یقینی ضمانت
قرآن کے مطابق، اہل ایمان کے لیے اس دنیا میں حفاظت کی سب سے بڑی اور یقینی ضمانت یہ ہے کہ وہ صبر اور تقویٰ کی روش پر قائم رہیں۔ قرآن میں مختلف انداز سے اس کا واضح اعلان کیا گیاہے۔ ایک جگہ اسلام کے بدخواہوں اور دشمنوں کا ذکر کرتے ہوئے قطعی اور حتمی انداز میں ارشاد ہوا ہے:
و إن تصبروا وتتقوا لا يضركم كيدهم شيئاً(آل عمران :120)
اور اگرتم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو توان کی کوئی مخالفانہ تدبیر تم کو نقصان نہ پہنچائے گی۔
یہ بات جو اس آیت میں کہی گئی ہے، یہ کوئی پر اسرار بات نہیں ۔ یہ ایک سادہ اور فطری حقیقت ہے ۔ اپنے آس پاس کے واقعات پر غور کر کے اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سچائی اور انصاف پر ہیں اور کوئی شخص آپ کا مخالف بن کر کھڑا ہو تو اس کا یہ اقدام خود اس کی اپنی فطرت کے خلاف ہوتا ہے۔ عین اس وقت بھی اس کی فطرت کی آواز اس کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے اس کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ وہ جب تک ضد اور عناد کی نفسیات میں مبتلا ہے، وہ آپ کے خلاف کارروائی کرے گا۔ مگر جیسے ہی وہ اعتدال پر آیا وہ آپ کے خلاف اقدام کرنے کا حوصلہ کھو دے گا۔
صبر اور تقوی کی روش فریق ِثانی کو اسی حالتِ اعتدال پر لانے کی ایک تدبیر ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے شخص کی زیادتیوں پر رد ِعمل کا اظہار نہ کیا جائے ۔ اور تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اللہ کی عظمتوں کو سوچ کر متواضع بن جائے۔
یہ دونوں صفتیں اگر آدمی کے اندر حقیقی طور پر پیدا ہو جائیں تو وہ بلا شبہ اس کے حریف کو ٹھنڈا کرنے کی یقینی ضمانت ہیں۔ یہ اعلیٰ اخلاق یقینی طور پر اس کے ضد اور عناد کو ختم کر کے اس کو اعتدال کی حالت پر پہنچا دے گا ۔ اور جب کوئی شخص معتدل نفسیات والا بن جائے تو خود اس کی اپنی فطرت اس کو ظلم سے روک دیتی ہے، اس کے بعد اس کے لیے کسی مزید پولس اور فوج کی ضرورت نہیں ۔