انا کی قربانی
قرآن کی سورہ الزخرف میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا(43:32)۔یعنی ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔قرآن کی اِس آیت میں سادہ طورپر طبقاتی تفاوت یا طبقاتی امتیاز کی بات نہیں کہی گئی ہے، بلکہ اِس آیت میں طبقاتی حکمت کی بات کہی گئی ہے۔ اِس دنیا میں کوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش سے ہوسکتا ہے، اور اجتماعی کوشش مفید طورپر صرف اُس وقت وجود میں آتی ہے، جب کہ افرادِ اجتماع کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر بنانے پر پوری طرح راضی ہوجائیں۔ اجتماعی کوشش نام ہے— لیڈر کا ماتحت بن کر کوشش کرنے کا۔ جو لوگ اِس اصول پر راضی نہ ہوں، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔
قرآن کی اِس آیت سے سکنڈری رول (secondary role) کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اگر ایک سو آدمیوں کا اجتماع ہے تو اس میں 99 لوگوں کو سکنڈری رول پر راضی ہونا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک شخص لیڈر بن کر اپنا قائدانہ رول ادا کرسکے۔ اِس اصول کا مظاہرہ روزانہ نمازِ باجماعت کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ نماز باجماعت یہ پیغام دیتی ہے کہ— اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کھڑا کرکے سب کے سب بیک سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ، ایک شخص کو امام بنا کر سب کے سب اس کے مقتدی بننے پر راضی ہوجاؤ۔سکنڈری رول کا معاملہ صرف ایک عملی بندوبست کا معاملہ ہے۔ جہاں تک اہمیت کی بات ہے، سکنڈری رول کی اہمیت قائدانہ رول سے بھی زیادہ ہے۔ قائدانہ رول ادا کرنے والے کو اگر ایک کریڈٹ ملے گا تو سکنڈری رول ادا کرنے والے کو ڈبل کریڈٹ دیا جائے گا۔ کیوں کہ سکنڈری رول ادا کرنے والا شخص، اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی انا کو قربان کردیتا ہے۔ انا کی قربانی کے بغیر سکنڈری رول کی ادائیگی ممکن نہیں، اور اناکی قربانی بلا شبہ تمام قربانیوں میں سب سے بڑی قربانی ہے۔