حج کی اسپرٹ
قرآن میں حج کے تعلق سے دو آیتیں آئی ہیں۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ تاکہ وہ اپنے فائدہ کی جگہوں پر پہنچیں اور چند معلوم دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں(22:27-28)۔یہاں منافع سے مرادایمانی منافع ہیں۔حج کے موقع پر ان ایمانی منافع کا ذریعہ وہ چیزیں ہیں، جن کو قرآن میں دوسرے مقام پر شعائر اللہ (البقرۃ، 2:158) کہا گیا ہے، یعنی اللہ کی یادگاریں۔ اللہ کی یادگاروں سے مراد توحید کے مشن کی وہ تاریخی یادگاریں ہیں، جو پیغمبروں کے ذریعے اس علاقے میں قائم ہوئیں۔ حج کے موقع پر جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں، وہ سب اسی پیغمبرانہ تاریخ کی یاد دہانی کے لیے ہیں۔
احرام کا مطلب یہ ہے کہ مادی کلچر سے نکل کر آدمی ربانی کلچر میں داخل ہوگیا۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے حاجی اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اُمّ ِاسماعیل کی طرح اپنے آپ کو دینِ توحید کے لیے وقف کرے گا۔ جمرات پر کنکریاں مار کر وہ علامتی زبان میں یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ میں اسی طرح شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگاؤں گا، جس طرح پیغمبر ابراہیم نے شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگایا ۔ قربانی کرکے حاجی یہ عہد کرتا ہے کہ وہ مادہ پرستی کو چھوڑ کر خدا پرستی کی زندگی اختیار کرے گا۔ عرفات کے میدان میں اکھٹا ہو کر تمام حاجی اس وقت کو یاد کرتے ہیں، جب میدانِ محشر میں اپنا حساب دینے کے لیے حاضر کیے جائیں گے۔آخر میں حاجی پیغمبر ِ اسلام کی اس پکار کو لے کر واپس ہوتا ہے ، جو پیغمبر ِ اسلام نے 1400 سال پہلے کہا تھا:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِی رَحْمَةً لِلنَّاسِ کَافَّةً، فَأَدُّوا عَنِّی (المعجم الکبیر للطبرانی، 20/8)۔ یعنی اللہ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، اس لیے تم میری طرف سے تمام انسانوں کو میرا پیغام پہنچادو۔ اس میں سبق کا پہلویہ ہے کہ اے مسلمانو، تم لوگ خدا کے دین کی عالمی پیغام رسانی میں سر گرم ہوجاؤ۔ تمھاری دوڑ دھوپ، تمھارا ٹھہرنا اور چلنا، تمھارا چپ ہونا اور بولنا، سب کچھ اسی دعوتی مشن کے لیے وقف ہوجائے۔
حج کو افضل عبادت کہا گیا ہے۔ یہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔ حج کی سالانہ عبادت کے دوران جو عمل کیے جاتے ہیں، ان پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حج اپنے کثیر فوائد کی بنا پر اس قابل ہے کہ اس کو افضل عبادت کہا جائے۔حج میں ساری دنیا کے مسلمان مختلف علاقوں سے چل کر کعبہ کی سرزمین میں پہنچتے ہیں۔ یہ سفر پتھروں کا سفر نہیں ہوتا، بلکہ زندہ انسانوں کا سفر ہوتا ہے، ایسے انسان جو دیکھنے اور سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح جب یہ لوگ حج کے موسم میں دنیا کے مختلف علاقوں سے نکل کر حجاز کی طرف روانہ ہوتے ہیں، تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عالمی ہل چل وجود میں آجاتی ہے۔ اس اعتبار سے حج کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر انسانوں کا ایک عبادتی موبلائزیشن ہے۔
تقریباً نصف کروڑ کی تعداد میں جب اہلِ ایمان اپنے گھروں سے نکل کر حج کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں، تو اس دوران بار بار ان کا انٹرایکشن دوسروں سے ہوتا ہے۔ اس انٹرایکشن کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف ملکوں کے لوگوں کے درمیان اسلام کے تعارف کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ حاجی کو ا س سفر کے دوران نئی نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس سے اُس کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس دوران اُس کی زندگی مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اس طرح حج کا سفر اس کے لیے دینی سیاحت کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران باربار دوسرے حاجیوں سے اس کے اختلافات ہوتے ہیں۔ مگر قرآن کی آیت (2:197)وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (حج میں لڑائی جھگڑانہیں ہے) کے تحت وہ ان اختلافات پر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اس طرح حج اس کے لیے اختلاف کے باوجود اتحاد کی تربیت بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حج ایک جامع عبادت ہے۔ حج کا عمل ایک ایسی تربیت ہے، جس میں وہ تمام پہلو شامل ہوجاتے ہیں، جو اسلام میں ہر فرد سے مطلوب ہیں۔ تاہم حج کے فائدے صرف اس انسان کو ملتے ہیں، جو زندہ شعور کے ساتھ حج کرے۔