کامیابی کا راز

روز نامہ قومی آواز (۲۱ اپریل ۱۹۹۱) میں مسٹر مشتاق احمد، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا کا مراسلہ چھپا ہے۔ اس مراسلے کا ایک حصہ یہ ہے:

 " جس زمانے  میں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم تھا، وہاں کے شعبۂ تاریخ کے کیپٹن افتخار احمد خاں نے اپنی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ سنایا۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ یورپ کے یہودیوں پر عرصہ ٔحیات تنگ ہو چکا تھا۔ وہ جرمنی سے بھگائے گئے تھے۔ افتخار احمد خان صاحب روزانہ یونیورسٹی کیمپس میں دیکھتے تھے کہ طلبہ کا ایک گروہ ہے۔ اس کا انداز دوسرے طلبہ سے مختلف ہے ۔ وہ عام طلبہ سے زیادہ مطالعہ کرتا ہے۔ کھانے کے اوقات میں جلدی سے لنچ کر کے وہ مطالعہ میں یا مطالعہ سے متعلق کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ایک دن انھوں نے طلبہ کے اس خاص گروپ سے سوال کیا کہ وہ لوگ کیوں جنون کی حد تک محنت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک طالب علم نے جواب دیا :دیکھیے، ہم یہودی ہیں۔ ہم کو جرمنی سے جلا وطن کر دیا گیا ہے۔ یہاں ہم اقلیت میں ہیں۔ اس لیے اگر ہمارا حریف خوب ہے تو ہم کو خوب تر ہونا ہے۔ اگر وہ بہت اچھا ہے تو ہم کو اس سے بھی زیادہ اچھا بننا ہے۔

یہودیوں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مد مقابل سے زیادہ محنت کر کے امتیازی حیثیت حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا شیوہ بنالیا۔ محنت کرنے کے لیے ذہنی سکون اوریکسوئی چاہیے۔ اور یکسوئی کے لیے اپنے آپ کو چھوٹے بڑے جھگڑوں سے، احتجاجی کیفیت سے، اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے سے اور نعرہ بازی سے الگ رکھنا پڑتا ہے۔ یہودیوں نے اس حقیقت کو جان لیا کہ جب وہ اقلیت میں ہیں تو ان پر ایک بہت بڑی تاریخی اور سماجی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ اکثریت سے دگنازیادہ محنت کریں (صفحہ ۳)

یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی کا واحد ر از محنت اور دانش مندی ہے۔ خواہ یہودی ہو یا غیر یہودی۔ کوئی عام امت ہو یا خیر امت، ہر ایک کو ایک ہی امتحان میں کھڑا ہونا ہے۔یہاں کسی کے لیے کوئی استثناء نہیں ۔

اس معاملے میں یہودیوں کا احساس اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ خود اپنے اداروں میں بھی اپنے نوجوانوں کو رعایت نہیں دیتے، تاکہ ان کا زیادہ محنت کا جذبہ سرد نہ ہونے پائے۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے امریکہ میں سائنس کی تعلیم حاصل کی ہے اور اب وہیں ایک تعلیمی ادارےمیں کام کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ امریکہ میں آپ کی ملاقات کیا کچھ یہودیوں سے ہوئی ۔ انھوں نے کہا ہاں۔ خود ہمارے ادار ےمیں کئی یہودی کام کر رہے ہیں۔ ہمارا ڈائرکٹر بھی یہودی ہے ۔

میں نے پوچھا کہ کہا جاتا ہے کہ یہودی امریکہ میں بہت کامیاب ہیں جب کہ وہ وہاں کی بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ ان کی اس غیر معمولی کامیابی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک لفظ میں اس کا راز امتیاز (Excellence) ہے۔ انھوں نے امتیازی لیاقت کو اپنا نشانہ بنایا ہے، اور جب امتیازی لیاقت کا درجہ آجائے تو کوئی بھی آپ کی کامیابی کو روک نہیں سکتا ۔

انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں یہودیوں نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، ان میں انھوں نے بڑا عجیب اصول رائج کیا ہے۔ ان کے تعلیمی اداروں میں غیر یہودی طالب علموں کو اسکالر شپ کا مستحق بننے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ امتحان میں ۴۰ فی صد نمبر حاصل کریں۔ مگر یہودیوں کے لیے ان کا معیار بے حد سخت ہے ۔ یہودی طالب علموں کو اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے ۷۵ فی صد نمبرلانا ضروری ہے۔ اگر ان کے نمبر۷۵فی صد سے کم ہوں تو ان کو اسکالرشپ (وظیفہ)نہیں دیا جائے گا۔

یہودی خود اپنے اداروں میں ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل بظاہر سختی معلوم ہوتا ہے۔ مگر وہ سختی نہیں بلکہ سب سے بڑی ہمدردی ہے۔ اس طرح وہ اپنے نو جوانوں میں محنت کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے نوجوانوں میں یہ حوصلہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر ان سے آگے نکل جائیں ۔

موجودہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ یہاں جو لوگ رعایت کے طالب ہوں ان کو صرف پچھلی سیٹوں پر جگہ ملتی ہے، اور جو لوگ امتیازی لیاقت کا ثبوت دیں وہ اگلی سیٹوں پر جگہ پانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom