حج کی تاریخ

حج ایک عالمی اجتماعی عبادت ہے۔ اس کی تاریخیں قمری مہینے کے مطابق مقرر کی گئی ہیں۔ حج کے مراسم مکہ اور اس کے آس پاس کے مقامات پر پانچ دنوں کے اندر 8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ تک ادا کیے جاتے ہیں۔حج کی تاریخ پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔

اللہ کا یہ منصوبہ تھاکہ توحید کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کیا جائے۔ اِس مقصد کے لیے قدیم دور میں اللہ نے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ مگر اِن پیغمبروں کے ذریعے کوئی ٹیم نہیں بنی۔ اِس لیے قدیم زمانے میں مطلوب انقلاب برپا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اِس منصوبے کے تحت حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسا دیا۔ اِس واقعے کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے: رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم(14:37)۔

ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ مگر شرک اور بُت پرستی کا غلبہ ان لوگوں کے ذہن پر اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ توحید کے پیغام کو قبول نہ کر سکے۔ حضرت ابراہیم نے ایک سے زیادہ جنریشن تک لوگوں کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر اس زمانے میں شرک ایک تہذیب کی صورت اختیار کرکے لوگوں کی زندگی میں اس طرح شامل ہوچکا تھا کہ وہ اس سے الگ ہو کر سوچ نہیں سکتے تھے۔ پیدا ہوتے ہی ہر آدمی کو شرک کا سبق ملنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ماحول کے اثر سے اُس کا ذہن پوری طرح شرک میں کنڈیشنڈ ہوجاتا تھا۔

اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا۔اِس صحرائی ماحول میں لمبی مدت تک توالد وتناسل کے ذریعے ایک جان دار قوم تیارہو ئی۔ اِسی قوم کے اندر پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ پھر اِسی قوم کے اندر کام کرکے وہ ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تحت جو عظیم تاریخ بنی، وہ تمام تر منصوبۂ الٰہی کے تحت بنی۔ پیغمبر ِ اسلام سے پہلے ہزاروں سال کے درمیان خدا کی طرف سے بہت سے پیغمبر آئے۔ اِن پیغمبروں کے زمانے میں توحید کا اعلان توہوا، لیکن توحید کی بنیاد پر کوئی اجتماعی انقلاب نہ آسکا، جب کہ اللہ تعالی کو مطلوب تھا کہ پیغمبر کے ذریعے ایک ایسا موحدانہ انقلاب برپا ہو جو شرک کے دور کو ختم کرے اور توحید کا دور دنیا میں لے کر آئے۔ آخر کار اللہ تعالی کی یہ منشا ہوئی کہ وہ تاریخ میں مداخلت کرے اور خصوصی نصرت کے ذریعے وہ انقلاب برپا کرے جو کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کے تحت ضروری تھا۔ اللہ تعالی کے عام منصوبے کے مطابق، اِس منصوبے کی تکمیل اسباب کی صورت میں کی گئی۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اِس انقلاب کی بنیادی کڑی تھے۔

اللہ تعالی کے اِس خصوصی منصوبے کا آغاز چار ہزار سال پہلے حضرت ہاجرہ، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ذریعے عرب کے صحرا میں ہوا۔ اِس منصوبے کے تحت لمبی مدت کے دوران ایک خصوصی نسل تیار کی گئی جس کو بنو اسماعیل کہاجاتاہے۔ اِس نسل کی اعلی خصوصیات کی بنا پر ایک مستشرق نے اس کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کا لقب دیا ہے۔ اِسی خصوصی نسل میں پیغمبر ِ اسلام اور آپ کے اصحاب پیداہوئے۔ اِس کے بعد اللہ کی برتر تدبیر کے تحت بہت سے موافق حالات ظہور میں آئے۔ یہ اپنے آغاز سے انجام تک، ایک انتہائی اعلی نوعیت کا خدائی منصوبہ تھا۔ پیغمبر ِ اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے جو عظیم اسلامی تاریخ بنی، وہ در اصل اِسی منصوبۂ الٰہی کا نتیجہ تھی۔

قرآن میں اِس حقیقت کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے زمانے میں جو تاریخی انقلاب آیا، وہ کسی فرد کا شخصی کارنامہ نہ تھا، بلکہ وہ براہِ راست طورپر اللہ کے ایک برتر منصوبے کا نتیجہ تھا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتیں یہ ہیں:یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ۔ ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَى وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَى الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ(61:8-9)۔ یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، حالاں کہ اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ یہ منکروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اللہ اس کو سب دینوں پر غالب کردے، خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس حقیقت کو بار بار نہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کے مشن کے آغاز کے تقریباً 20 سال بعد مکہ فتح ہوا، جو کہ اُس وقت پورے عرب میں ہر اعتبار سے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ فتحِ مکہ کے وقت جب آپ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو احساسِ تواضع کے باعث آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی، حتی کہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی داڑھی کجاوے کی لکڑی کو چھورہی ہے۔ اُس وقت کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے جوخطبہ دیا، اُس میں یہ الفاظ تھے:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ، صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ( سنن أبی داؤد،حدیث نمبر 4547)۔ یعنی ایک اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اللہ نے اپنے بندے (محمد) کی نصرت کی اور اللہ نے دشمن کی جماعتوں کو تنہا شکست دے دی۔

’’لبیک‘‘ یعنی ’’میں حاضر ہوں‘‘، کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ میں مکہ میں رہنے کے لیے حاضر ہوں۔ یہ وطن چھوڑ کر آنے کا کلمہ نہیں، بلکہ روش چھوڑ کر آنے کا کلمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تیری فرمانبرداری کے لیے حاضر ہوں۔ میں اس کے لیے تیار ہوں کہ تو جو حکم دے، اس پر میں دل و جان سے قائم ہوجاؤں۔’’لبیک‘‘کا اقرار آدمی حج کے مقام پر کرتا ہے، مگر ا س کی عملی تصدیق وہاں سے لوٹ کر اس کو اپنے وطن میں کرنی پڑتی ہے، جہاں اس کو روز وشب میں اپنی زندگی گزارنا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom