کرنے کا کام
۱۹۹۱ کی بات ہے۔ کچھ مسلم نوجوان میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایک کا نفرنس کرنا چاہتے ہیں، آپ بھی اس میں ہمارا تعاون کیجیے۔ میں نے پوچھا کہ اس کا نفرنس کا موضوع (theme) کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ "اقدام امت" میں نے کہا کہ اگر آپ ایک لفظ بدل دیں تو میں آپ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں۔ انھوں نے پوچھا کہ وہ کیا لفظ ہے۔ میں نے کہا کہ آپ اس کو اقدام امت کا نفرنس نہ کہیں بلکہ اس کو تیاریٔ امت کا نفرنس کی حیثیت دے دیں۔ انھوں نے اس تبدیلی کو قبول نہیں کیا اور واپس چلے گئے۔
زندگی میں ہمیشہ دو مرحلے ہوتے ہیں۔ ایک تیاری کا مرحلہ، اور دوسرا اقدام کا مرحلہ دوسرا مرحلہ ہمیشہ مرحلۂ اول کے بعد آتا ہے نہ کہ مرحلۂ اول سے پہلے ۔ اس وقت مسلم امت اقدام کے مرحلے میں نہیں ہے بلکہ وہ تیاری کے مرحلے (preparatory period) میں ہے۔ مرحلہ کے مطابق کام کرنا عمل ہے، اور مرحلہ کے خلاف کام کرنا صرف وقت اور مال کا ضیاع۔
خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ زمین پر ایک پھل دار درخت اگانا چاہتا ہے تو وہ پھل سے اس کا آغاز نہیں کرتا بلکہ بیج سے اس کا آغاز کرتا ہے۔ وہ بیچ سے چل کر بتدریج پھول اور پھل تک پہنچتا ہے۔ اس طرح گویا خدا تمام انسانوں کو فطرت کی زبان میں یہ پیغام دے رہا ہے کہ میرا طریقہ آغاز سے شروع کرنا ہے :
My way is to begin from the beginning.
اس کے برعکس مسلم دانشوروں اور مسلم رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ پہلے ہی مرحلہ میں آخری نتیجے کی طرف چھلانگ لگانا چاہتے ہیں، وہ تیاری کے بغیر اقدام کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس قسم کا ہر مسلمان گویا اپنے عمل کے ذریعہ یہ کہہ رہا ہے کہ میرا طریقہ آخری مقام سے شروع کرنا ہے :
My way is to begin from the top.
یہ طریقہ یقینی طور پر فطرت کے خلاف ہے۔ اور اس دنیا کے بارےمیں خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص فطرت کے نظام کے مطابق کام کرے وہ کامیاب ہو، اور جو شخص فطرت کے نظام سے مطابقت نہ کرے وہ نا کام و نامراد ہو کر رہ جائے۔ ایسی حالت میں کیوں کر ممکن ہے کہ ہماری کوششیں کامیابی کی منزل تک پہنچ سکیں ۔
قرآن میں قوموں کے عروج و زوال کا اصول نہایت واضح طور پر بتا دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قومیں خود اپنے عمل کی بنیاد پر اٹھتی ہیں اور اپنی ہی عملی کمزوریوں کی بنا پر تنزل کا شکار ہوتی ہیں۔ قوموں کا ابھرنا بھی داخلی اسباب کے تحت ہوتا ہے اور ان کا گرنا بھی داخلی اسباب کے تحت (ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم)
یہ ایک ایسا عالم گیر اصول ہے جس میں کوئی استثناء نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اس خدائی قانون کا مصداق بنائیں۔ وہ اپنی داخلی اصلاح کے لیے سرگرم ہو جائیں۔ وہ احتجاج ِغیر کے بجائے تعمیرِ خویش کی بنیاد پر اٹھنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسری صورت نہیں جو ان کو فلاح اور ترقی کی طرف لے جانے والی ہو ۔
مسلمان اپنے قائدین کی رہنمائی میں اب تک جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ زیادہ تر مطالبہ، احتجاج اور مظاہرہ کی سیاست ہے۔ انھوں نے اپنے ذاتی استحکام پر توجہ دینے کے بجائے دوسروں سے شکایت پر اپنی ساری توجہ مرتکز رکھی ہے۔ یہ طریقہ سراسر بے فائدہ ہے۔ وہ صرف مسائل کو بڑھانے والا ہے،وہ کسی بھی درجہ میں مسائل کو حل کرنے والا نہیں۔
یہ دنیا مقابلے کے اصولوں پر بنائی گئی ہے ۔ یہاں کسی شخص یا کسی قوم کا مسئلہ ہمیشہ اس کی داخلی کمی کی بنا پر پیدا ہوتا ہے اور داخلی کمی کو دور کر کے ہی اس کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مظاہرہ کی سیاست کا انحصار ہمیشہ خارج پر ہوا کرتا ہے۔ پھر کوئی خارج رخی سیاست کیوں کر کسی قوم کے مسئلہ کو حل کر سکتی ہے جب کہ اس کے مسائل داخل رخی اسباب کے تحت پیدا ہوئے ہوں۔
درخت اپنی ابتدائی صورت میں بیج کا نام ہے۔ جیسا بیج ویسا درخت ۔ اسی طرح کسی قوم کا خارجی مقام ہمیشہ اس کے داخلی استحکام کی نسبت سے متعین ہوتا ہے۔ جیسی تیاری ویسی قوم ۔ یہ قانون اتنا حتمی اور یقینی ہے کہ اس میں کبھی کوئی استثنا ءممکن نہیں۔ وہ اہل ایمان کے لیے بھی اتنا ہی قطعی ہے جتنا غیر اہل ایمان کے لیے۔وہ ایک قوم کے لیے بھی اسی طرح درست ہے جس طرح کسی دوسری قوم کے لیے ۔
یہاں ۱۰ نکات کی صورت میں ملی تعمیر کا ایک پروگرام درج کیا جاتا ہے ۔
دس نکاتی پروگرام
ا۔مسلمانوں کے اندر ایمانی شعور اور دینی جذبہ پیدا کرنا۔ ان کو اس قابل بنانا کہ وہ اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو سمجھیں اور ان کو ذمہ دارانہ طور پر ادا کریں۔
۲۔مسلمانوں میں اخلاقی بیداری پیدا کرنا۔ ان کے اندر سچائی، امانت داری، انصاف اور شرافت کی صفات ابھارنا تا کہ وہ لوگوں کے درمیان بہتر انسان بن کر رہ سکیں۔
۳۔مسلمانوں میں باہمی اتحاد کا جذبہ ابھارنا۔ ان کے اندر یہ مزاج پیدا کرنا کہ وہ اختلاف رکھنے کے با وجود لوگوں کے ساتھ متحد ہو کر رہ سکیں۔
۴۔جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے کمیٹیاں بنانا ۔مسلمانوں کو آمادہ کرنا کہ جب بھی کوئی نزاع کی صورت پیدا ہو تو اس کو اپنی کمیٹی کے سامنے لے آئیں اور کمیٹی جو بات طے کرے اس پر وہ راضی ہو جائیں۔
۵۔فضول خرچی کو روکنا۔ رسموں اور تیوہاروں اور تقریبات میں جو غیر ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں ان کو روکنا اور ہر معاملے میں سادہ طریقہ کو رواج دینا۔
۶۔مساجد و مدارس کو بہتر بنانا۔ یہ کوشش کرنا کہ وہ ہر اعتبار سے نمونہ کے ادارے بن جائیں اور مسلمانوں کے لیے ہر جگہ حقیقی دینی مرکز کے طور پر کام کرنے لگیں۔
۷۔مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھانا۔ مقامی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرنا کہ ہرمسلمان ضرور پڑھے، پوری قوم صد فی صد تعلیم یافتہ بن جائے۔
۸۔مسلمانوں کی معاشی حالت کوسدھارنا، ان کو ہنر سکھانا،ان کو تجارت اور صنعت میں آگے بڑھانے کی تدبیریں اختیار کرنا، معاشی مسائل کو درست کرنے کے لیے لوگوں میں یہ ذہن بنانا کہ وہ مطالبہ اور احتجاج کے طریقہ کو چھوڑیں اور تعمیر خویش کے طریقہ کو اختیار کریں۔
۹۔وقف کی جائدادوں کے بہتر استعمال کی کوشش کرنا۔ ان کومنظم کرنا اور ان کے اوپر تعلیمی اور رفاہی ادارے بنانا، ان کو مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لیے استعمال کرنا ۔
۱۰۔ملکی سیاست کے طریقہ کو چھوڑ کر مقامی سیاست کے طریقہ کو اختیار کرنا۔ وہ معاملات جن کا تعلق سیاست سے ہوتا ہے، مثلاً قومی جھگڑے، الکشن میں ووٹ دینے کا مسئلہ، اس قسم کے تمام امور مقامی دائرے میں رکھ کر حل کرنا۔ ان کو ملکی اور عمومی اشو بنانے سے کامل پر ہیز کرنا۔