مسائل، مواقع
زندگی میں مسائل بھی ہوتے ہیں اور مواقع بھی، ٹھیک اسی طرح جس طرح گلاب کے درخت میں کانٹے بھی ہوتے ہیں اور پھول بھی۔ ہندستانی مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کے لکھنے اور بولنے والے طبقے نے ان کے سامنے صرف مسائل کی مبالغہ آمیز داستان سنائی۔ انھوں نے مسلمانوں کو مواقع سے باخبر نہیں کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان خلاف واقعہ طور پر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس ملک میں ان کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں، یہاں ان کے لیے زندگی اور ترقی کے مواقع موجود نہیں۔
یورپ کے سفر میں میری ملاقات ایک ہندستانی مسلمان سے ہوئی۔ وہ ایک یورپی شہر میں ایک انگریزی اخبار کے ادارتی اسٹاف میں تھے۔ انہیں ایک باعزت زندگی حاصل تھی اور ان کے بچے وہاں کے ایک اچھے اسکول میں تعلیم پارہے تھے۔ ہندستانی مسلمانوں کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ ہندستان کے مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ تعلیم ہے۔ تعلیم میں پیچھے ہونے کی وجہ سے وہ ہر شعبے میں پیچھے ہیں۔ اور اگر وہ تعلیم میں آگے بڑھ جائیں تو اس کے بعد وہ اپنے آپ زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھ جائیں گے۔ اس سلسلے میں تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے میں نے سابق امریکی صدر لنڈن جانسن کا یہ قول دہرایا :
Learning is the basic to our hopes for America
میری بات سن کر انھوں نے کرسی پر اپنا پہلو بدلا اور بے پروائی کے انداز میں بولے :آپ لرننگ (learning) کی بات کرتے ہیں اور یہاں تو اب ڈی لرننگ (de-learning) کی تحریک چل رہی ہے۔
ان کی بات سن کر مجھے سخت جھٹکا لگا۔ میں نے کہا کہ جناب، یہ بتائیے کہ آپ یہاں جو زندگی حاصل کیے ہوئے ہیں وہ لرننگ کی بنیاد پر ہے یاڈی لرننگ کی بنیاد پر ۔ اور اپنے بچوں کو آپ لرننگ کے ادارےمیں داخل کیے ہوئے ہیں یاڈی لرننگ کے میدان میں گھومنے کے لیے انھیں چھوڑ دیا ہے۔ میرے اس سوال پر وہ مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
اس طرح کے مسلسل تجربات کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ نام نہاد مسلم دشمن طاقتیں نہیں ہیں بلکہ خود مسلمانوں کے نام نہاد دانشور اور ان کے رہنما ہیں۔ یہ لوگ خود اپنے معاملات نہایت ہوشیاری کے ساتھ حل کیے ہوئے ہیں۔ مگر جب وہ پر یس اور پلیٹ فارم سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہیں تو وہ ان کو اس کے بالکل بر عکس چیز کی خبر دیتے ہیں جس کو وہ اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ایک علامتی مثال
ہندستان کے ایک مشہور مسلم دانشور کی ایک انگریزی کتاب پینگوئن بکس(Penguin Books)سے چھپی ہے۔ ۴۴۵ صفحہ کی اس کتاب کا نام ہے محمد اور قرآن :
Muhammad and the Quran (1991)
اس کتاب کے آغاز میں ڈیڈیکیشن کا ایک صفحہ شامل ہے۔ اس میں مصنف نے کہا ہے کہ–––– میرے بیٹوں مسٹرا کمل اور مسٹر کمال کے نام، جنہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اس مذہب کے بارےمیں صحیح واقفیت حاصل کریں جن کے اندر وہ پیدا ہوئے ہیں، تاکہ وہ ہارورڈ یونی ورسٹی اور ایل یونی ورسٹی میں اپنے دوستوں سے معلوماتی تبادلہ کر سکیں جہاں اب بھی اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں موجود ہیں۔ بنجیمن ڈزرائیلی کے الفاظ میں، وہ اپنی غلط آگہی کی تصحیح کر سکیں :
To my sons, Akmal and Kamal, who wanted to have a correct perception of the religion into which they have been born, so that they could share the knowledge with their friends of Harvard and Yale, where misconceptions about Islam still persist. In the words of Benjamin Desraeli, they may have to 'learn to unlearn.'
اسلام کے بارے میں دوسروں کی تصحیح ِفکر کی کوشش قابلِ قدر ہے۔ تاہم ایک اور معاملے میں خود مصنف اور ان کے جیسے ہزاروں مسلم دانشور بھیانک غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنی اس غلط فکری کی تصحیح کریں۔یہ ہندستان میں مسلمانوں کی صورت حال کا مسئلہ ہے جس کے معاملے میں مصنف سمیت،ہزاروں مسلم دانشور اور رہنما ہلاکت خیز حد تک شدید غلط فکری کا شکار ہیں۔
وہ غلط فکری یہ ہے کہ ان مسلم دانشوروں اور رہنماؤں میں سے ایک ایک شخص ہندستان میں اعلیٰ حیثیت حاصل کیے ہوئے ہے۔ ان کے بیٹے اسی ملک کے حالات میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں۔ مگر جب مسلم ملت کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے تو وہ خود اپنی اس دریافت کردہ حقیقت سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اب چانک انہیں نظر آنے لگتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لیے تباہی وبربادی کے سوا کوئی اور انجام نہیں۔ وہ اپنے خاندان کو ترقی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچارہے ہیں، مگر انہیں نہیں معلوم کہ وہ ملت کے وسیع تر خاندان کو کس طرح ترقی کا راستہ دکھا ئیں ۔
مذکورہ مسلم دانشور کی مثال لیجیے، ایک طرف ان کا حال یہ ہے کہ ان کے بیٹے ۱۹۴۷ کے بعد کے ہندستان میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں یہاں وہ امکانات مل جاتے ہیں جن کو استعمال کر کے وہ بہترین تعلیم حاصل کریں۔ اس کے بعد انھیں مغرب میں مواقع مل جاتے ہیں تاکہ وہاں کی یونی ورسٹیوں میں داخلہ لے کر مزید اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے لیے شاندار مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔ مگر انھیں مسلم دانشور کے سامنے جب ملت کا مسئلہ آتا ہے تو وہ ملت کے بارے میں ان تمام امکانات سے بالکل بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے انھیں اسی ملک میں روشن مستقبل دکھائی دیتا ہے اور قوم کے بچوں کے لیے صرف تاریک مستقبل ۔
یہاں میں مذکورہ مسلم دانشور کے ایک مضمون کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا تعلق ہندستانی مسلمانوں سے ہے اور جو دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۲۴ نومبر۱۹۹۱) میں شائع ہوا ہے۔
موصوف اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ مسلمان اس ملک میں نہایت بری حالت (miserable condition) میں ہیں۔ ہندو فرقہ پرست جماعتوں کی مسلم دشمنی مسلمانوں کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ ان جماعتوں نے اکثریتی فرقہ کے اندر متعصبانہ ذہنیت پیدا کر دی ہے مسلمان سرکاری دفتروں میں جاتے ہیں تو ان کے ساتھ سرد مہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ حکومت کو مسلمانوں کی تباہی و بربادی سے کوئی دل چسپی نہیں ۔ اندرا گاندھی کے زمانےمیں گوپال سنگھ کمیشن اور گجرال کمیشن نے اقلیتی مفاد کے لیے سفارشیں پیش کیں مگر اب تک ان کی تعمیل نہ کی جا سکی۔ فرقہ وارانہ فساد نے مسلمانوں کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ دانشور کا پورا مضمون اسی قسم کی مایوس کن باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کو میں نے پڑھا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا :کاش یہ دانشور مذکورہ مضمون کے بجائے ایک اور مضمون لکھتے اور اس میں یہ بتاتے کہ ان کے بچوں نے کس طرح اسی ہندستان میں پڑھ کر اتنی ترقی کی کہ وہ امریکہ کی یونی ورسٹیوںمیں پہنچ گئے اور اب وہ شاندار مستقبل کی طرف اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ ہندستانی مسلمانوں کو زیادہ فائدہ پہنچاتے۔ کیوں کہ اس سے مسلمانوں کو تجرباتی طور پریہ معلوم ہوتا کہ وہ اسی ملک میں اعلی ترین ترقی کر سکتے ہیں۔ مذکورہ مضمون تو انھیں مایوسی کے سوا کوئی اور تحفہ دینے والا نہیں ۔
سروے کی ضرورت
ایک صاحب نے ایک مسلم رہنما کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہندستان میں مسلمانوں کو تباہ کیا جارہا ہے اور یہ عمل ۱۹۴۷ سے نہایت منظم طور پر جاری ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اس معاملے میں سروے کیجیے۔ اور سب سے پہلے خود ان رہنما حضرات کا جائزہ لیجیے جو اس ملی حادثےکی خبر دے رہے ہیں۔ یہ رہنما حضرات بھی مسلم ملت کا جزء ہیں۔ اس لیے ان کا بھی وہی انجام ہونا چاہیے جو ملت کے دوسرےافراد کا انجام ہو رہا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ باریش رہنماؤں اور بے ریش رہنماؤں کی ایک فہرست بنائیے۔ اس کے بعد ایک ایک شخص کے بارےمیں پتہ کیجیے کہ ۱۹۴۷ میں اس کی کیا حالت تھی اور آج اس کی کیا حالت ہے ۔
آپ معلوم کیجیے کہ ۱۹۴۷ میں ان کی ذات پر ماہانہ کتنا خرچ ہوتا تھا اور آج ان کی ذات پرماہانہ کتنا خرچ ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ میں ان کے پاس سفر کے لیے کون سی سواری تھی اور آج ان کے پاس سفر کے لیے کون سی سواری ہے۔ ۱۹۴۷ میں وہ کس مکان میں رہتے تھے اور آج وہ اور ان کا خاندان کس مکان میں رہتا ہے ۔ ۱۹۴۷ میں سالانہ وہ ہوائی جہاز کا کتنا سفر کرتے تھے اور آج وہ جہاز کا کتنا سفر کرتے ہیں ۔ ۱۹۴۷ میں ان کی کتنی کتا بیں چھپی تھیں اور اب ان کی کتنی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ۱۹۴۷ میں وہ کتنے اداروں کی صدارت اور نظامت کر رہے تھے اور آج وہ کتنے اداروں کی صدارت اور نظامت کر رہے ہیں۔۱۹۴۷ میں ان کی قومی یا بین اقوامی پوزیشن کیا تھی اور آج ان کی قومی یا بین اقوامی پوزیشن کیا ہے۔
اس سروے میں آپ حیرت انگیز طور پر پائیں گے کہ بلا استثناء ہر رہنما، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، ۱۹۴۷ کے بعد اس نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ پھر جب مسلم رہنما اس ملک میں شاندار ترقیاں حاصل کر رہے ہیں تو عام مسلمان آخر کس بنا پر ترقی سے محروم رہیں گے۔
اصلی سبب
اس عجیب و غریب تضاد کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب بالکل سادہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر سماج میں خواہ وہ کوئی مسلم سماج ہو یا کوئی مشترک سماج، ہمیشہ دونوں قسم کے حالات موجود رہتے ہیں ۔عسرکے حالات بھی اور یسر کے حالات بھی۔ مسائل بھی اور مواقع بھی۔ ایسا قانونِ فطرت کے تحت ہوتا ہے۔ اس لیےکوئی بھی سماج کبھی اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔
اب نام نہاد مسلم دانشور اورمسلم رہنما یہ کر رہے ہیں کہ جب اپنی ذات کا اور اپنے بیٹوں کا معاملہ ہوتا ہے تو وہ مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں اور مواقع کو استعمال کرتے ہیں۔ اور جب وہ ملت کے مسئلے پر بولتے ہیں تو اس کے برعکس وہ ایسا کرتے ہیں کہ مواقع کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور مسائل کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کے اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ ملت تباہ ہے اور وہ خود ملک میں شاندار ترقیاں حاصل کر رہے ہیں ۔
موجودہ دنیا کبھی بے مسائل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ دنیا مواقع ِحیات سے خالی ہو جائے ۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو مسائل سے صرفِ نظر کرے اور مواقع کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ جو لوگ اس حکمت کو اختیار کریں وہ اس دنیا میں کبھی ترقی اور کامیابی سے محروم نہیں رہ سکتے۔
مسلمانوں کے نام نہاد رہنما یہ متضاد رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک معلوم وجہ ہے۔ ا گروہ مسلمانوں کو وہ آزمودہ تدبیر بتائیں جس سے انھوں نے کامیابی حاصل کی ہے تو ان کو "موافقت" کی زبا ن بولنی پڑے گی ۔ کیوں کہ یہ دراصل موافقت کا طریقہ ہے جس نے ان کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر ترقی کے مواقع دے رکھے ہیں ۔
مگر انھیں ڈر ہے کہ ایسا کرتے ہی وہ مسلمانوں کے درمیان اپنی قیادت کھو دیں گے۔ کیونکہ مسلمان اپنے موجودہ مزاج کی بنا پر، موافقت کی باتوں کو بزدلی سمجھتے ہیں اور ٹکراؤ کی باتوں کو جہاد۔ مسلمانوں کے درمیان ٹکراؤ کی باتیں کرنے سے لیڈری ملتی ہے۔ اور جو شخص موافقت اور ایڈ جسٹمنٹ کی بات کرے وہ فوراً مسلمانوں کی نظر میں غیر مقبول ہو جاتا ہے۔
یہ نام نہاد لیڈر خوب جانتے ہیں کہ ترقی کا راز حالات سے موافقت میں ہے اور وہ اپنی ذات کےمعاملے میں مکمل طور پر اسی طریقہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر جب وہ اسٹیج پر آتے ہیں تو وہ ٹکراؤ کی زبان بولتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے اندر اپنی مقبولیت کو باقی رکھ سکیں ۔