حج کی اجتماعی اہمیت

حج اسلام کی ایک نہایت اہم سالانہ عبادت ہے۔ وہ قمری کیلنڈر کے آخری ماہ ذو الحجہ میں ادا کیا جاتاہے۔ حج کی عبادت کے مراسم بیت اللہ (مکہ) میں یا اس کے آس پاس کے مقامات پر ادا کیے جاتے ہیں جو عرب میں واقع ہے۔ اس عبادت کو تمام عبادت کا جامع کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر قسم کے عبادتی پہلو پائے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ حج کی عبادت میں اجتماعیت کا پہلو بہت نمایاں طو پر موجود ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا (1984) میں حج کی تفصیل دیتے ہوئے یہ جملہ لکھاگیا ہے:

About 2,000,000 persons perform the Hajj each year, and the rite serves as a unifying force in Islam by bringing followers of diverse background together in religious celebration. (V.IV, p. 844)

تقریباً دو ملین آدمی ہر سال حج کرتے ہیں اور یہ عبادت مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو ایک مذہبی تقریب میں یکجا کر کے اسلام میں اتحادی طاقت کا کام کرتی ہے۔

قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا(2:125)۔ یعنی خدا نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مثابہ بنایا اور اس کو امن کی جگہ بنا دیا۔ مثابہ کے معنٰی عربی زبان میں تقریباً وہی ہیں جس کو آج کل کی زبان میں مرکز کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں۔ جس کی طرف سب لوگ رجوع کریں، جو سب کا مشترک مرجع اور شیرازہ ہو۔

حج کی عبادت کے لیے ہر سال ساری دنیا کے مسلمان مکہ آتے ہیں۔ 2012 میں ان کی تعداد تقریباً3 ملین تھی۔ حج کے موسم میں مکہ اور اس کے آس پاس ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ان کے حلیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں آنے کے بعد سب کی سوچ ایک ہوجاتی ہے۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ حج کے دوران وہ ان کی تمام توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس طرح حج ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے جو اپنے تمام اعمال اور تقریبات کے ساتھ انسان کو اجتماعیت اور مرکزیت کا سبق دے رہا ہے۔

حج کی تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں ہستیاں وہ ہیں جن کو نہ صرف مسلمان خدا کا پیغمبر مانتے ہیں بلکہ دوسرے بڑے مذاہب کے لوگ بھی ان کو عظیم پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح حج کے عمل کو تاریخی طور پر تقدس اور عظمت کا وہ درجہ مل گیا ہے جو دنیا میں کسی دوسرے عمل کو حاصل نہیں۔

حضرت ابراہیم قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل ان کے صاحبزادے تھے۔ اس وقت عراق ایک شاندار تمدن کا ملک تھا۔ آزر حضرت ابراہیم کے والد اور حضرت اسماعیل کے دادا تھے۔ ان کو عراق کے سرکاری نظام میں اعلیٰ عہد یدار کی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے لیے عراق میں شاندار ترقی کے اعلیٰ مواقع کھلے ہوئے تھے۔ مگر عراق کے مشرکانہ نظام سے وہ موافقت نہ کرسکے۔ ایک خدا کی پرستش کی خاطر انہوں نے اس علاقہ کو چھوڑ دیا جو کئی خداؤں کی پرستش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ عراق کے سرسبز ملک کو چھوڑ کر عرب کے خشک صحرا میں چلے گئے جہاں کی سنسان دنیا میں خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ تھی۔ یہاں انہوں نے ایک خدا کے گھر کی تعمیر کی۔

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس عمل کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کئی خداؤں کو اپنا مرجع بنانے کے بجائے ایک خدا کو اپنا مرجع بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کی جو خدائے واحد کی عبادت کا عالمی مرکز ہے۔ یہی مرکزِ توحید حج کے مراسم کی ادائیگی کا مرکز بھی ہے۔

حج کی عبادت میں جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں ان کے بعض پہلوؤں کو دیکھیے۔ حج کے دوران حاجی سب سے زیادہ جو کلمہ بولتا ہے وہ یہ ہے:

لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، إن الحمد والنعمة لک والملک، لا شریک لک ۔ ( حاضر ہوں خدایا، میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے، اور بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔)

حاجی کی زبان سے بار بار یہ الفاظ کہلوا کر تمام لوگوں کے اندر یہ نفسیات پیدا کی جاتی ہے کہ بڑائی صرف ایک اللہ کی ہے۔ اس کے سوا جتنی بڑائیاں ہیں سب اس لیے ہیں کہ وہ سب اسی ایک عظیم تر بڑائی میں گم ہو جائیں۔ یہ احساس اجتماعیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ اجتماعیت اور اتحاد ہمیشہ وہاں نہیں ہوتا جہاں ہر آدمی اپنے کو بڑا سمجھ لے۔ اس کے برعکس جہاں تمام لوگ کسی ایک کے حق میں اپنی انفرادی بڑائی سے دست بردار ہو جائیں وہاں اتحاد اور اجتماعیت کے سوا کوئی اور چیز پائی نہیں جاتی ۔ بے اتحادی بڑائیوں کی تقسیم کا نام ہے اور اتحاد بڑائیوں کی وحدت کا۔

اسی طرح حج کا ایک اہم رکن طواف ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جو حج کے موسم میں مکہ میں جمع ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا عملی اقرار ہے کہ آدمی اپنی کوششوں کا مرکز و محور صرف ایک نقطہ کو بنائے گا۔ وہ ایک ہی دائرہ میں حرکت کرے گا۔ یہ عین وہی مرکزیت ہے جو مادی سطح پر نظامِ شمسی (solar system) میں نظر آتی ہے۔ نظامِ شمسی کے تمام سیارے ایک ہی سورج کو مرکزی نقطہ بنا کر اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی طرح حج یہ سبق دیتا ہے کہ انسان ایک خدا کو اپنا مرجع بنا کر اس کے دائرے میں گھومے۔

اس کے بعد حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ وہ صفا سے مروہ کی طرف جاتا ہے اور پھر مروہ سے صفا کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ سات چکر لگاتا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں اس بات کا سبق ہے کہ آدمی کی دوڑ دھوپ ایک حد کے اندر بندھی ہوئی ہونی چاہیے۔ اگر آدمی کی دوڑ دھوپ کی کوئی حد نہ ہو تو کوئی ایک طرف بھاگ کر نکل جائے گا اور کوئی دوسری طرف۔ مگر جہاں دوڑ دھوپ کی حد بندی کر دی گئی ہو وہاں ہر آدمی بندھا رہتا ہے۔ وہ بار بار وہیں لوٹ کر آتا ہے جہاں اس کے دوسرے بھائی اپنی سرگرمیاں جاری کیے ہوں۔

یہی حج کے دوسرے تمام مراسم کا حال ہے۔ حج کے تمام مراسم مختلف پہلوؤں سے ایک ہی نشانہ پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ربانی مقناطیس ہے جو ’’لوہے‘‘ کے تمام ٹکڑوں کو ایک نقطہ پر کھینچتے چلا جارہا ہے۔

مختلف ملکوں کے یہ لوگ جب مقامِ حج کے قریب پہنچتے ہیں تو سب کے سب اپنا قومی لباس اتار دیتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی مشترک لباس پہن لیتے ہیں جس کو احرام کہا جاتا ہے۔ احرام باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سلی ہوئی ایک سفید چادر نیچے تہمد کی طرح پہن لی جائے اور اسی طرح ایک سفید چادر اوپر سے جسم پر ڈال لی جائے۔ اس طرح لاکھوں انسان ایک ہی وضع اور ایک ہی رنگ کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔

یہ سارے لوگ مختلف مراسم ادا کرتے ہوئے بالآخر عرفات کے وسیع میدان میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انسانوں کے تمام فرق اچانک مٹ گئے ہوں۔ انسان اپنے تمام اختلافات کو کھو کر خدائی وحدت میں گم ہوگئے ہیں۔ تمام انسان ایک ہوگئے ہیں جیسے ان کا خدا ایک ہے۔

عرفات کے وسیع میدان میں جب احرام باندھے ہوئے تمام حاجی جمع ہوتے ہیں اس وقت کسی بلندی سے دیکھا جائے تو ایسا نظر آئے گا کہ زبان، رنگ، حیثیت، جنسیت کے فرق کے باوجود سب کے سب انسان بالکل ایک ہوگئے ہیں۔ اس وقت مختلف قومیتیں ایک ہی بڑی قومیت میں ضم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حج اجتماعیت کا اتنا بڑا مظاہرہ ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال غالباً دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔

کعبہ مسلمانوں کا قبلۂ عبادت ہے۔ مسلمان ہر روز پانچ وقت اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ گویا ساری دنیا کے مسلمانوں کا عبادتی قبلہ ایک ہی ہے۔ عام حالت میں وہ ایک تصوراتی حقیقت ہوتا ہے۔ مگر حج کے دنوں میں مکہ پہنچ کر وہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت بن جاتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان یہاں پہنچ کر جب اس کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو محسوس طورپر دکھائی دینے لگتا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مشترک قبلہ ایک ہی ہے۔

کعبہ ایک چوکور قسم کی عمارت ہے۔ اس عمارت کے چاروں طرف گول دائرہ میں سارے لوگ گھومـتے ہیں جس کو طواف کہا جاتا ہے۔ وہ صف بہ صف ہو کر اس کے گرد گول دائرہ میں لوگوں کو ایک ہونے اور مل کر کام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ ایک آواز پر حرکت کرنے کا عملی مظاہرہ ہیں۔

ایکتا کے اس عظیم تربیتی نظام ہی کا یہ بھی ایک ظاہری پہلو ہے کہ تمام لوگوں سے ان کے انفرادی لباس اُتروا کر سب کو ایک ہی سادہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ یہاں بادشاہ اور رعایا کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں مشرقی لباس اور مغربی لباس کے امتیازات فضا میں گم ہو جاتے ہیں۔ احرام کے مشترک لباس میں تمام لوگ اس طرح نظر آتے ہیں جیسے کہ تمام لوگوں کی صرف ایک حیثیت ہے۔ تمام لوگ صرف ایک خدا کے بندے ہیں۔ اس کے سوا کسی کوکوئی اور حیثیت حاصل نہیں۔

حج کے مقرر ہ مراسم اگرچہ مکہ میں ختم ہو جاتے ہیں مگر بیشتر حاجی حج سے فارغ ہو کر مدینہ بھی جاتے ہیں۔ مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا۔ مگر پیغمبر ِ اسلام نے اپنی زندگی کے آخری زمانے میں اس کو اپنا مرکز بنایا۔ اس وقت سے اس کا نام مدینۃ النبی (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ مدینہ اسی کااختصار ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ یہاں آپ کی قبر ہے۔ یہاں آپ کی پیغمبرانہ زندگی کے نشانات بکھرے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں حاجی جب مدینہ پہنچتے ہیں تو یہ ان کے لیے مزید اتحاد اور اجتماعیت کا عظیم سبق بن جاتا ہے۔ یہاں کی مسجد نبوی میں وہ اس یاد کو تازہ کرتے ہیں کہ ان کا رہنما صرف ایک ہے۔ وہ یہاں سے یہ احساس لے کر لوٹتے ہیں کہ ان کے اندر خواہ کتنے ہی جغرافی اور قومی فرق پائے جاتے ہوں، انہیں ایک ہی پیغمبر کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے۔ انہیں ایک مقدس ہستی کو اپنی زندگی کا رہنما بنانا ہے۔ وہ خواہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی مختلف ہوں، مگر ان کا خدا بھی ایک ہے اور ان کا پیغمبر بھی ایک۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom