ہندستانی مسلمان

پونہ کے تعلیم یافتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی طرف سے مجھے دعوت دی گئی کہ میں ۶ نومبر ۱۹۹۱ کو ان کے ایک مشترکہ اجتماع سے خطاب کروں۔ تقریر کا موضوع جو ان کی طرف سے دیا گیا وہ تھا:مسلمان آزادی کے بعد کے ہندستان میں

(Muslims in post-independent India)

مجھے خاص طور پر دو پہلوؤں سے مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لینا تھا۔ معاشی اور مذ ہبی۔ اپنی عادت کے مطابق، میں نے خالص واقعاتی انداز میں اس موضوع کی تحقیق شروع کر دی۔ مطالعہ اور تحقیق کے بعد مجھ پر ایک نئی حقیقت کا انکشاف ہوا ۔ وہ یہ کہ عام خیال کے برعکس، ہندستان میں آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلمانوں کی حالت پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے۔ میں نےجس مسلمان کا بھی جائزہ لیا اور جس مسلم بستی کے بارےمیں بھی تحقیق کی، تقریباً بلا اختلاف ہر ایک کو پایا کہ اس کی موجودہ حالت اس کی سابقہ حالت سے واضح طور پر بہتر ہے۔

یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کے کچھ مسائل ہیں۔ انھیں کچھ مشکلات درپیش ہیں۔ مگرکسی گروہ کی حالت کو جانچنے کے لیے  یہ کوئی صحیح معیار نہیں کہ وہ مشکلات و مسائل سے خالی ہو۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس دنیا کے لیے  خدا کاقانون یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ عسر اور یسر دونوں موجود رہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی کی جدو جہد ہی سرے سے ختم ہو جائے گی ۔ اور جس سماج سے زندگی کی جد و جہد ختم ہو جائے وہاں زندہ انسانوں کا باغ نہیں اگتا، بلکہ مردہ انسانوں کا قبرستان وجودمیں آتا ہے۔

 ایسی حالت میں مسلمانوں کے معاملے کو کسی خود ساختہ معیار سے جانچا نہیں جاسکتا۔ ان کے معیار کو لازمی طور پر ممکن معیار سے جانچنا ہوگا نہ کہ کسی خیالی معیار سے۔

 میں نے اپنی تحقیق میں یہ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اخباروں اور رسائل میں اس موضوع پر جومضامین چھپے ہیں یا چھپ رہے ہیں ان پر اعتماد کر لوں۔ بلکہ میں نے آزادانہ طورپر خود اپنی واقفیت کے تحت اس کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ میری تلاش مجھے اس کے بالکل برعکس نتیجے تک لے گئی جو عام طور پر ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں ایک مسلمہ کے طور پر دہرائی جاتی رہی ہے۔

میں نے سب سے پہلے مسٹر اور مولوی طبقے میں ان افراد کو دیکھا جو موجودہ زمانے  میں مسلمانوں کے نمائندہ سمجھےجاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کو میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر جانتا ہوں۔

میں نے پایا کہ ان میں سے ایک ایک شخص ۱۹۴۷ سے پہلے کے مقابلے  میں آج زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ خواہ کوئی باریش قائد ہو یا بے ریش قائد، دونوں بلا استثناءپہلے سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

 پھر میں نے اپنے وسیع خاندان کو اور اپنے رشتہ داروں کو دیکھا۔ دوبارہ میں نے پایا کہ یہ تمام لوگ پہلے سے بہت بہتر حالت کے مالک ہیں۔ اس کے بعد میں نے ان شہروں اور بستیوں کے مسلمانوں پر غور کیا جہاں میں کم یا زیادہ مدت تک رہا ہوں یا جہاں میں جاتا رہتا ہوں۔ ان کے بارے میں بھی تقریباً بلا استثنا ءمیرا مشاہدہ یہ تھا کہ وہ قبل از آزادی کے دور کے مقابلے  میں بعد از آزادی کے دور میں زیادہ بہتر حالت میں نظر آتے ہیں۔

کئی ہفتے تک میں اس موضوع سے تعلق رکھنے والے حقائق کا جائزہ لیتا رہا۔ آخر کار میرے ذہن نے فیصلہ کر دیا کہ ۱۹۴۷ کے بعد کے دور میں مسلمانوں نے واضح طور پر اس ملک میں ترقی کی ہے۔

آج وہ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ اس تحقیق کے دوران میں ایک مسلمان سے ملاقات کے لیے  گیا۔ وہ ایک گاؤں میں ایک کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے تعلیم حاصل کی اور گزیٹڈ افسر ہو گئے۔ چند سال پہلے اکثران سے میری ملاقات ہوتی تھی ۔ ہر ملاقات میں وہ یہ شکایت کرتے تھے کہ یہاں بہت زیادہ تعصب ہے۔ یہاں مسلمانوں کے لیے  ترقی کے مواقع نہیں۔ مجھ کو دیکھیے، میں کئی سال سے اس محکمہ میں افسر ہوں۔ مگر میری مزید ترقی رکی ہوئی ہے۔ ہندولابی مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔

تین سال کے وقفہ کے بعد میں پتے کے مطابق، ان کے مکان پر ان سے ملنے کے لیے  گیا۔ پہلے وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اب میں نے دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑے بنگلہ میں ہیں۔ پہریدار اور ملازم لگے ہوئے ہیں۔ بنگلہ کے چاروں طرف تقریباً ۱۰ایکڑ زمین ہے جس میں ہرے بھرے درخت بنگلہ کی شان کو بڑھا رہے ہیں۔ وہاں انھوں نے کئی قسم کی فصل بھی اگا رکھی ہے۔ معلوم ہوا کہ پچھلے دو سال سے وہ ترقی کر کے ایک بڑے عہدہ پر پہنچ چکے ہیں اور عہدہ کی نسبت سے یہ بنگلہ انھیں قیام کے لیے  دیا گیا ہے۔

میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک موصوف کے پاس رہا۔ اس پوری مدت میں وہ پر فخر طور پر صرف اپنے بنگلہ، اپنے عہدہ اور اپنے ساز و سامان کا تذکرہ کرتے رہے۔ چند سال پہلے ہر ملاقات میں وہ اکثریتی فرقہ کے تعصب کا ذکر کیا کرتے تھے۔ موجودہ ملاقات میں وہ صرف اپنی بڑائی کا چر چا کرتے رہے۔

اس تجربے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ وہ اصل کمی کیا ہے جو لوگوں کو ملک کی حقیقی صورت حال سے بے خبر کیے ہوئے ہے۔ وہ دراصل اعترافِ حقیقت کا فقدان ہے۔ ایک شخص کو کوئی برائی پہنچے تو وہ حقیقت حیات کے سبب سے پہنچتی ہے ۔ مگر اس کو وہ ہند و تعصب کے خانے میں ڈال کر شکایت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اگر ایک شخص کو کوئی بہتری ملے تو وہ اللہ کا انعام ہوتا ہے جو شکر کا طالب ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو ذاتی کارنامہ سمجھ کر فخروناز میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس طرح آدمی دونوں صورت کو اس کے حقیقی زاویہ سے دیکھنے سے محروم رہتا ہے۔ وہ نہ ملے ہوئے کا خوب چرچا کرتا ہے، مگر ملے ہوئے سے دوسروں کو آگاہ نہیں کرتا ۔

سروسوں کا مسئلہ

ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی کو بتانے کے لیے  عام طور پر جو چیز پیش کی جاتی ہے وہ سرکاری ملازمتوں کا معاملہ ہے۔ دہلی سے مسلمانوں کا ایک انگریزی ماہنامہ نکلتا ہے۔ وہ اپنے تقریباً ہراشو میں ایسے اعداد و شمار چھاپتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان کس طرح سرکاری ملازمتوں میں اپنے عددی تناسب سے کم حصہ پائے ہوئے ہیں۔ دوسرے مسلم اخبارات ورسائل بھی عام طور پر اسی پہلو کو اپنے دعوے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا مشترک طور پر یہ کہنا ہے کہ مسلمان اس ملک کی سرکاری ملازمتوں میں دو فیصد سے زیادہ نہیں، جب کہ آبادی کی نسبت سے ان کی تعداد اس سے زیادہ ہونی چاہیے۔

مگر اعداد و شمار کی یہ منطق درست نہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمان کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں۔ جب کہ انھیں اداروں کی ڈگریاں سروسوں کے لیے  فیصلہ کی اصل بنیاد ہوتی ہیں۔ پھر جو گروہ سروسوں کے لیے  مطلوبہ لیاقت میں دوسروں سے پیچھے ہو وہ ان سروسوں میں دوسروں کے برابر کس طرح حصہ پاسکتا ہے۔

مردم شماری کے مطابق، مسلمان اس ملک کی آبادی کا تقریباً بارہ فیصد حصہ ہیں۔ اس تعداد میں تقریباً نصف کے برابر عور تیں شامل ہیں۔ اپنی سماجی روایات کے مطابق، مسلمان اس کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے گھروں کی خواتین سرکاری دفتروں میں جاکر کام کریں۔ اس طرح خود مسلمانوں کے اپنے نظریہ کے مطابق، ان کی آبادی کا نصف حصہ سرکاری ملازمتوں کی فہرست سے حذف قرار پا جاتا ہے۔ اب بقیہ چھ فیصد میں اگر تین فیصد کو تعلیم کی کمی کی بنا پر حذف کر دیا جائے تو اس کے بعد دو فیصد کا موجودہ تناسب بہت زیادہ غلط نظر نہیں آئے گا۔

اس سے قطع نظر، جہاں تک مادی خوش حالی کا تعلق ہے۔ سرکاری ملازمت کے شعبہ کو اس کے لیے معیار (کرائیٹرین) کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ۔ اس کی کم از کم دو متعین و جہیں ہیں۔ ایک یہ کہ سرکاری ملاز مت کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے اور حکومت پر قابض افراد ہمیشہ ملازمتوں کی تقسیم میں اپنے سیاسی مفاد کا لحاظ کرتے ہیں۔ حتی کہ یہ حکام اگر مخلص ہوں، تب بھی مختلف ملکی اور بین اقوامی مصالح کی بنا پر انھیں سرکار ی  ملازمتوں کے سلسلے میں ایسی پالیسی اختیار کرنی پڑتی ہے جس میں فیصلہ کی بنیاد آبادی میں مختلف فرقوں کا عد دی تناسب نہیں ہوتا بلکہ وسیع تر مقاصد کی رعایت ہوتی ہے۔ اس بنا پر یہ صورت حال ہر سماج اور ہر حکومتی نظام میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

 مثال کے طور پر پاکستان کے سندھی مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ مرکزی حکومت کی سروسوں میں پنجابی مسلمان اپنے عددی تناسب سے بہت زیادہ حصہ پر قابض ہیں اور سندھی مسلمانوں کو ان کے عددی تناسب سے بہت کم حصہ ملا ہے۔ عراق میں بیشتر اعلیٰ سرکاری ملازمتیں صدر صدام حسین کے قبیلے کے افراد کو حاصل ہیں۔ ایران میں اعلیٰ سرکاری مناصب زیادہ تر شیعہ فرقے کے افراد کو دیے جاتے ہیں۔ سنی فرقے کے افراد اس سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ لیبیا میں بیشتر حکومتی عہدے قذافی کی پارٹی کے لوگوں کے پاس ہیں۔ دوسرے لوگوں کو حکومتی عہدوں میں بہت کم حصہ ملاہے۔ یہی حالت بلا استثنا ءتمام مسلم  ملکوں میں کسی ایک یا دوسرے اعتبار سے پائی جاتی ہے ۔

 انڈیا میں بھی یہ فرق مختلف سطحوں پر موجود ہے۔ مگر یہ فرق صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ ہندوؤں اور ہندوؤں کے درمیان بھی ہے۔ مثال کے طور پر اعلی سرکاری ملازمتوں میں برہمن فرقہ کا تناسب دوسرے ہندو فرقوں سے زیادہ ہے۔ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ ہندی تعلیم یافتہ طبقہ کے مقابلے  میں زیادہ سرکاری عہدوں پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ یہی فرق مسلمانوں کی نسبت سے بھی بعض اسباب کی بنا پر پایا جاتا ہے۔ یہ عمومی طور پر ہر ایک کا مسئلہ ہے نہ کہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ۔

دوسرے یہ کہ سرکاری ملازمتوں کا تعلق ملکی انتظام(administrative) سے زیادہ اورمعاش سے بہت کم ہے ۔ سرکاری ملازمت کا حصہ معاشی تقسیم کے نظام میں چند فیصد سے زیادہ نہیں۔حصول معاش کا میدان ایک بے حد وسیع میدان ہے۔ کسی گروہ کو اگر سرکاری ملازمتوں میں کم حصہ ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشی تقسیم میں بھی اس کا حصہ کم ہو گا۔ سرکاری ملازمت کے باہر بہت سے شعبے پھر بھی اس کے لیے  کھلے رہتے ہیں اور عین ممکن ہے ان دوسرے شعبوں میں عمل کر کے وہ اس سے بہت زیادہ پالے جتنا اس کو سرکاری ملازمت میں شرکت کے ذریعہ حاصل ہوتا۔

 اس اصول کے حق میں بہت سی تاریخی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس کی ایک قریبی مثال آزادی سے پہلے ریاست حیدر آباد کا معاملہ ہے۔ آزادی سے پہلے ریاست حیدر آباد میں سرکاری ملازمتیں زیادہ تر مسلمانوں کو دی جاتی تھیں۔ ہندوؤں کا حصہ سرکاری ملازمت کے شعبہ میں بہت کم تھا۔ اس کے باوجود ریاست حیدر آباد کے ہندو معاش کے شعبوں میں ریاست کے مسلمانوں سے بدرجہا زیادہ بہتر تھے۔ کیوں کہ وہاں کے ہند وریاست کی بیشتر تجار توں پر قابض ہو گئے تھے۔ انھوں نے تجارت کے ذریعہ اس سے زیادہ معاشی فائدہ حاصل کر لیا جتنا انھوں نے سرکاری ملازمت کے شعبہ میں کھویا تھا۔

مذکورہ اسباب کی بنا پر میرا یہ کہنا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی معاشی حالت کو جانچنے کے لیے  ہمیں ان کی واقعی معاشی حالت کو دیکھنا چاہیے نہ کہ سروسوں میں ان کے عددی تناسب کو ۔ سر کاری سروسوں میں تناسب کو اس معاملے میں نمائندگی کا درجہ حاصل نہیں۔

مادی کامیابی

میں اتر پردیش کا رہنے والا ہوں۔ ہمارے خاندان کی ایک شادی کی تقریب ۱۹۸۷ میں بمبئی میں ہوئی۔ اس تقریب میں خاندان کے پچاس سے زیادہ آدمی شریک ہوئے۔ یہ سب کے سب بنارس سے، ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کر کے بمبئی پہنچے تھے۔ میں بھی انھیں میں سے ایک تھا۔ ہم لوگ بمبئی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرائے گئے۔

 اس قیام کے دوران ایک بار میرے ایک عزیز میرے ہوٹل کے کمرہ میں آئے ۔ ان کے ہاتھ میں بمبئی کے ایک صاحب خالد لطیف گابا(۱۹۸۱- ۱۸۹۹) کی ۳۹۰ صفحہ کی ایک کتاب تھی۔ اس کتاب کا نام منفعل آوازیں (Passive Voices) ہے اور وہ پہلی بار ۱۹۷۵ میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کے بارے میں ہے۔ کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ مصنف کے نزدیک ہندستانی مسلمان سراسر مظلومی کی حالت میں ہیں۔ انھوں نے کتاب کے نام کی توجیہہ کرتے ہوئے کتاب کے دیباچہ میں یہ الفاظ لکھے ہیں:

It would be difficult to sum up the status and conditions of Muslims in India better in two words than ‘Passive Voices.’

میرے مذکورہ عزیز نے کتاب کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے ہندستانی مسلمانوں کی مظلومیت بیان کرناشروع کیا۔ میں نے کہا کہ میری رائے آپ کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔ میرے نزدیک ہندستان کے مسلمان آزادی کے بعد پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ موجودہ مسلمانوں کا کیس مظلومیت کا کیس نہیں ہے بلکہ ترقی کا کیس ہے۔

 میرے عزیز تعجب کے ساتھ میری طرف دیکھنے لگے ۔ میں نے کہا کہ آپ کو تعجب اس لیے  ہو رہا ہے کہ آپ مسلمانوں کی حالت کو اخباروں میں پڑھتے ہیں ۔ خود مسلمانوں کو دیکھ کر مسلمانوں کی حالت کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتے۔ اور ہمارے اخبارات سب کے سب زرد صحافت(yellow journalism) کے اصول پر چلائے جارہے ہیں۔ وہ پوری صورت حال کو جیسا ہے ویسا بیان نہیں کرتے ۔ بلکہ صرف بعض سنسنی خیز پہلو کو لے کر ان کو نمایاں کرتے رہتے ہیں۔

 میں نے کہا کہ آپ خود اپنے آپ کو دیکھیے ۔ آج آپ کی جو معاشی اور سماجی حالت ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو ۱۹۴۷ کے انقلاب کے وقت آپ کی معاشی اور سماجی حالت تھی۔ آج آپ کوٹھی اور کار کے مالک ہیں، حالاں کہ پہلے آپ کے پاس بائیسکل کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

 ۱۹۸۷ میں ہمارے خاندان کے پچاس افراد ہوائی جہاز سے سفر کر کے بمبئی میں تقریبِ نکاح میں شرکت کے لیے  آئے ہیں۔ حالاں کہ میں اور آپ دونوں جانتے ہیں کہ ہمارا خاندان ۱۹۴۷ میں اس پوزیشن میں نہ تھا کہ وہ اتنے اعلیٰ معیار پر شادی کی تقریب کر سکے ۔ ۱۹۴۷ سےپہلے ہمارے وسیع خاندان اور ہمارے تمام رشتہ داروں کے درمیان صرف ایک موٹر کار تھی، آج صرف ہمارے خاندان اور رشتہ داروں کے پاس دو سو سے زیادہ کا ریں موجود ہیں۔ وغیرہ۔

آپ کسی بھی مسلم خاندان کا سروے کیجیے۔ اور پتہ کیجیے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے اس کی سماجی اور اقتصادی حالت کیا تھی اور آج کیا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ تقریباً ہر مسلم خاندان نے نمایاں ترقی کی ہے۔ پہلے اگر وہ بائیسکل والا تھا تو آج وہ کار والا ہے۔ پہلے اگر اس کے پاس چھوٹا مکان تھا تو اب اس کے پاس بڑا مکان ہے۔ پہلے وہ صرف پبلک کال آفس سے ٹیلی فون کر سکتا تھا تو آج اس کے گھر پر خود اپنا ٹیلی فون لگا ہوا ہے۔ پہلے اس کا خاندان صرف محدود مقامی ذرائع پر انحصار کرتا تھا تو آج اس کے خاندان کے کئی افراد باہر کی دنیا میں جاکر بڑی بڑی حیثیت حاصل کیے ہوئےہیں۔ وغیرہ

یہ میں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا ہوں ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تجربہ ہر آدمی اپنے قریبی مسلمانوں کا سروے کر کے معلوم کر سکتا ہے۔ کسی بھی مقام پر جا کر وہاں کے مسلمانوں سے ملیے  اور دریافت کیجیے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے ان کی اقتصادی حالت کیا تھی اور آج کیا ہے۔ آپ پائیں گے کہ تقریباً ہرمسلم خاندان کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو چکی ہے۔

یہاں تک کہ مسلمانوں کے وہ لکھنے اور بولنے والے لوگ جو اس اعلان کے چمپیئن بنے ہوئے ہیں کہ آزادی کے بعد مسلمان اس ملک میں ایک تباہ حال قوم بنا دیے گئے ہیں۔ آپ ان کے ذاتی حالات کا پتہ کیجیے۔ آپ دیکھیے کہ وہ اور ان کی اولاد آج کس حال میں ہیں۔ آپ یقینی طور پر پائیں گے کہ ان میں سےہر شخص پہلے سے سو گنا زیادہ بہتر ہو چکا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان قائدین میں سے کئی افراد کو جانتا ہوں جو ۴۷ ۱۹ سے پہلے ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے تھے آج وہ اور ان کے بچےاسی ملک میں ہر قسم کے مادی ساز و سامان کے ساتھ شاندار زندگی گزار رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ کہنا کہ مسلمان آزادی کے بعد پستی میں ڈال دیے گئے ہیں، ایک قسم کی خلاف زمانہ بات (anachronic statement)ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم صنعتی دور(industrial age)میں ہیں۔ صنعت و تجارت کی ترقی نے کمائی کے بے حساب نئے طریقے پیداکر دیے ہیں۔ موجودہ دور صنعت اور روزگار کے انفجار (explosion)  کا دور ہے۔ اس کے بعد یہ بالکل ناممکن ہو چکا ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کی معاشی ترقی کو روک سکے۔

قدیم زرعی دور میں کسب معاش کے ذرائع بے حد محدود تھے۔ صرف چند سادہ قسم کے کاروبار تھے جن میں مشغول ہو کر کوئی شخص اپنے لیے  مختصر آمدنی کر سکتا تھا۔ مگر صنعتی انقلاب نے کمائی کی صورتوں میں ناقابل بیان حد تک اضافہ کردیا ہے۔آج صنعت و حرفت کی اتنی زیادہ قسمیں ظہور میں آچکی ہیں کہ ملین اور بلین کے الفاظ بھی اس کی تعداد کو بتانے کے لیے  ناکافی ہیں۔

صنعتی انقلاب کے دور میں روزگار کے پھیلاؤ کی بنا پر اب یہ سرے سے ممکن ہی نہیں رہاہے کہ کوئی قوم یا حکومت کسی گروہ کو خوش حال بننے سے روک سکے۔آج کسی شخص یا گروہ کی اپنی بے عملی یا نادانی تو اس کو محروم کرسکتی ہے، مگر کوئی خارجی طاقت اس کو محروم کرنے پرقادرنہیں۔

 ایک تقابلی مثال اس معاملے کو مزید واضح کرتی ہے۔ رومن ایمپائر جو آٹھویں صدی قبل مسیح میں شروع ہو کر پانچویں صدی عیسوی میں ختم ہو گئی اور اس کی مشرقی شاخ (باز نطینی ایمپائر) جو ساتویں صدی عیسوی تک طاقت ور حالت میں باقی رہی، اس سلطنت کے ایک ہزار سال سے زیادہ مدت میں ان کی پالیسی یہ تھی کہ ان کی ماتحت قو میں سائنسی علوم میں ترقی نہ کر سکیں۔ کیوں کہ سائنسی ترقی کو وہ اپنی سلطنت کے لیے  خطرہ سمجھتے تھے۔ رومی حکمراں اپنے اس منصوبے میں کامیاب رہے اور ان کے طویل دور حکومت میں ان کی ماتحت قوموں کی ترقی نہ ہوسکی۔

 اس کے برعکس بیسویں صدی کے وسط میں دوسری عالمی جنگ ہوئی۔ اس کے بعد امریکہ جاپان کے اوپر قابض ہو گیا۔ امریکہ نے بھی چاہا کہ وہ ہمیشہ کے لیے  جاپان کو اپنا محکوم بنائے رہے۔ وہ وہاں ایسی کوئی ترقی نہ ہونے دے جو امریکہ کے لیے  چیلنج کے ہم معنی بن جائے۔ مگر امریکہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ صرف چالیس سال کی مدت میں جاپان ایک صنعتی اور اقتصادی دیو کی صورت میں ظاہر ہو گیا جو امریکہ کے لیے  کمیونسٹ حکومتوں سے بھی زیادہ بڑا خطرہ تھا۔

  اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ رومن ایمپائر کو صنعتی انقلاب سے پہلے کام کرنے کا موقع ملا۔ اور امریکی ایمپائر کو صنعتی انقلاب کے بعد۔ صنعتی انقلاب سے پہلے ذرائع کی محدودیت کسی حکمران کو اس قسم کا موقع دے دیتی تھی کہ وہ ایک قوم کی ترقی کو روک سکے۔ مگر صنعتی انقلاب کے بعد ذرائع کی غیر معمولی کثرت نے اس قسم کے امکان کو آخری حد تک ختم کر دیا ہے۔ آج اگر کوئی حکومت کسی قوم کے اوپر ترقی کے ایک سو،دروازے بند کرے تو وہاں ترقی کے مزید ایک ہزار، دروازے کھلے ہوئے ہوں گے جن سے وہ قوم اپنا راستہ پالے گی اور ترقی کی طرف اپنا سفر شروع کر دے گی ۔ کہیں ایک چھوٹا چشمہ ہو تو اس کے بہاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ مگر پانی جب سیلاب کی صورت اختیار کر لے تو اس کے بعد اس کے طوفان کو روکنا کسی کے لیے  ممکن نہیں رہتا۔

مذہبی حالت

یہ عام معاشی حالت کی بات تھی ۔ اب مذہبی اعتبار سے دیکھیے۔ ستمبر ۱۹۹۱ میں ایک ہفتہ کے لیے  میں لاہور میں تھا۔ وہاں ہر روز صبح کو پہلی آواز جو میرے کان میں آتی تھی وہ مسجد کی اذان کی آواز تھی جو لاؤڈ اسپیکر پر بلند ہو کر پوری فضا میں پھیل جاتی تھی۔ ٹھیک یہی صورت حال انڈیا میں بھی ہے۔ دہلی میں میں نظام الدین کالونی میں رہتا ہوں۔ یہاں ہر روز صبح کے سناٹے کو جو چیز توڑتی ہے وہ دوبارہ اذان کی آواز ہے جو نظام الدین کی مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر پر بلند ہوتی ہے اور کئی کیلومیٹر تک کی فضا اس سے گونج اٹھتی ہے۔ یہی ملک کے تمام شہروں اور قصبوں کا حال ہے۔

لاہور میں بادشاہی مسجد کے اونچے مینار تھے تو بھوپال کی تاج المساجد کے مینار اس سے بھی زیادہ اونچے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا میں تین لاکھ سے زیادہ مسجدیں ہیں، اور ان میں سے بہت سی مسجدیں وہ ہیں جو ۱۹۴۷ کے بعد کے دور میں بنی ہیں، اور مزید توسیع و ترقی تو تقریباً ہر مسجد کی ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں اگر جامعہ اسلامیہ ہے تو دہلی میں حکیم عبد الحمید صاحب کا قائم کر دہ عظیم  اسلامی ادارہ جامعہ ہمدرد ہے جو کسی بھی مسلم ملک کے اس قسم کے ادارے       سے کم نہیں۔ انڈیا میں مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اسی طرح ترقی کر رہے ہیں جس طرح پاکستان میں کوئی اسلامی تعلیمی ادارہ ترقی کر سکتا ہے۔

آج لاکھوں کی تعداد میں سارے ملک میں اسلامی مدرسے پھیلے ہوئے ہیں۔ پرانے مدرسےمثلاً ندوہ اور دیو بند ۱۹۴۷ سے پہلے معمولی مدرسے کی طرح تھے۔ آج وہ اپنی وسعت کے اعتبارسے یونیورسٹی کی مانند نظر آتے ہیں۔ آپ کے پڑوس مالیگاؤں میں ایک نیا بہت بڑا مدرسہ جامعہ محمدیہ کے نام سے قائم ہواہے جو رقبہ اور عمارت کے اعتبار سے قدیم مدارس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ اس طرح سینکڑوں کی تعداد میں بہت بڑے بڑے نئے مدر سے سارے ملک میں قائم کیے گئےہیں۔رام پور میں جامعہ الصالحات کے نام سے مسلم لڑکیوں کا مدرسہ قائم ہوا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتاہے کہ پو ری مسلم دنیا میں وہ مسلم لڑکیوں کا سب سے بڑا مدرسہ ہے ۔ اس طرح مختلف قسم کے اسلامی ادارے ہزاروں کی تعداد میں یہاں قائم ہوئے ہیں اور آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

تبلیغی جماعت مسلمانوں کی ایک مذہبی جماعت ہے۔ اس کا پھیلاؤ ۱۹۴۷ سے پہلے جتنا تھا۔ اس کے مقابلے  میں آج وہ سیکڑوں گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔ دوسری مسلم جماعتوں میں بھی اسی طرح اپنے سرمایہ (asset) اور اپنے پیروؤں کے اعتبار سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا میں آج ہردن مسلمانوں کی بڑی بڑی کانفرنسیں اسلام کے مختلف موضوعات پر ہو رہی ہیں۔ جب کہ پہلے اس قسم کی کانفرنسوں کا انعقاد بہت کم ہوتا تھا۔ اسلامی کتابیں اور اسلامی جرائد آج پہلے سے بھی زیادہ شائع ہو رہے ہیں ۔ وغیرہ

صحافت و قیادت

۱۹۴۷کے بعد انڈیا میں جو بری چیز ظہور میں آئی ہے وہ حقیقۃً مسلمانوں کی مظلومی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی فرضی مظلومی کو بیان کرنے والی صحافت اور قیادت ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کے لیے  اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ اسی نام نہا د صحافت وقیادت کا وجود ہے، اس کے علاوہ یہاں مسلمانوں کے لیے  اور کوئی حقیقی خطرہ نہیں ۔

آج مسلمانوں کی صحافت اور قیادت جن افراد کے ہاتھ میں ہے وہ بدقسمتی سے سطحی قسم کے لوگ ہیں ۔ انھوں نے اپنی صحافت اور قیادت کو کامیاب بنانے کا یہ سستا نسخہ اختیار کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر خطرہ کی نفسیات (fear psychosis) پیدا کر کے ان کا استحصال کریں ۔ چناں چہ   وہ موجودہ ہندستانی سماج سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کچھ برے واقعات نکالتے ہیں اور ان کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کر کے مسلمانوں کو غلط طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ تم ہندوستان میں ظلم و زیادتی کا شکار ہو رہے ہو۔

اس کی ایک مثال بمبئی کا فروری ۱۹۸۹ کا فساد ہے ۔ بمبئی کے کچھ لیڈروں نے مقامی مسلمانوں کو اکسا یا۔ چناں چہ  انھوں نے برطانی شہری سلمان رشدی کی کتاب (The Satanic Verses) کے خلاف بمبئی میں ایک بڑا جلوس نکالا۔ جلوس کے نتیجے میں فضا خراب ہوئی۔ یہاں تک کہ پولیس نے گولی چلائی۔ کچھ مسلمان ناحق طور پر ہلاک ہو گئے۔ مسلمانوں کو مالی نقصان بھی پہنچا۔ مسلم اخباروں میں پولیس کےمظالم کی داستان ہفتوں اور مہینوں تک چھپتی رہی۔

 یہ المیہ صرف ہماری صحافت اور قیادت کی استحصال پسندی کی وجہ سے پیش آیا۔جیسا کہ معلوم ہے۔ راجو گاندھی کی قیادت میں انڈیا پہلا ملک  تھا جس نے اکتوبر ۱۹۸۸ میں سلمان رشدی کی مذکورہ کتاب پر پابندی لگادی۔ حتی کہ پاکستان سے بھی پہلے اس نے اس کتاب کی اشاعت و تقسیم کو انڈیا میں قانونی طور پر روک دیا۔

 اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد انڈیا میں اس مسئلہ پر احتجاجی جلوس کا کیا مطلب ہے۔ اس کے بعد تو انڈ یا میں شکر کا جلسہ ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے ملک میں ہیں جو ایک اسلام دشمن کتاب پر مسلم ملکوں سے بھی پہلے پابندی لگاتا ہے۔ نہ کہ اس پر احتجاجی جلوس نکالا جائے اور غیر ضروری طور پر اپنے لیے  ایسے مسائل پیدا کیے جائیں جن کا باعتبار واقعہ کوئی وجود نہیں۔

قومی ترقی میں حصہ

اوپر کی تفصیلات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آزادی ٔہند سے پہلے کے دور کے مقابلے  میں آزادیٔ ہند کے بعد کے دور میں مسلمان ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تاہم اس موضوع کا ایک اور پہلو ہے۔ اور وہ یہ کہ مجموعی قومی ترقی (total national growth) میں ان کا حصہ کتنا ہے۔ یہاں میں یہ اعتراف کروں گا کہ اس دوسرے اعتبار سے مسلمان یقینی طور پر پیچھے ہیں۔ مثلاً صحافت اور تعلیم کے اداروں میں ان کا حصہ دوسرے فرقوں کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ صنعت اور تجارت کے میدان میں وہ ہندو اور جینی اور پارسی کے مقابلے  میں ابھی تک پیچھے ہیں۔

مگر اس معاملے میں ہمیں حقیقت پسندانہ رائے قائم کرنا چاہیے نہ کہ کوئی جذباتی رائے۔ اصل یہ ہے کہ زمانی اعتبار سے خوش حال ہونے کے لیے  تو زبانی عوامل ہی کافی تھے۔ چناں چہ  زمانی اسباب کے تحت مسلمانوں کو موجودہ دور میں خوش حالی کا ایک حصہ مل گیا۔ مگر دوسری ہمسایہ قوموں کے مقابلے  میں اپنا متناسب حصہ پانے کے لیے  قومی اہلیت کا ثبوت دینا تھا۔ یہاں رہنماؤں کی غلط ر ہنمائی اس میں مانع بن گئی کہ مسلمان ملک کی قومی ترقی میں اپنا وہ حصہ پاسکیں جو اپنی عددی طاقت کی نسبت سے انھیں ملنا  چاہیے تھا۔

مسلمانوں کی قیادت نے خاص طور پر دو پہلوؤں سے مسلمانوں کو نہایت شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے اپنی نا اہلی کی بنا پر مسلمانوں کو جدید تعلیم میں پیچھے کر دیا۔ جب کہ جدید تعلیم موجودہ زمانے  میں ہر قسم کی ترقیوں کی واحد لازمی شرط بن چکی ہے۔

مسلم قیادت کی دوسری شدید تر نا اہلی یہ ہے کہ وہ اپنی غلط پالیسی کی بنا پر مسلمانوں کو فسادات کی مصیبت میں الجھائے ہوئے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں چھوٹے بڑے تقریباً چالیس ہزار فساد ہو چکے ہیں۔ اور ان سب کی اصل ذمہ داری بلاشبہ نا اہل مسلم قیادت پر ہے۔ ان فسادات کی بنا پر ہی یہ المیہ پیش آیا کہ مسلمان قومی ترقی میں اپنے قرار واقعی حصہ پانے سے محروم رہے۔ اور جو کچھ پایا تھا اس کا بھی ایک حصہ وہ بار بار کھوتے رہے۔

تعلیم کا میدان

۱۹ویں صدی کے وسط میں یہ واقعہ ہوا کہ بر طانی حکومت نے انگریزی تعلیم کو باقاعدہ طور پر ملک میں رائج کیا اور فارسی کے بجائے انگریزی کو ملک کی سرکاری زبان کی حیثیت دے دی۔ اس وقت مسلم قیادت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی وہ انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اس نفرت کو وہ یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے انگریز اور انگریزی میں فرق نہیں کیا۔ وہ بیک وقت انگریزی قوم اور انگریزی زبان اور علوم دونوں کے دشمن بن گئے۔

مسلم قیادت کے اس مزاج کا اثر مسلم عوام پر پڑا ۔مسلمان عام طور پر انگریزی زبان اور انگریزی میں پڑھائے جانے والے علوم سے متنفر ہوگئے۔ حتی کہ سرسید (۱۸۹۸ - ۱۸۱۷) نے جب انگریزی تعلیم پر زور دیا تو ان کو انگریزوں کا ایجنٹ بتا کر ان کی سخت مخالفت کی گئی۔ ان کو مسلم عوام سے کاٹ دیا گیا۔ اس بنا پر مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے  میں انگریزی تعلیم میں تقریباً ایک سو سال پیچھے ہو گئے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہمارے یہاں عربی زبان میں عالمی سطح کے علماء موجود ہیں مگر انگریزی زبان میں ہمارے پاس ملکی سطح پر بھی کوئی قابل ذکر مسلم رائٹر موجود نہیں۔

 تاہم ۱۹۴۷ کے انقلاب کے بعد حالات کے زیر اثر مسلمانوں کے اندر نیا ذہن پیدا ہواہے۔ اب مسلمان تیزی سے جدید تعلیم کے میدان میں داخل ہور ہے ہیں ۔ چناں چہ  آج ہمارے یہاں ڈاکٹر خلیل اللہ جیسے میڈیکل اکسپرٹ اور پروفیسر خسرو جیسے ماہر معاشیات پیدا ہو رہے ہیں ۔مسلمانوں میں مسٹر رضوی اور مسٹر سبحانی جیسے نوجوان ابھر رہے ہیں جنھوں نے آئی اے ایس کے مقابلے  میں پورے ملک میں ٹاپ کیا ہے ۔ وغیرہ

فرقہ وارانہ فسادات

دوسرا مسئلہ فرقہ وارانہ فسادات کا ہے۔ ان فسادات نے مسلمانوں کو زبر دست نقصان پہنچایا ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ان فسادات کا تعلق ہندستان کے موجودہ نظام سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق خود مسلمانوں کی زرد قیادت اور زرد صحافت سے ہے۔ یہ دراصل ہماری نام نہاد صحافت وقیادت ہے جو فرقہ وارانہ فساد کی اصل ذمہ دار ہے۔

 ان فسادات کی منطق کیا ہے۔ اس کے لیے  میں دوبارہ آپ کے پڑوسی شہر بمبئی کی مثال دوں گا۔ آزادیٔ ہندسے تقریباً ۲۰ سال پہلے بمبئی میں ہندوؤں کا ایک جلوس نکلا۔ یہ جلوس چلتا ہوا ایک خاص سڑک پر پہنچا جہاں ایک مسجد واقع ہے۔ مسجد کے متولی کو مسجد کے سامنے ہند و جلوس گزارنے پر اختلاف ہوا ۔ متولی نے روکا۔ جب جلوس والے نہیں رکے تو اس نے بمبئی کی عدالت میں اس کے خلاف کیس کر دیا۔ متولی کا یہ مطالبہ تھا کہ عدالت یہ حکم جاری کرے کہ آئندہ کوئی ہندو جلوس اس کی مسجد کے سامنے سے نہیں گزرے گا۔

اس وقت بمبئی میں ایک مسلمان وکیل تھے۔ انھوں نے اس کیس میں مسلم متولی کی طرف سے پیروی کی۔ انگریز جج نے یہ حکم جاری کر دیا کہ مذکورہ مسجد کے پاس یہ نوٹس لگا دی جائے کہ آئندہ کوئی ہند و جلوس اس مسجد کے سامنے سے نہیں گزارا جائے گا۔ مسلمان وکیل کی اس کامیاب پیروی پر مسلمان خوش ہو گئے۔ ان کو اتنی مقبولیت ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے عظیم لیڈر بن گئے۔

 مگر یہ قیادت نہیں تھی بلکہ غلط رہنمائی تھی۔ مذکورہ مسلمان وکیل کو مسلمانوں سے یہ کہنا چاہیے تھاکہ جلوس کے مسئلہ کا حل جلوس کو روکنا نہیں ہے بلکہ اس کو نظر انداز کرنا ہے۔ تم اپنا الگ ملک بناؤ گےتو وہاں بھی مختلف لوگ جلوس نکالیں گے ۔ پھر تم کیا کرو گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے لیے  انتخاب جلوس اور بے جلوس میں نہیں تھا۔ بلکہ جلوس اور فساد میں تھا۔ مگر مسلمانوں کی زردقیادت اور ان کی زرد صحافت مسلمانوں کو یہ رہنمائی نہ دے سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جلوس کو روکنے کی کوشش میں جگہ جگہ فساد ہونے لگے۔ جو آج تک جاری ہیں ۔ اسی بنیاد پر ہندستان میں بھی فساد ہو رہا ہے۔ اور اسی بنیاد پر پاکستان میں بھی ۔

 اس مسئلے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ۲۵ سال پہلے میں نے ایک تعمیری مہم شروع کی۔میں نے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن پیدا کرنے کی کوشش کی کہ فرقہ وارانہ فساد کا حل جلوس کو روکنا نہیں ہے بلکہ جلوس کو نظر انداز کرنا ہے۔ ۲۵ سالہ کوشش کے بعد اب خدا کے فضل سے اس کے اثرات ظاہرہور ہے ہیں۔ انڈیا میں سیکڑوں مقامات پر صرف اس لیے  فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے نئے ذہن کے تحت جلوس کو روکنے کے بجائے ان سے اعراض کرنے کی پالیسی اختیار کی۔اس کی کچھ مثالیں پچھلے صفحات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

 فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں مسلمانوں کے اندر یہ جو نیا رجحان پیدا ہوا ہے یہ ان شاء اللہ بڑھے گا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا جب کہ مسلمانوں کے اندر یہاں کے ماحول میں عدم تحفظ کا احساس مکمل طور پر ختم ہو جائے ۔ وہ ملک میں ترقی کے راستہ پر مزید آگے بڑھیں گے اور خود ملک کی ترقی میں اضافہ کریں گے۔

خاتمۂ  کلام

آپ غالباً یہ سوال کریں کہ تمہاری رائے اور دوسروں کی رائے اتنی زیادہ مختلف کیوں ہے۔ ہندستانی مسلمانوں کے کیس کو دوسرے لوگ مظلومیت کا کیس بتاتے ہیں اور تم ان کے کیس کو قومی ترقی کا کیس بتا رہے ہو۔ اس فرق کا سبب زاویہ ٔنظر کا فرق ہے۔ میرا ریلسٹک اپروچ ہے اور دوسرے لوگوں کا نان ریلسٹک اپروچ ۔ لوگ چیزوں کو اپنی خواہش کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ موجودہ دنیا میں کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں۔ کیونکہ قانون ِحیات کے تحت جو چیز نا ممکن ہو اس کو آپ اپنی خواہش کے تحت اپنے لیے  قابل حصول نہیں بنا سکتے۔

 یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور وہ لازماً اسی نظام پرچلے گی جو نظام خدا نے اس کے لیے  مقرر کر دیاہے۔ اس دنیا کے لیے  خدا نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ یہاں پھول کے ساتھ کانٹا بھی موجود رہے۔ اب ایک شخص اگر اپنے ذہن میں یہ تصور قائم کرلے کہ پھول کو کانٹے کے بغیر ہونا چاہیے ۔ ایسا شخص جب باغ کو دیکھے گا تو اس کی نظر کانٹے پر اٹک جائے گی۔ وہ باغ کو کانٹوں کا جنگل سمجھنے لگے گا۔ اس کے برعکس جو شخص یہ جانے کہ پھول کے ساتھ کانٹے کا وجو د لازمی ہے، وہ جب باغ کو دیکھے گاباغ اس کو پھولوں کا چمنستان نظر آئے گا۔

ایسا ہی کچھ معاملہ انسانی زندگی کا ہے۔ انسانی زندگی کو خدا نے مقابلہ اور مسابقت کی بنیاد پر قائم کیا ہے۔ اس نظام فطرت کی بنا پر اس دنیا میں ہمیشہ ایک دوسرے کے درمیان دوڑ جاری رہتی ہے۔ اس دوڑ میں ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے۔ حتی کہ قرآن کے مطابق عداوت کی صورتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ خدا کا تخلیقی منصوبہ ہے اور اس منصوبہ کا یہ تقاضا ہے کہ دنیا میں خوش گوار باتوں کے ساتھ ناخوش گوار باتیں بھی ضرور موجود رہیں۔ چونکہ یہ خدا کا مقرر کیا ہوا قانون ہے اس لیے  اس کے اثرات ہر جگہ پائے جائیں گے، خواہ وہ کوئی ہندو ملک ہو یا کوئی مسلم ملک۔

 نقطۂ نظر کے اس فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ جس چیز کو لوگ ظلم سمجھتے ہیں اس کو میں چیلنج کہتا ہوں۔ جس چیز کو لوگ تعصب اور امتیاز کہتے ہیں اس کو میں زندگی کی حقیقت سمجھتا ہوں ۔ جس چیز کو لوگ سازش کانام دیتے ہیں وہ میرے نزدیک مقابلے  کے مظاہر ہوتے ہیں۔

دوسرے لوگ اپنے غیر حقیقت پسندانہ معیار کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ ہندستانی مسلمانوں کی زندگی میں کوئی ناخوش گوار پہلو نہ پایا جائے۔ اور جب وہ ایسا پہلو دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ مگر میں اس معاملے کو حقیقت واقعہ کے معیار پر دیکھتا ہوں۔ اس لیے  میں" کانٹے "والے پہلو کو نظر انداز کر کے "پھول" والے پہلو کو دیکھتا ہوں۔ اور پھر مجھے نظر آنے لگتا ہے کہ موجودہ دنیا میں قانون فطرت کے تحت جو کچھ ملناممکن ہے وہ مسلمانوں کو بھی اسی طرح مل رہا ہے جس طرح غیر مسلموں کو۔ مسلمان اگر اپنے لیے  مزید کچھ چاہتے ہیں تو دوبارہ وہ قانون فطرت کے تحت عمل کر کے اس کو پا سکتے ہیں نہ کہ مطالبہ اور احتجاج کے ذریعہ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom