اصحابِ رسول

چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم عراق کے قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ وہاں انھوں نے اپنی معاصر قوم کے درمیان اپنا دعوتی مشن جاری کیا۔ لیکن آپ کی قوم کی کنڈیشننگ اتنی زیادہ پختہ ہوچکی تھی کہ وہ آپ کے پیغام کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ایک نیا منصوبہ شروع کیا۔ اِس منصوبے کا آغاز اِس طرح ہوا کہ آپ اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے چھوٹے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں لے گئے اور وہاں اُنھیں اِس غیر آباد ماحول میں بسا دیا۔

اِس خصوصی منصوبے کے ذریعے عرب میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی۔ اِسی نسل میں 570 عیسوی میں پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ اِسی نسل میں سے وہ لوگ پیدا ہوئے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتاہے۔ اصحابِ رسول دراصل پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان تھے۔ اصحابِ رسول کو قرآن میں خیر ِ امت (آلِ عمران،3:110) کہاگیا ہے۔ اصحابِ رسول امتیازی اوصاف کے حامل تھے۔ ان کی صفتیں قرآن میں مختلف مقامات پر آئی ہیں۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہاں نقل کی جاتی ہے:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا (48:29)۔ یعنی محمد، اللہ کے رسول ہیں۔ جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم ان کو رکوع میں اور سجدہ میں دیکھوگے۔ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے، سجدہ کے اثر سے۔ ان کی یہ مثال تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اُس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹا ہوا اور پھر وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا۔ وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے، تاکہ اُن سے منکروں کو جلائے۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے اُن کے لیے معافی کا اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔

قرآن کی اِس آیت میں اصحابِ رسول کے امتیازی اوصاف کو دو تاریخی پیشین گوئیوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک پیشین گوئی وہ جو تورات میں آئی ہے، اور دوسری پیشین گوئی وہ ہے جس کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔ تورات میں اصحابِ رسول کا پیشگی ذکر اِن الفاظ میں آیا ہے کہ وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا :

He came with ten thousands of saints (Deuteronomy 33:2)

بائبل کے اِس حوالے کے مطابق، اصحابِ رسول قدسی کردار (saintly character) کے حامل تھے۔ اصحابِ رسول کی یہ قدسی صفات مذکورہ قرآنی آیت کے مطابق، حسب ذیل ہیں:

والذین معہ

اِن صفات میں پہلی صفت وہ ہے جس کی طرف ’’معہ‘‘کے لفظ میں اشارہ کیاگیا ہے، یعنی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے۔ یہ ساتھ انھوں نےکب دیا تھا۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کا یہ ساتھ اُس وقت دیا تھا، جب کہ آپ کی ذات کے ساتھ ابھی تاریخی عظمت جمع نہیں ہوئی تھی۔ انھوں نےپیغمبر اسلام کو خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر پہچانا، انھوں نے بظاہر ایک معمولی شخصیت کو غیر معمولی شخصیت کے روپ میں دریافت کیا، انھوں نے تاریخی اعتراف (historical recognition) کے درجے تک پہنچنے سے پہلے آپ کی حیثیت کا اعتراف کیا۔ انھوں نے دورِ عظمت سے پہلے پیغمبر کو اس وقت پہچانا، جب کہ اُس کی ذات ہر قسم کی ظاہری عظمت سے پوری طرح خالی تھی۔

انھوں نے محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب کو خدا کے نمائندہ کی حیثیت سے دریافت کرکے اُس کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردیا، اصحابِ رسول نے ساعتِ عُسرت (التوبۃ،9:117) میں پیغمبر اسلام کا ساتھ دیا۔ یہ ساتھ دینا اُسی وقت ممکن تھا، جب کہ اصحابِ رسول مذکورہ امتیازی صفت کے حامل ہوں۔

أشداء علی الکفار

اصحابِ رسول کی دوسری صفت کو قرآن میں’’أشداء علی الکفار‘‘کے لفظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اہلِ کفر پر شدید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل کے مقابلے میں غیر اثر پذیر (unyielding) کردار کے حامل تھے، مروّجہ افکار، ان کو متزلزل نہیں کرسکتے تھے، وقت کی غالب تہذیب اُن کو مرعوب کرنے والی نہ تھی، مفادات کا نظام ان کو اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ اصحابِ رسول کی دریافتِ حقیقت اتنی زیادہ گہری تھی کہ وہی اُن کی پوری شخصیت کا واحد غالب عنصر بن گئی۔

