اخوانِ ابرہیم ، اخوانِ محمد

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 عیسوی میں مکے میں پیدا ہوئے، اور 632 عیسوی میں مدینے میں آپ کی وفات ہوئی۔آپ کا زمانہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام سے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد کا زمانہ ہے۔ آپ پیغمبر ابراہیم کی دعا (سورۃ البقرۃ،2:129)کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ قرآن میں آپ کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو یکسو تھا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا(16:123)۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں، یہ در اصل ایک تاریخی حقیقت کا اعلان ہے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب وہ لوگ تھے، جن پر ایک تاریخ منتہی (culminate) ہوئی تھی۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی غیر معمولی قربانی کے ذریعے مکے میں ایک تاریخی عمل (historical process) کا آغاز کیا تھا۔ یہ تاریخی عمل اپنے فطری مراحل سے گزرتے ہوئےچھٹی صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچا تھا۔ اس وقت عرب میں وہ مخصوص افراد پیدا ہوئے، جو اپنے رول کی بنا پر رسول اور اصحابِ رسول کہے جاتے ہیں۔

رسول اور اصحابِ رسول کی قربانیوں کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں ایک اور تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ اس تاریخی عمل کی تکمیل پر دوبارہ تقریباً ہزار سال کا زمانہ گزرا۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔ اب دوبارہ ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے، جو اس بات کا مصداق ہو کہ بعد کو بننے والا تاریخی عمل اس پر منتہی ہوا ہو۔ اصحابِ رسول کے بعد یہ دوسرا گروہ ہوگا، جس کو حدیثِ رسول میں پیشگی طور پر اخوانِ رسول (صحیح مسلم، حدیث نمبر 249) کا نام دیا گیا ہے۔ گویا کہ پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب اخوانِ ابراہیم تھے، اور بعد کو بننے والا گروہ اخوانِ محمد ہوگا۔ اخوانِ ابراہیم نے دعوتی مشن کو آگے بڑھایا تھا، اب اخوانِ محمد اسی دعوتی مشن کو اگلے مرحلے تک پہنچائیں گے۔

حج کا سفر خدا کی طرف سفر ہے ۔ وہ دنیا کی زندگی میں اپنے رب سے قریب ہونے کی انتہائی شکل ہے ۔ دوسری عبادتیں اللہ تعالی کی یاد ہیں، جب کہ حج خود اللہ تعالی تک پہونچ جانا ہے ۔ عام عبادت اگر غیب کی سطح پر خدا کی عبادت ہے تو ج شہود کی سطح پر خدا کی عبادت ۔ حج حق تعالی سے ملاقات ہے ۔آدمی جب سفر کر کے مقامات حج تک پہنچتا ہے تو اس پر خاص طرح کی ربانی کیفیات طاری ہوتی ہے ۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی دنیا‘‘ سے نکل کر خدا کی دنیا‘‘ میں پہنچ گیا ہے ۔ وہ اپنے رب کو چھو رہا ہے ۔ وہ اس کے گرد گھوم رہا ہے ۔ وہ اس کی طرف دوڑ رہا ہے ۔ وہ اس کی خاطر سفر کر رہا ہے ۔ وہ اس کے حضور اپنی قربانی پیش کر رہا ہے ۔ وہ اس کے دشمن پر کنکریاں مار رہا ہے ۔ وہ اس سے مانگ رہا ہے جو کچھ وہ مانگنا چاہتا ہے ۔ وہ اس سے پارہا ہے جو کچھ اسے پانا چاہیے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom