کمزور کڑی

زندگی ایک نازک امتحان ہے ۔ زندگی کار از کسی نے تمثیل کے انداز میں ان مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے کہ کسی زنجیر کی طاقت اس کی اس کڑی سے جانچی جاتی ہے جو زنجیر کی سب سے کمزور کڑی ہو :

The strength of the chain is tested through its weakest link.

کسی زنجیر میں ایک سوکڑیاں ہوں ۔ اس کی ۹۹ کڑیاں مضبوط ہوں ۔ صرف ایک کڑی کمزور ہو۔ ایسی زنجیر جب استعمال کی جائے گی تو وہ ۹۹ کڑیوں کی مضبوطی کے باوجود ٹوٹ جائے گی ۔ اور اس کے ٹوٹنے کا سبب وہی ایک کڑی ہوگی جس کو مضبوط نہیں بنایا گیا تھا۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال اسی قسم کی زنجیر جیسا ہو رہا ہے۔ پچھلے سو برس کے اندر مسلمانوں کے درمیان بے شمار ر ہنما اٹھے ۔ انھوں نے مسلمانوں کو مختلف حیثیتوں سے تیار کرنے کی کوشش کی ۔ مثلاً–––¬ فخر ماضی، قومی تشخص، جذبۂ ملی، جوش جہاد، شوق شہادت، ولولۂ انقلاب، وغیرہ ۔ مگر ایک کام ایسا تھا جو سرے سے انجام نہیں دیا گیا۔ یہ کام تھا، مسلمانوں کو باشعور بنانا۔

 با شعور بنانا کیا ہے ۔ باشعور بنانا یہ ہے کہ آدمی کو زندگی کی سائنس بتائی جائے ۔ اس کو فطرت کے ان قوانین سے باخبر کیا جائے جن کی رعایت کرتے ہوئے اس کو دنیا میں زندگی گزارنا ہے ۔ اس کو ان حقائق حیات کا علم دیا جائے جن کے بغیر موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔ بے شعور آدمی صرف اپنے آپ کو جانتا ہے، باشعور آدمی اپنے ساتھ دوسروں کو بھی جانتا ہے۔ بے شعور آدمی جذ باتی ردعمل کے تحت کام کرتا ہے، باشعور آدمی عقلی فیصلہ کے تحت عمل کرتا ہے، بے شعور آدمی کا طریقہ غیر منظم ہنگامہ آرائی کا ہوتا ہے، باشعور آدمی کا طریقہ منصوبہ بندا قدام کا۔

موجودہ صدی مسلم دنیا میں تحریکوں کی صدی ہے۔ اس زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بے شمار تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں نے سب کچھ کیا مگر وہی ایک ضروری کام نہیں کیا جس کو تعمیر ِشعور کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی یہ بے شعوری ان کی مضبوط زنجیر کی کمزور کڑی ثابت ہوئی ۔ جو کچھ انھوں نے دوسرے اعتبار سے بظاہر پایا تھا، وہ عین اسی کمزور کڑی کے مقام پر انھوں نے کھو دیا۔

اس کی ایک مثال ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ یہ فسادات کوئی استثنائی چیز نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر سماج میں وہ اسباب موجود رہتے ہیں جن کو اگر بڑھنے کا موقع دیا جائے تو وہ خوں ریز فساد کی صورت اختیار کر لیں گے۔

ان حالات میں وہی کرنا چاہیے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :ان الفتنة نائمة لعن الله من أيقظھا۔ (التدوين في تاريخ قزوين:ج 1:ص 297)یعنی اسباب فساد کو خوابیدہ حالت میں پڑا رہنے دیا جائے۔ اس کی نوبت نہ آنے دی جائے کہ اسباب فساد بڑھ کر واقعۂ فساد کی صورت اختیار کر لیں۔ انسانی سماج سے فساد کے امکان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ حسن تدبیر کے ذریعہ ایسا کیا جاسکتا ہے کہ امکان کو واقعہ بننے سے روک دیا جائے۔ تاہم یہ ایک شعوری عمل ہے۔ مسلمان چوں کہ اس معاملے میں شعور سے بہرہ مند نہ تھے، اس لیے  وہ فساد کے خلاف تدبیر کا انداز بھی اختیار نہ کر سکے۔

کسی بستی کے مسلمانوں کو یہ خبر ملتی ہے کہ فریق ثانی ان کے خلاف سازش یا اشتعال انگیزی کر رہا ہے۔ اس قسم کی خبر سننے کے بعد مسلمانوں کے اندر فوری طور پر جور دعمل ہوتا ہے وہ صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے مقابلے  کے لیے  اقدام۔ اس معاملے میں ان کی بے شعوری اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ہزاروں بار کے ناکام تجربے کے باوجود اب تک وہ اپنے اس طریق کار پر نظر ثانی نہ کرسکے ۔یہی تمام فسادات کا خلاصہ ہے۔

 اس وقت سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ شعور دیا جائے کہ ایسے مواقع پر صحیح طریق کار یہ ہے کہ وہ مقابلے  کے ذہن سے نہ سوچیں بلکہ تدبیر کے ذہن سے سوچیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہی طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ اور عقل بھی اسی کی صحت کی تصدیق کرتی ہے۔

 مسلمانوں کے اندر اگر یہ شعور پیدا ہو جائے کہ اس قسم کی خبر سننے کے بعد وہ مقابلے  کے انداز میں سوچنے کے بجائے حکیمانہ تدبیر کے انداز میں سوچیں تو فسادات کا مسئلہ اس طرح ختم ہو جائے گا جیسےکہ اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

 زندگی میں اختلاف اور نزاع کی صورت لازمی طور پر پیش آتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ آدمی اگر با شعور ہو تو وہ معاملے کو خوش تدبیری کے ذریعہ حل کرے گا۔ اور اگر آدمی با شعور نہ ہو تو وہ جوش اور ردعمل کا مظاہرہ کرے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شکایت کا ایک معمولی واقعہ بڑھ کر بربادی اور ہلاکت تک پہنچ جائے گا۔ اس کو تقابلی طور پر سمجھنے کے لیے  کچھ متعین مثال لیجیے۔

پہلی مثال

محمد نعیم صاحب (پیدائش ۱۹۶۲) راجستهان (گنگا پور)کے رہنے والے ہیں۔ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ ۱۲۸ اپریل ۱۹۹۱ کو دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے کو ٹہ کے فساد (اکتوبر ۱۹۸۸) کی تفصیلات بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ کوٹہ میں ہندوؤں کی طرف سے گنیش چتر تھی کا جلوس نکالا گیا تھا۔ وہ نعرہ لگاتا ہوا گھنٹہ گھر کے علاقے میں پہنچا۔ یہ مسلم علاقہ ہے ۔ یہاں وہ اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے مثلاً ہندستان میں رہنا ہوگا، بندے ماترم کہنا ہو گا۔ اب کچھ مسلمان سٹرک پر نکل آئے اور ان کو نعرہ بازی سے روکنا چاہا ۔ مگر وہ لوگ نہیں رکے۔ اس کے بعد مزید جھڑپ ہوئی۔ یہاں تک کہ ٹکراؤ کی نوبت آگئی اور پھر باقاعدہ فساد شروع ہو گیا۔ پندرہ مسلمان اس میں مارے گئے اور کر وروں روپے کی جائدادیں جلا دی گئیں۔

 اس کے بعد انھوں اس کے برعکس ایک مثال بتائی ۔ انھوں نے کہا کہ کوٹہ کے فساد سے ایک دن پہلے اسی راجستھان کے مقام بارہ میں ہندوؤں نے اسی طرح گنیش چتر تھی کا جلوس نکالا۔ یہ جلوس چلتا ہوا مانگرول دروازہ پہنچا۔وہاں ایک مسجد کے سامنے خوب زور زور سے نعرہ لگانے لگا۔ یہاں بھی وہی نعرہ تھا کہ :ہندستان میں رہنا ہوگا، بندے ماترم کہنا ہو گا۔ مسجد میں نیچے دکانیں ہیں، اوپر مسجد ہے ۔ یہاں چھت پر مسلم نوجوانوں کی ایک تعداد جمع ہو گئی ۔ وہ لوگ نعرہ کو سن کر غصہ میں تھے اور جلوس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے۔ محمد نعیم صاحب ایک جماعت کے ساتھ بارہ گئے تھے اور اس وقت مانگرول کی اسی مسجد میں اپنے دس ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے۔ محمد نعیم صاحب فور اًمسلم نوجوانوں کے پاس آئے جو اس وقت جوش میں بھرے ہوئے تھے ۔ ان کو مسجد کے اندر لے گئے ۔ ان سے کہا کہ آپ غصہ کیوں ہو رہے ہیں۔ ان کا نعرہ لفظ ہی تو ہے ۔ وہ کوئی پتھر یا تیر تونہیں جوآپ کے جسم کو لگ رہا ہو ۔ پھر ان لوگوں کو صحا بہ کے واقعات سنائے کہ انھوں نے کس طرح صبر کیا ۔ اس طرح آدھ گھنٹے تک انھوں نے مسلم نوجوانوں کو روکے رکھا یہاں تک کہ جلوس چلا گیا ۔

 ایک ہی واقعہ ایک جگہ فساد بن جاتا ہے اور دوسری جگہ فساد نہیں بنتا۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ایک جگہ مسلمانوں نے بے صبری کی، اور دوسری جگہ انھوں نے صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کیا ۔ ایک جگہ انھوں نے بم پربم مارا، اور دوسری جگہ انھوں نے بم کو ڈیفیوز کر دیا۔

دوسری مثال

یہ الور (راجستھان) کا واقعہ ہے جس کو مولانا محمد حنیف صاحب نے دہلی میں دسمبر ۱۹۹۰ میں مجھے بتایا۔ الور کے کچھ فرقہ پرست ہندوؤں نے یہ سازش کی کہ الور میں فساد کیا جائے اور مسلمانوں کو لوٹا اورجلایا جائے۔ یہ واقعہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۰ سے کچھ پہلے کا ہے۔

 اسی زمانے  میں انھوں نے ایک مقامی ہندی اخبار میں ایک بناوٹی خبر چھپوائی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ خان پور کے علاقے کے میو وہاں کے ہندوؤں کو دھمکی دے رہے ہیں کہ ۳۰ اکتوبر کو اگر بابری مسجد کو نقصان پہنچا تو ہم تم لوگوں کو ذبح کر دیں گے۔ اس دھمکی کی وجہ سے اس علاقے کے ہندو بھاگ رہے ہیں، حتی کہ ایک ہندو کا نام دے کر کہا گیا کہ فلاں ہندو اسی بنا پر وہاں سے بھاگ کر باہر چلاگیا ہے ۔ یہ مسلمان مسجدوں میں ہتھیار جمع کر رہے ہیں۔

یہ خبرہندی اخبار میں چھپی تو الور میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ کچھ ہندو لڑکوں نے مظاہرہ کیا۔ اندیشہ ہوا کہ الور میں فساد ہو جائے گا۔

اب ایک صورت یہ تھی کہ الور کے مسلمان "مقابلے " کے انداز میں سوچتے ۔ وہ ہتھیار جمع کرنے میں لگ جاتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بجائے کچھ سمجھ دار مسلمان الور کے دوسرے کئی ہندی اخباروں کے ذمہ داروں سے ملے ۔ انھوں نے بتایا کہ فلاں اخبار جھوٹی خبریں چھاپ کر شہر میں فساد کا ماحول پیدا کر رہا ہے، اخبار والوں نے کہا کہ آپ تردید لکھ کر دے دیجیے، ہم اس کو اپنے اخبار میں چھاپ دیں گے۔ مگر یہ مسلمان اس راز کو سمجھتے تھے کہ صرف مسلمان کی تردید اس فضا کو ختم کرنے کے لیے  کافی نہیں۔ چناں چہ  انھوں نے اصرار کیا کہ آپ خود اپنے اسٹاف کے کچھ لوگوں کو موقع پر بھیج کر براہ راست اس کی تحقیق کرائیں۔ وہ لوگ راضی ہو گئے۔ چناں چہ  مسلمانوں نے دو گاڑیوں کا انتظام کیا اور تین ہندی اخباروں کے نمائندوں کو ساتھ لے کر خان پور کے علاقے میں گئے۔

وہاں انھوں نے تفصیل کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں سے ملے ۔ ان مسجدوں میں گئے جن کی بابت مذکورہ ہندی اخبار نے کہا تھا کہ وہاں ہتھیار جمع کیے جارہے ہیں۔ وہ اس ہندو کے گھر بھی گئے جس کی بابت خبر میں بتایا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی دھمکی سے خوف زدہ ہو کر اپنے گھر سے بھاگ گیا ہے۔ انھوں نے اس آدمی کے بھائی سے ملاقات کی۔ بھائی نے بتایا کہ دھمکی کی بات بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ اس وقت باہر چلا گیا ہے مگر اس کا یہ سفر عارضی طور پر ایک ذاتی سبب کی بنا پر ہے نہ کہ کسی قسم کی دھمکی کی بنا پر۔

ہندی اخباروں کی اس پارٹی نے اپنی ذاتی تحقیق میں یہ پایا کہ مذکورہ خبر سراسر بے بنیاد اور گھڑی ہوئی تھی ۔ اس کا کوئی جز ء بھی سچائی پر مبنی نہ تھا۔ اس کے بعد ان اخباروں کے ہند و نامہ نگاروں نے مفصل رپورٹ مرتب کی اور اس کو اپنے اخباروں میں شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم لوگ خود خان پور کے علاقے میں گئے اور وہاں ذاتی طور پر تمام باتوں کی تحقیق کی اور ہم نے پایا کہ یہ خبر سراسر غلط ہے۔ اس کے بعد تناؤ اور فساد کا ماحول اپنے آپ ختم ہو گیا۔

 اب اس کے برعکس مثال لیجیے۔ یہ مثال کا نپور سے تعلق رکھتی ہے۔ ۱۷ جنوری ۱۹۹۱ کو میری ملاقات جناب نیا ز احمد کانپوری (213169Tel) سے ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ یوپی میں ہندی کے دو اخبار ہیں، دینک جاگرن، دینک آج ۔ ان اخباروں میں با ہم مقابلہ جاری رہتا ہے ۔ وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کوئی سنسنی خیز خبرنکالیں اور اس کو بڑھا چڑھا کر چھا پیں تاکہ ان کا اخبار زیادہ بک سکے۔

 دینک جاگرن نے "۳۰ اکتو بر ۱۹۹۰ " سے کچھ پہلے یہ خبر چھاپی کہ کانپور کے مسلمان ہتھیار جمع کر رہے ہیں۔ مسلمان ہندوؤں کے خلاف فساد کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں فرضی طور پر کچھ مسلم محلوں بابوپروہ، چمن گنج، فیتھ فل گنج وغیرہ کا نام بھی چھاپ دیا۔ اس کے فوراً بعد مسلمانوں نے یہ کیا کہ احتجاجی طور پر دینک جاگرن کی کاپیاں لے کر کئی روز تک ان کو سڑکوں پر جلاتے رہے۔ مسلم ہوٹلوں میں دینک جاگرن کا بائیکاٹ کیا گیا، وغیرہ ۔

اس سلسلے میں دو طرفہ طور پر مختلف قصے ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ نام نہاد انصاف پارٹی کے ایک مقامی لیڈر کے کہنے پر مسلمانوں نے " کا نپور بند" کی کال دی۔ ۸ دسمبر کو کانپور کے مسلمانوں کی دکانیں بند کرائی گئیں۔ مسلم نوجوانوں نے جلوس نکالے ۔ بعض محلوں میں دکانیں بند کر وانے کے سلسلےمیں جھڑ پیں ہوئیں۔ جلوس کے لوگ تشدد پر اتر آئے ۔ اس کے بعد پولیس آئی ۔ پولیس نے ہوائی فائر کیا۔ اس کے نتیجے میں بھگڈر مچی اور کچھ مسلمانوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔ بعد کو جب مسلمان چھوڑے گئے تو مسلمانوں نے دوبارہ جلوس نکالا۔ اس جلوس کے دوران ایک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں ٹکراؤ ہو گیا ۔ پولیس اور مسلمانوں کے درمیان باقاعدہ لڑائی ہوئی۔ مسلمان اپنی چھتوں پر چڑھ کر پولیس کے خلاف پتھراور بم وغیرہ آزادانہ استعمال کرتے رہے۔ یہ واقعہ۱۱دسمبر ۱۹۹۰ کا ہے۔

یہ فساد تین دن تک باقاعدہ جاری رہا۔ جناب نیاز احمد صاحب کے بیان کے مطابق ۲۱مسلمان مارے گئے۔ ۱۰۹ دکانوں اور مکانوں کو جلا دیا گیا۔ وغیرہ۔

وہی واقعہ جو الور میں خوش تدبیری کے نتیجے میں ایک قطرہ خون بہائے بغیر ختم ہوگیا وہی واقعہ کانپور میں جان ومال کی تباہی کا سبب بن گیا۔ اور اس کے نتیجے  میں نفرت اور تعصب کا جوز ہر مقامی طور پر پھیلا اور پریس کے ذریعہ پورے ملک کے لوگوں کے دلوں میں داخل ہوا، وہ اس کے علاوہ ہے۔

 یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ مختلف عنوان سے ایک اور دوسرے کے در میان نزاع اور کش مکش کی صورتیں پیدا ہوں۔ ایسا ایک خاندان کے افراد کے درمیان بھی ہوگا اور ملک کے مختلف فرقوں کے درمیان بھی۔ ایسے واقعات ایک قومی سماج میں بھی پیش آئیں گے اور دوقومی سماج میں بھی ۔

 ایسی حالت میں جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہر ناخوش گوار واقعہ پر جھنجھلا کر لڑنے لگیں تو وہ صرف اپنی ناکامی کا گڑھا کھو دیں گے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ردعمل کے بجائے حکیمانہ عمل کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ آگ کو بھڑکانے کے بجائے آگ کو بجھانے کی تدبیر کی جائے ۔ فساد کے بم پر بم نہ ماراجائے، بلکہ فساد کے بم کو خوش تدبیری سے ڈیفیوز (ناکارہ) کر دیا جائے۔

 اس طرح کے معاملات کا یہی ایک واحد حل ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ فساد میں اضافے کے سوا کسی اور انجام تک پہنچنے والا نہیں۔ آج سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو باشعور بنایا جائے۔ یہ مسئلہ بے شعوری کے سبب سے پیدا ہوا ہے اور مسلمانوں کو باشعور بنا کر اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom