیم عراق کی راجدھانی تھا۔ مزید یہ کہ یہ علاقہ قدیم آباد دنیا (میسو پوٹامیا) کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم نے اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں اور کامل درد مندی کے ساتھ اپنے معاصرین کو توحید کی طرف بلایا۔ اس وقت کے عراقی بادشاہ نمرود(Nimrod) تک بھی اپنی دعوت پہنچائی۔ لیکن کوئی بھی شخص آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا، حتی کہ آپ جب اتمامِ حجت کے بعد عراق سے نکلے تو آپ کے ساتھ صرف دو انسان تھے— آپ کے بھتیجے او ر آپ کی اہلیہ۔
حضرت ابر اہیم سے پہلے، مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن ان تمام پیغمبروں کے ساتھ یکساں طورپر یہ ہوا کہ لوگ ان کا انکار کرتے رہے۔ انھوں نے پیغمبروں کا استقبال استہزا( یٰسٓ،36:30)کے ساتھ کیا۔
حضرت ابراہیم کے اوپر پیغمبر کی تاریخ کا ایک دور ختم ہوگیا۔ اب ضرورت تھی کہ دعوت الی اللہ کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ اس منصوبہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا انتخاب کیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کے ساتھ عراق سے نکلے، اور مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے آخر کار وہاں پہنچے جہاں آج مکہ آباد ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، آپ کا یہ سفر فرشتہ جبرئیل کی رہنمائی میں طے ہوا (تاریخ الطبری، 1/254)۔
ہاجرہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ اُن سے ایک اولاد پیدا ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت، حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اوراُن کے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جاکر بسا دیا جو اُس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارہ میں قرآن میں مختصرطورپر یہ حوالہ ملتا ہے:
’’اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے، اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا، مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور اُن کو فروٹس (fruits) کی روز ی عطا فرما، تاکہ وہ شکرکریں‘‘ (14:35-37)۔
ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تاکہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہوسکے۔ پھر ابراہیم، ہاجرہ اور اُن کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے ۔ اُس وقت ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اُس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاجرہ اُن کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم، ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم علیہ السلام سے یہ بات کئی بار کہی اور ابراہیم نے ہاجرہ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا (إذَن لا یُضَیِّعُنَا)۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو اُنہوں نے اپنا رخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی کہ: اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا، یہاں تک کہ آپ دعا کرتے ہوئے لفظ یشکرون تک پہنچے۔
ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں۔ یہاںتک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی۔ انھوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر وہ مجبور ہو کر نکلیں۔ انھوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا۔ چنانچہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں۔ وادی کو پار کرکے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اُس پر کھڑے ہو کر اُنہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح اُنھوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں۔ اُنہوں نے ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔ پھر سُننا چاہا تو وہی آواز سُنی۔ اُنہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کرسکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین پرمارا، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کو حوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اُس کے گرد مینڈ کھینچنے لگیں۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشک میں بھرتیں۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اُتنا ہی زیادہ اُبلتا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہاجرہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں، یا آپ نے یہ فرمایا کہ اگر وہ چلّو بھر کرپانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اُس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اُس وقت گھر (کعبہ) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاںتک کہ جُرہُم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کَدا ءکے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ اُنھوں نے وہاںایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا۔ اُنہوں نے ایک یا دو آدمی کو خبر لینے کے لیے وہاں بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اورلوگوں کو پانی کی خبر دی۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں۔ اُنہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بُلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ اُن سے محبت کرنے لگے تو اُنہوں نے اپنی ایک لڑکی سے اُن کا نکاح کردیا۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کا نکاح ہوچکا تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ اُنہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے اُن کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے اُس سے اُن کے گزر بسر اور حالت کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ ہم بہت زیادہ تنگی میں ہیں۔ اُس نے ابراہیم سے شکایت کی۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنا اور اُن سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنھوں نے کچھ محسوس کرلیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ ایک بوڑھا شخص اس اس صورت کا آیا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے بارہ میں پوچھا، میں نے اُن کو بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گزرکیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا اُنہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے ۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنھوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے نکاح کرلیا۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قدر اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اورکشادگی کی حالت میں ہیں۔ اُس نے اللہ عزّوجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ گوشت۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اُس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ، تو اُن کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاںاناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ اُن کو موافق نہ آئے۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنااور میری طرف سے اُن کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ پس جب اسماعیل آئے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کے بزرگ آئے تھے اور اُس نے آنے والے کی تعریف کی۔ اُنہوں نے مجھ سے آپ کے بارہ میں پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے دوبارہ ہمارے گزر بسر کے بارہ میں پوچھا۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انھوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ اُنھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔ پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ پس انھوںنے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اُسے کر ڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کروگے۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت اُن دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر (حجرِ اسود) لائے اور اُس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اُس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پتھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے : اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس وہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے ارد گرد یہ کہتے ہوئے چکر لگاتے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3364 )
ذبحِ عظیم
اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اپنے ہاتھ سے ذبح کررہے ہیں۔ اس خواب کے مطابق، حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن یہ ایک تمثیلی خواب تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اب خدائی منصوبہ کے مطابق، اپنے بیٹے کو توحید کے مشن کے لیے وقف (dedicate) کردو، ایک ایسا مشن جو عرب کے بے آب وگیاہ صحرا میں شروع ہونے والا تھا۔
قرآن کی سورہ نمبر 37 میں حضرت ابراہیم کے واقعے کا ذِکر ہے۔ آپ نے اپنے ایک خواب کے مطابق، اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا۔ اُس وقت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے نے بتایا کہ تمھاری قربانی قبول ہوگئی، اب تم بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح کردو۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اُس موقع پر قرآن میں یہ آیت آئی ہے:وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ(37:107)۔ یعنی ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے ذریعے بچا لیا۔
اِس آیت میں ذِبح عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا، اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اِس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میں آباد کر دیا گیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسبابِ حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اِس لیے اس کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیاگیا ۔یہ عظیم قربانی، اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ تھا، جس کو فرزند ِ ابراہیم (اسماعیل) کے ذریعے عرب کے صحرا میں عمل میں لایا گیا۔ قرآن (ابراہیم،14:37) میں اِس واقعے کا ذکر مختصر اشارے کے طورپر آیا ہے اور حدیث میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
قرآن میں حضرت ابراہیم کے اس خواب کا ذکر سورہ نمبر 37 میں آیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے خواب کے بعد جب اپنے بیٹے کو قربان کرنا چاہا تو اس وقت خدا کے فرشتے نے آپ کو بتایا کہ آپ بیٹے کے فدیہ کے طورپر ایک دنبہ ذبح کردیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے ایسا ہی کیا (الصافات،37:107)، اور جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے ایک صحرائی مقام میں آباد کردیا۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اب مکہ آباد ہے۔ اسی مقام پر بعد کو حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے اسماعیل نے کعبہ کی تعمیر کی، اور حج کا نظام قائم فرمایا۔
علامتی ذبیحہ
ہاجرہ اوراسماعیل کو صحرا میں اس طرح آباد کرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد تھا ایک نئی نسل بنانا۔ اس زمانے کی شہری آبادیوں میں مشرکانہ کلچر مکمل طورپر چھاچکا تھا۔اس ماحول میں جو بھی پیدا ہوتا وہ مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہوجاتا۔ اس بنا پر اس کے لیے توحید کے پیغام کو سمجھنا ممکن نہ رہتا۔ متمدن شہروں سے دور صحرا میں ہاجرہ اور اسماعیل کو اس لیے بسایا گیا تاکہ یہاں فطرت کے ماحول میں ان کے ذریعہ سے ایک نئی نسل تیار ہو، ایک ایسی نسل جو مشرکانہ کنڈیشننگ سے پوری طرح پاک ہو۔ تو الد وتناسل کے ذریعہ یہ کام جاری رہا یہاںتک کہ بنو اسماعیل کی قوم وجود میں آئی۔
اسی قوم کے اندر 570 ء میں پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں اللہ تعالیٰ نے نبی مقرر کیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ بنو اسماعیل کے اندر سے آپ کو وہ قیمتی افراد ملے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ ان لوگوں کو ساتھ لے کر آپ نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر انقلاب کے مرحلے تک پہنچایا۔
حضرت ابراہیم کے ذریعے جو عظیم دعوتی منصوبہ زیر عمل آیا، حج کی عبادت گویا اسی کاایک ریہرسل ہے۔ ذو الحجہ کے مہینے کی مخصوص تاریخوں میں ساری دنیا کے مسلمان اکھٹا ہو کر ریہرسل کے روپ میں اس تاریخ کو دہراتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے ساتھ پیش آئی۔
اس طرح تمام دنیا کے مسلمان ہر سال اپنے اندر یہ عزم تازہ کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر کے اس نمونہ کو اپنے حالات کے مطابق، مسلسل دہراتے رہیں گے۔ ہر زمانے میں وہ دعوت الی اللہ کے اس عمل کو مسلسل زندہ رکھیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
اس ابراہیمی عمل میں قربانی کو مرکزی درجہ حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم عمل ہے جس کی کامیاب ادائیگی کے لیے قربانی کی اسپرٹ ناگزیر طورپر ضروری ہے۔ اس قربانی کی اسپرٹ کو مسلسل طورپر زندہ رکھنے کے لیے حج کے زمانے میں منیٰ میں، اورعیداضحی کی صورت میں تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے مقام پرجانور کی قربانی کرتے ہیں اور خدا کو گواہ بنا کر اس اسپرٹ کو زندہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔حج اور عید اضحی کے موقع پر جانور کی جو قربانی کی جاتی ہے، وہ دراصل جسمانی قربانی کی صورت میں با مقصد قربانی کے عزم کے ہم معنی ہے۔ یہ دراصل داخلی اسپرٹ کا خارجی مظاہرہ ہے:
It is an external manifestation of an internal spirit.
آدمی کے اندر پانچ قسم کے حواس (senses)پائے جاتے ہیں۔ نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس میں انسان کے تمام حواس شامل ہوں تو وہ بات انسان کے دماغ میں زیادہ گہرائی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ قربانی کی اسپرٹ کو اگر آدمی صرف مجرد شکل میں سوچے تو وہ آدمی کے دماغ میں بہت زیادہ ذہن نشین نہیں ہوگی۔ قربانی اسی کمی کی تلافی ہے۔
جب آدمی اپنے آپ کو وقف کرنے کے تحت جانور کی قربانی کرتا ہے تو اس میں عملاً اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ دماغ سے سوچتا ہے، وہ آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ کان سے سنتا ہے، وہ ہاتھ سے چھوتا ہے، وہ قربانی کے بعد اس کے ذائقے کا تجربہ بھی کرتا ہے۔ اس طرح اس معاملے میں اس کے تمام حواس شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ قربانی کی اسپرٹ کو محسوس کرتا ہے، وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ قربانی کی اسپرٹ اس کے اندر بھر پور طورپر داخل ہوجائے، وہ اس کے گوشت کا اور اس کے خون کا حصہ بن جائے۔
قربانی کی حقیقت
حج یا عید ِاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس قربانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اسپرٹ، اور دوسرے اس کی ظاہری صورت۔اسپرٹ کے اعتبار سے قربانی ایک قسم کا عہد (pledge) ہے۔ قربانی کی صورت میں عہد کا مطلب ہے عملی عہد (pledge in action) ۔ عہد کے اس طریقے کی اہمیت کو عمومی طورپر تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یہاں اس نوعیت کی ایک مثال دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ قربانی کا مطلب کیا ہے۔ نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ ہندستان کی مشرقی سرحد پر ایک پڑوسی طاقت کی جارحیت کی وجہ سے زبردست خطرہ پیداہو گیا تھا۔ سارے ملک میں سنسنی خیزی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
اُس وقت قوم کی طرف سے جو مظاہرے ہوئے، اس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ احمد آباد کے 25 ہزار نوجوانوں نے مشترکہ طورپر یہ عزم کیا کہ وہ ملک کے بچاؤ کے لیے لڑیں گے اورملک کے خلاف باہر کے حملے کا مقابلہ کریں گے، خواہ اسی راہ میں ان کو اپنی جان دے دینی پڑے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنے پاس سے ایک ایک پیسہ دیا اور اس طرح 25 ہزار پیسے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد انھوںنے اپنے ان پیسوں کو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی خدمت میں پیش کیا۔ پیسہ دیتے ہوئے انھوںنے ہندستانی وزیر اعظم سے کہا کہ یہ 25 ہزار پیسے ہم 25 ہزار نوجوانوں کی طرف سے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے کا نشان ہیں:
To give ourselves to you
مذکورہ نوجوانوں نے اپنی قربانی کا علامتی اظہار 25 ہزار پیسوں کی شکل میں کیا۔ 25 ہزار پیسے خود اصل قربانی نہیں تھے۔ وہ اصل قربانی کی صرف ایک علامت(token) تھے۔ یہی معاملہ جانور کی قربانی کا ہے۔ قربانی کے عمل میں جانور کی حیثیت صرف علامتی ہے۔ جانور کی قربانی کے ذریعے ایک مومن علامتی طورپر اس بات کاعہد کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں پوری طرح لگادے گا۔ اسی لیے قربانی کے وقت یہ کہا جاتا ہے: اللَّہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 2795)۔یعنی اے خدا یہ تو نے ہی دیا تھا، اب میں اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔
حج کا اثر یہ ہونا چاہیے کہ حاجی کا ذہن خدا رخی ذہن ہو جائے۔ اس کوخدا کی یاد آنے لگے۔ اس کا دماغ خدا کی باتوں سے بھر جائے۔ اب تک اس کی سوچ اگر اپنی ذات کی طرف چل رہی تھی تو اب اس کی سوچ خدا کی طرف چل پڑے۔