حج بیت اللہ کے بعد
قرآن کی سورہ البقرۃمیں حج کا حکم آیا ہے، اس سلسلۂ کلام کی ایک آیت یہ ہے: فَإِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللَّہَ کَذِکْرِکُمْ آبَاءَکُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا( 2:200)۔ پھر جب تم اپنے حج کے مناسک پورے کرلو تو اﷲ کو یاد کرو جس طرح تم پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔حج کے مناسک کی ادائیگی کے بعد زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کلماتِ ذکر کا بکثرت ورد کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی حج کی ابراہیمی سنت کی ادائیگی کے ذریعے جو اسپرٹ تم نے اپنے اندر پیدا کی ہے اس کو لے کر دنیا میں پھیل جاؤ اور اللہ کے پیغام کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچادو۔اور ہر سال حج کے بعد یہی دعوتی کام کرتے رہو۔
حج کے بعد کے عمل سے مراد دعوت یعنی تمام انسانوں کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرنا ہے۔ اس تفسیر کا ماخذ خود سنتِ رسول ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ حجۃ الوداع کا فریضہ ادا کیا۔ پھرحج سے واپسی کے بعد آپ مدینہ آئے وہاں آپ نے ایک مفصل خطاب میں اپنے اصحاب کو یہ پیغام دیا:إن اللہ بعثنی رحمة وکافة(للناس)، فأدوا عنی یرحمکم اللہ، ولاتختلفوا علی کما اختلف الحواریون على عیسى بن مریم (سیرت ابن ہشام: 2/607)۔ بیشک اللہ نے مجھے بھیجا ہے رحمت بنا کر اور تمام انسانوں کے لیے، تو تم میری طرف سے لوگوں کو پہنچادو، اللہ تمھارے اوپر رحم فرمائے، اور تم میرے ساتھ اختلاف نہ کرو جیسا عیسی بن مریم کے حواریوں نے کیا ۔
امتِ مسلمہ کا مشن دعوت الی اللہ ہے۔ حج کا مقصد یہ ہے کہ امت کے افراد ہر سال مکہ کے تاریخی مقام پر مجتمع ہوں، یہاں وہ مختلف اعمال کے علامتی اعادہ کے ذریعے پیغمبر کی دعوتی سنت کو یاد کریں۔ اور پھر دعوت الی اللہ کی اسپرٹ کو لے کر دنیا میں پھیل جائیں، جیسا کہ اصحابِ رسول اس دعوتی مقصد کے لیے دنیا میں پھیلے تھے۔