حج کا فائدہ

ایک روایت کے مطابق، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن جب حج ادا کرکے اپنے گھر واپس لوٹتا ہے تو وہ اس دن کی طرح ہوجاتا ہے جب کہ اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا (رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 1820۔

He returns after Hajj like a newborn child.

اِس حدیث کو سمجھنے کے لیے ایک اور حدیث کو دیکھیے۔ ایک اور روایت کے مطابق، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی اور مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں(صحیح البخاری،حدیث نمبر 1385)۔

ان دونوں حدیثوں پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ حج کی عبادت اگر صحیح اسپرٹ کے ساتھ کی جائے تو وہ حاجی کے لیے وہی چیز بن جاتی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کہا جاتاہے۔

اصل یہ ہے کہ اپنے ماحول کے اعتبار سے ہر آدمی کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ حج کی عبادت اس کنڈیشننگ کو توڑنے کا ذریعہ ہے۔ حج ایک ایسا کورس ہے جو ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اس کو دوبارہ اس کی اصل فطرت پر پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو شخص اس سے پہلے مسٹر کنڈیشنڈ (Mr Conditioned) تھا، وہ اب مسٹر نیچر (Mr Nature) بن جاتا ہے۔حج کا یہ فائدہ صرف اس شخص کو ملتا ہے جو حج کی پوری اسپرٹ کے ساتھ حج کی عبادت انجام دے۔ جو آدمی صرف حج کے ظاہری مراسم ادا کرے، اس کے لیے حج صرف ایک آؤٹنگ (outing) ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

حج کے بعد

پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں حج ادا فرمایا۔ اس موقع پرتقریباً تمام صحابہ موجود تھے۔ حج کے دوران آپ نےیوم النحرکو ایک خطبہ دیا۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔اِس خطبہ میں آپ نے اپنے اصحاب (معاصر اہلِ ایمان) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الغَائِبَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1741)۔یعنی جو یہاں موجود ہے، وہ ان تک پہنچادے جو یہاں نہیں ہے۔

غالباً پیغمبرِ اسلام کے اس حکم کا یہ نتیجہ تھا کہ اس کے بعد تمام لوگ دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ کام میں لگ گئے۔ انھوں نے اس وقت کی آباددنیا کے بڑے حصہ میں دین کا پیغام پہنچا دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا خاتمہ دراصل ایک نئے عمل کا آغاز ہے۔ جہاں حج کے مراسم ختم ہوتے ہیں، وہاں سے ایک اور زیادہ بڑا حج شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دعوت الی اللہ ہے۔ گویا کہ حج ایک ٹریننگ ہے اور دعوت الی اللہ اس ٹریننگ کا عملی استعمال۔

ایک حدیث کے مطابق، حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی زندگی کے مختلف مراحل کا علامتی اعادہ ہیں۔ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی دعوت الی اللہ کی زندگی تھی۔ یہی طریقہ ہر مومن کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ مثلاً احرام کیا ہے۔ وہ سادہ زندگی کی علامت ہے۔ طواف سے مراد ڈیڈیکیشن (dedication) ہے۔ سعی اس بات کا پیغام ہے کہ مومن کی دوڑ دھوپ خدا کی طرف ہونی چاہیے۔ جانور کا ذبیحہ قربانی والی زندگی کی تعلیم ہے۔ رمیِ جمرات کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگائے۔ لبیک لبیک کہتے ہوئے عرفات کے میدان میں پہنچنا خدا کے سامنے حاضری کو یاد دلاتا ہے، وغیرہ۔

حج بڑا حج ہے اور عمرہ چھوٹا حج۔ دونوں کا پیغام ایک ہے۔ شریعت کی یہ منشا نہیں کہ لوگ بار بار حج اور عمرہ کرتے رہیں۔ شریعت کی منشا یہ ہے کہ لوگ ایک بار حج اور عمرہ کرنے کے بعد اس کی اسپرٹ کے مطابق زندگی گزاریں اور اس کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچائیں۔

اسلامی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھ کر زندگی گزاری جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom