حقیقی اہمیت
پیغمبر اسلام کے طریقہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی نظر ہمیشہ حقائق پر ہوتی تھی،نہ کہ ظواہر پر۔ ظواہر میں اگر بے خبری کی بنا پر کوئی فرق ہوجائے تو اس کو آپ ناقابل لحاظ سمجھتے تھے۔ البتہ حقیقی اہمیت والی باتوں کے بارے میں آپ کا رویہ ہمیشہ بہت سخت ہوتا تھا۔
پیغمبر اسلام کے آخری حج کا ایک واقعہ البخاری ، مسلم، ابو داؤد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ آیا ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد منیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے پاس آتے اور حج کے مسائل دریافت کرتے۔ کوئی کہتا کہ مجھے مسئلہ معلوم نہ تھا چنانچہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے بال منڈوا لیا۔ کوئی کہتاکہ میں نے رمی سے پہلے نحر (قربانی) کرلی، وغیرہ۔ آپ ہر ایک سے کہتے کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بار بارلوگ آتے رہے اور تقدیم اور تاخیر کی بابت سوال کرتے رہے۔ آپ ہر ایک سے یہی کہتے کہ کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، (لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ)مسند احمد، حدیث نمبر 1857۔
ابو داؤد کی روایت (نمبر 2015) میں مزید ان الفا ظ کا اضافہ ہے: کر لو کوئی حرج نہیں۔ حرج تواس شخص کے لیے ہے جو ایک مسلمان کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حرج کیا اور ہلاک ہوا۔
دین میں اصل اہمیت معانی کی ہے، نہ کہ ظواہر کی۔ ایک شخص ظاہری چیزوں کا زبردست اہتمام کرے مگر معنوی پہلو کے معاملے میں وہ غافل ہو تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں بے قیمت ہوجائے گا۔اللہ ہمیشہ آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ظاہری چیزوں میں کمی یا فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آدمی کی نیت اچھی نہ ہو تو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں، خواہ اُس نے ظواہر کے معاملے میں کتنا ہی زیادہ اہتمام کررکھا ہو۔ ظاہری خوش نمائی سے انسان فریب میں آسکتا ہے مگر ظاہری خوش نمائی کی خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