رحماء بینہم

اصحابِ رسول کی تیسری صفت کو قرآن میں ’’رحماء بینہم‘‘کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی آپس میں ایک دوسرے کے لیے آخری حد تک ہمدرد اور خیر خواہ ہونا۔ اِس صفت کی غیرمعمولی اہمیت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اِس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ اصحابِ رسول کے درمیان وہ تمام اختلافات (differences) موجود تھے جو ہر انسانی گروہ کے درمیان فطری طورپر پائے جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ بنیانِ مرصوص (الصّف،61:4) کی طرح باہم متحد رہے، انھوں نے اِس صلاحیت کا ثبوت دیا کہ وہ اختلاف کے باوجود آپس میں متحد ہوسکتے ہیں، وہ شکایتوں کے باوجود ایک دوسرے کے خیرخواہ بن سکتے ہیں، وہ منفی اسباب کے باوجود اپنے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ اصحابِ رسول کی یہی صفت تھی جس کی بنا پر وہ توحید پر مبنی وہ انقلاب لاسکے جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

تراھم رکعاً سجداً

اصحابِ رسول کی چوتھی صفت کو ’’تراھم رکعاً سجداً‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ رسول کامل طورپر اللہ کے آگے جھکے ہوئے تھے، ان کے اندر کامل درجے میں خود سپردگی کا مزاج پیدا ہوگیا تھا، اللہ کی کبریائی کی معرفت ان کو اتنے بڑے درجے میں حاصل ہوئی تھی، جب کہ انسان شعوری طورپر اللہ کی قدرتِ کاملہ کا ادراک کرلیتا ہے اور اس کے اندر اپنے عاجزِ مطلق ہونے کا شعور اِس طرح پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اللہ کے آگے جھک جاتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں اللہ کی بڑائی کے سوا کوئی اور بڑائی باقی نہیں رہتی، اس کا واحدکنسرن (sole concern) اللہ وحدہ لاشریک بن جاتا ہے۔ یہی توحید ِ کامل ہے، اور اصحابِ رسول اِس توحید ِ کامل میں آخری درجے پر پہنچے ہوئے تھے۔

یبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً

اصحابِ رسول کی پانچویں صفت وہ ہے جس کو قرآن میں ’’یبتغون فضلاً من اللّٰہ ورضواناً‘‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ رسول کی معرفت نے اُن کے اندر اللہ کی ذات پر کامل یقین پیدا کردیا تھا، وہ اللہ پر کامل اعتماد (confidence) والے بن گئے تھے، وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ دینے والا بھی اللہ ہے اور چھیننے والا بھی اللہ، کامیابی کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ناکامی کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں۔ وہ ہر دوسری چیز سے زیادہ اللہ پر بھروسہ کرنے والے بن گئے تھے، اُن کی امیدیں اور آرزوئیں تمام تر اللہ پر منحصر ہوگئی تھیں۔

سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود

اصحابِ رسول کی چھٹی صفت کو قرآن میں’’سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصحابِ رسول کی دریافتِ حقیقت نے اُن کے اندر آخری حد تک وہ صفات پیدا کردی تھیں جن کو سنجیدگی (sincerity) اور تقویٰ اور تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی کمالِ انسانیت کی پہچان ہے، یہی وہ صفات ہیں جو کسی انسان (man)کو اعلیٰ انسان(super man) بناتی ہیں۔ اِن صفات کی حامل شخصیت کو ربانی شخصیت (divine personality) کہا جاتا ہے۔ اصحابِ رسول بلاشبہ اِن صفات میں کمال درجے پر تھے۔

اِس کے بعد اصحابِ رسول کی اُس خصوصیت کو بیان کیاگیا ہے جس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیح کی زبان سے اِن الفاظ میں آیا ہےکہ اُس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اُس رائی کے دانے کی مانند ہے جس کو کسی آدمی نے لے کراپنے کھیت میں بودیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے، مگر وہ جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہوجاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آکر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں:

Another parable he put forth to them, saying: “The kingdom of heaven is like a mustard seed, which a man took and sowed in his field, which indeed is the least of all the seeds, but when it is grown, it is greater than the herbs and becomes a tree, so that the birds of the air come and nest in its branches”. (Matthew 13: 31-32)

اصحابِ رسول کی جو صفت تورات میں مختصراً اور قرآن میں تفصیلاً بیان کی گئی ہے، اُس کا تعلق اصحابِ رسول کی انفرادی خصوصیات سے ہے۔ یہ اعلیٰ خصوصیتیں ہر صحابی کے اندر کامل درجے میں پائی جاتی تھیں۔ اِن خصوصیات نے ہر صحابی کو، ایک مستشرق کے الفاظ میں، ہیرو (hero) بنا دیا تھا۔

اصحابِ رسول کی دوسری صفت جو انجیل اور قرآن دونوں میں آئی ہے، وہ تمثیل کی صورت میں اُس اجتماعی انقلاب کو بتاتی ہے جو اصحابِ رسول کے ذریعے برپا ہوا تھا۔ یہ تمثیل ایک درخت کی صورت میں ہے۔ اِس درخت کا بیج پیغمبرِ اسلام کی پیدائش سے ڈھائی ہزار سال پہلے صحرائے عرب میں لگایا گیا تھا۔ اس کا آغاز حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی قربانیوں کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ پودا نسل درنسل بڑھتا رہا۔

اصحابِ رسول اِسی تاریخی نسل کا اگلا حصہ تھے۔ اصحابِ رسول نے غیر معمولی قربانی کے ذریعے یہ کیا کہ انھوں نے توحید کے نظریے کو فکری انقلاب کے دور تک پہنچا دیا۔ اِس فکری انقلاب کے بعد تاریخ بشری میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ بعد کی عالمی تبدیلیاں اِسی انقلابی عمل کا نتیجہ تھیں۔ فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین (وفات1935) نے اِس انقلابی واقعے کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے — اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا، تاریخ کے روایتی دور کا کامل خاتمہ ہوگیا:

Islam changed the face of the globe, the traditional order of history was overthrown.

یعجب الزرّاع

’’یعجب الزرّاع‘‘کے لفظ میں ایک تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے پہلے کی جو دعوتی تاریخ ہے، اُس میں بار بار ایسا ہوا کہ خدا کے داعیوں نے دعوت کا بیج ڈالا، لیکن وہ بڑھ کر ایک شاداب درخت نہ بن سکا۔ یہ واقعہ پہلی بار اصحابِ رسول کے ذریعے پیش آیا۔ دعوت کے عمل میں یہ ارتقا سارے زمین وآسمان کے لیے بے پناہ مسرت کا باعث تھا،جو دعوتِ توحید کو ایک شاداب باغ کی صورت میں دیکھنے کے لیے ہزاروں سال سے اس کا انتظار کررہے تھے۔

لیغیظ بہم الکفار

’’لیغیظ بہم الکفار‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل جو حق کا فروغ دیکھنا نہیں چاہتے تھے، اُن کے لیے حق کے فروغ کا یہ عظیم واقعہ بے پناہ مایوسی کا سبب بن گیا۔ ان کی ہزاروں سال کی خوشیاں خاک میں مل کر رہ گئیں۔ ان کا یہ حوصلہ آخری طورپر ختم ہوگیا کہ وہ حق کو ہمیشہ مغلوب رکھیں گے اور اس کو کبھی ابھرنے کا موقع نہ دیں گے۔ اِس مایوسی میں دونوں گروہ یکساں طورپر شریک تھے، باطل پرست انسان بھی، اور ابلیس کا دشمن ِ حق قافلہ بھی، حق کی یہ کامیابی دونوں ہی کے لیے ان کے منصوبوں کے خاتمہ کے ہم معنی بن گئی۔

ایمان اور عمل صالح

مذکورہ آیت میں آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ— اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ یہ بشارت براہِ راست طورپر اصحابِ رسول کے لیے ہے اور بالواسطہ طورپر قیامت تک کے اُن تمام لوگوں کے لیے ہے جو اصحابِ رسول کے رول کو دریافت کریں اور بعد کے زمانوں میں اس کا تسلسل جاری رکھیں۔ تسلسل کو جاری رکھنے کا یہ عمل کوئی سادہ عمل نہیں ۔ اِس کے لیے ایسے افراد درکار ہیں جن کے اندر تخلیقی فکر ہو اور جن کے اندر مجددانہ صلاحیت ہو۔ بعد کی نسلوں میں جو لوگ ایمان اور عملِ صالح کی اِس اعلیٰ صلاحیت کا ثبوت دیں گے، وہ سب مذکورہ قرآنی بشارت میں شامل ہوتے چلے جائیں گے۔

اس ابراہیمی منصوبے پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم کی قربانی، قربانی برائے دعوت تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ عراق کے تجربے کی روشنی میں عرب میں ایک نیا دعوتی منصوبہ بنایا جائے، جو نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ موثر ثابت ہو۔ جانور کے ذبیحہ کی صورت میں اس منصوبہ میں شامل افراد کو پیشگی یہ بتایا گیا کہ تم کو اس منصوبہ کی کامیاب تکمیل کے لیے ایک ایسے پرمشقت کورس سے گزرنا ہوگا، جو گویا ذبیحہ (slaughter) جیسے تجربہ کےبرابر ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان دوبارہ حضرت ابراہیم کی اس تاریخ کو دہرائیں ۔ موجودہ زمانہ میں وہ دوبارہ یہ کریں کہ شکایت کے ذہن کو مکمل طور پر ختم کردیں۔ وہ ردعمل کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر اپنے کو بچائیں۔ وہ تشدد کی سرگرمیوں کو چھوڑ کر پرامن دعوت کا منصوبہ بنائیں۔ وہ دوبارہ جذبات کی قربانی کا ثبوت دیں۔ موجودہ زمانے میں بھی بظاہر تمثیلی قربانی کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن اسپرٹ کے اعتبار سے ان کو اپنے آپ کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا۔ ابراہیم اور اسماعیل کے زمانے میں اگر ڈیزرٹ تھراپی کا طریقہ اختیار کیا گیا تھا تو اب مسلمانوں کو صبر تھراپی (sabr therapy) کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom