صبر و تحمل کا کرشمہ
جناب محمد کلیم اللہ صاحب مدر اس کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے مکمل حوالے کے ساتھ مدراس کے دو تقابلی واقعات ہمیں لکھ کر بھیجے ہیں۔ ان واقعات میں بہت بڑا سبق ہے۔ موصوف کا پتہ یہ ہے :
Mohammad Kalimullah, 352. T.T.K. Road,
Raya Pettah, Madras 600014.
ان کا خط مورخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۹۱ اور مورخہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۱ ہمارے سامنے ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے مدر اس کے انگریزی روز نامہ ہندو کی ایک کاپی روانہ کی ہے جس کے صفحہ ۳ پر مذکورہ واقعے کی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ مکمل طور پر اس صفحہ کے نیچے نقل کی جارہی ہے۔ خبر یہ ہے :
مدر اس میں ہر سال گنیش چتر تھی کا جلوس نکلتا ہے۔ پچھلے سال ہندوؤںکا یہ مذہبی جلوس ۲۱ ستمبر۱۹۹۰کو نکلا تھا۔ یہ جلوس چلتا ہوا ٹریپلی کین ہائی روڈ میں داخل ہوا۔ یہ ایک مسلم علاقہ ہے، یہاں مسجد کےسامنے با جا بجایا گیا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔ اس پر مسلمان مشتعل ہو گئے۔ آخر کار مسلمانوں اورپولیس کے درمیان باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی۔ پولیس نے گولی چلائی جس کے نتیجے میں دو مسلمان مارے
RESTRAINT PREVENTED LARGE SCALE VIOLENCE
Two organisations - Citizens for a Secular Society and Penn -- a Centre for Women's Studies -- have expressed deep concem over the Vinayaka Chathurthi procession on Sunday.
In a statement they said "the processions were far from religious in nature. What we found instead was an aggressive and communal campaign directed against members of the minority community. The processionists were boisterous young men, a number of them carrying sticks, shouting slogans like "This is a Hindu nation and only Hindus can live here.' 'We will destroy the mosque and build a Ram temple.' 'Fearless Hindus, come forward as a battalion.'
This show of communal viciousness made a mockery of a supposedly religious occasion. Members of the minority community, on the whole showed great restraint. It was this, combined with effective police presence that, in our opinion, prevented large scale violence.
The attention of the public is drawn to this transforming of a religious event by blatantly communal and political organisations.
The Hindu (Madras), September 26, 1991.
گئے۔ بہت سے زخمی ہوئے۔ مسلمانوں کی کئی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ جانی اور مالی دونوں نقصان صرف مسلمانوں کا ہوا۔
گنیش چتر تھی کا یہ جلوس اس سال بھی۲۱ ستمبر ۱۹۹۱ کو نکالا گیا۔ مگر اس سال مسلمانوں نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا۔ انھوں نے اس بار "اعراض کرو اور کامیابی حاصل کرو" کا فارمولا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ جلوس نے حسب ِمعمول مسلم محلہ میں با جابھی بجایا اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ مگر مسلمانوں نے نہ تو روٹ بدلنے کا مطالبہ کیا اور نہ وہ اشتعال انگیز باتوں پر مشتعل ہوئے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جلوس سڑک پر چلتا ہوا گزرگیا۔ مسلمانوں کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ علاقہ میں مکمل طور پر امن قائم رہا۔
موجودہ واقعہ پر مدر اس کے انگریزی اخبار ہندو (۲۶ ستمبر ۱۹۹۱) نے جو رپورٹ چھاپی ہے وہ نہایت سبق آموز ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کے برعکس، اس سال جلوس کے واقعہ پر فساد نہ ہونے کا خاص سبب مسلمانوں کا صبر و تحمل کا رویہ تھا، دو ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے ہندوؤں کے جلوس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جلوس والوں نے اقلیتی فرقہ کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگائے جن کا مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے مدر اس پولیس کی بھی تعریف کی جس نے شہر کو نقض امن سے بچانے کی موثر تدابیر اختیار کیں (صفحہ ۳)
اس خبر پر غور کیجیے۔ ایک ہی واقعہ ایک ہی محلہ میں دوبار ہوتا ہے، ایک بار وہاں فساد ہو جاتا ہے، اور دوسری بار فساد نہیں ہوتا۔ اس فرق کا سبب جلوس والوں کا رویہ نہیں ہے بلکہ محلہ والوں کا رویہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فساد کا ہونا یا نہ ہونا تمام تر "محلہ والوں "کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہیں تو ایک قسم کا رد عمل اختیار کر کے معاملے کو فساد تک پہنچا دیں اور چاہیں تو دوسرے قسم کا رد عمل اختیار کر کے فساد کی جڑ کاٹ دیں ۔
دوسرا سبق اس میں یہ ہے کہ مسلمان اگر ان مواقع پر مخالفانہ ردعمل کا مظاہرہ کریں تو معاملہ پولیس اور مسلمان کا بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ اعراض کا طریقہ اختیار کریں تو معاملہ جلوس والوں کا اور پولیس کا رہتا ہے۔ ایک صورت میں مسلمان پولیس کے نشانہ پر آجاتے ہیں اور دوسری صورت میں جلوس والے۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ تحمل کا رویہ نہایت اثر کرنے والا رویہ ہے۔ چناں چہ مدر اس کے مذکورہ واقعہ پر جب مسلمانوں نے تحمل کا رویہ اختیار کیا تو خود اکثریتی فرقہ کے اندر سے ایسے افراد اٹھے جنھوں نے جلوس والوں کی مذمت کی۔ اور مسلمانوں کی شرافت کا واضح طور پر اعتراف کیا۔ اخبارات میں مسلمانوں کو شاندارطور پر سراہا گیا اور دوسرے گروہ کو کنڈم کیا گیا۔
یہ سارا کرشمہ صرف ایک چیز کا تھا،
اور وہ صبر ہے جس کو اخبار ہندو نے اپنے تبصرہ میں برداشت (restraint) کا نام دیا ہے۔
مسئلے کا حل
۱۹۴۷ کے بعد کے دور میں ہندستان کے مسلمانوں کے ذہن پر سب سے زیادہ جو مسئلہ چھایا رہا ہے، وہ فرقہ وارانہ فساد کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کو مستقل طور پر عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رکھتا ہے۔ مگر مذکورہ واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ اس مسئلہ کا حل مسلمانوں کے اپنے اختیار میں ہے ۔مسلمان سادہ طور پر صرف یہ کریں کہ وہ کچھ نہ کریں، اور اس کے بعد یقینی طور پر وہ فساد کی مصیبت سے نجات پا جائیں گے ۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ صبر مومن کے لیے بچاؤ کا ذریعہ ہے ۔ وَلَكِنَّ الصَّبْرَ مُعَوَّلُ الْمُؤْمِنِ (الزهد لأحمد بن حنبل:1699) مذکورہ واقعہ، اور اس طرح کے دوسرے واقعات، اس قول رسول کی عملی تصدیق ہیں۔ اللہ تعالٰی نے صبر و اعراض کی صورت میں اہل ایمان کو ایک ایسی ڈھال دے دی ہے جو بے خطا اپنا عمل کرتی ہے۔ جب بھی آپ صبر کی تدبیر اختیار کریں وہ آپ کے لیے یقینی بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گا۔
انسان عین اپنی پیدائشی ساخت کے مطابق اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ کسی کے خلاف زیادتی کرنے کے لیے جواز ((justificationچاہتا ہے۔ جب آپ کسی کی اشتعال انگیزی پر مشتعل ہوں تو گویا آپ اس کو یہ جواز دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے خلاف زیادتی کرے لیکن جب آپ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہوں تو گویا آپ نے اس سے زیادتی کرنے کا جواز چھین لیا۔
یہ دوسرا رویہ مومن کے حق میں ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب آپ یہ دوسرا رویہ اختیار کریں تو اس کے بعد آپ اپنے حریف کی فطرت کو اپنا وکیل بنا لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ حریف کے اندر اپنا ایک حامی کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد آدمی خود اپنی اندرونی کیفیت کے اعتبار سے مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف زیادتی کرنے سے باز رہے۔ اور جو آدمی خود اپنے خلاف شکست کھا جائے وہ کوئی ظالمانہ اقدام کرنے کے لیے اسی طرح نا اہل ہو جاتا ہے جس طرح ایک غبارہ ہوا نکلنے کے بعد اڑنے کے لیے۔
قرآن کی ہدایت
قرآن میں اللہ تعالٰی نے اپنے مومن بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم لوگ صبر کا طریقہ اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔و ان تصبروا وتتقوا لا يضركم كيدهم شيئا ان الله بما يعملون محيط۔ (آل عمران:120)
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعےاللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ صبر اور تقوی کے ذریعے شرپسندوں کے شرسے اور فاجروں کی سازش سے اپنے آپ کو بچائیں (یر شدھم الله تعالى إلى السلامة من شر الاشرار وكيد الفجار باستعمال الصبر والتقوى) تفسير ابن كثير ۱/ ۳۹۹
صفوۃ التفاسیر میں ہے کہ اگر تم نے ان کی ایذاء پر صبر کیا اور اپنے اقوال اور اعمال میں تم اللہ سے ڈرے تو ان کی سازش اور ان کی تدبیر تم کو کچھ نقصان نہ پہنچائے گی۔ پس اللہ نے ان کے ضرر کو ختم کرنے کے لیے صبر اور تقوی کی شرط لگائی (أی إن صبرتم على أذاهم واتقيتم الله في أقوالكم وأعمالكم لا يضركم مكرهم وكيدهم - فشرط الله تعالى نفي ضررهم بالصبر والتقوى) ۲۲۶/۱
ہندستان میں فرقہ پرستوں کے جلوس اور ان کے دل آزار نعروں کے سلسلےمیں صبر اور تقویٰ کا انطباق کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان ان کی اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔ وہ ان کی دل آزاری کو یک طرفہ طور پر برداشت کر لیں۔ وہ رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے خاموشی کا رویہ اختیار کریں۔ وہ ہمیشہ صبر کے رویہ پر قائم رہیں۔
دوسرے یہ کہ وہ کسی حال میں بھی تقوی کی روش نہ چھوڑیں۔ ایسے مواقع پر دنیوی انجام سے زیادہ اخروی انجام کو وہ اپنے سامنے رکھیں۔ وہ قوم پرستی کے بجائے اصول پسندی کا انداز اختیار کریں۔ فریق ثانی کی دشمنی کے باوجود وہ اس کے ساتھ بے انصافی نہ کریں ۔ وہ جو کچھ کریں یہ سمجھ کر کریں کہ ان کو اللہ کے یہاں اس کا جواب دینا ہے ۔ وہ اللہ کے معاملے میں حساس اور انسانوں کے معاملے میں غیرحساس بن جائیں۔
مسلمان اگر اس طرح صبر و تقوی کا طریقہ اختیار کریں تو یقینی طور پر مخالفین کی ہر سازش بے اثر ہو جائے گی۔ ہر مخالفانہ تدبیر ان کے حق میں ناکام ثابت ہوگی۔
مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ ان الله بما یعملون محیط (اللہ ان کی سرگرمیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے) یہ فقرہ بہت بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے شرپسندوں کےشر سے بچاؤ کے لیے صبر و تقوی کے جس طریقہ کی تعلیم دی ہے وہ ایک ایسا طریقہ ہے جو معاملے کے اوپر پوری طرح حاوی ہے۔ وہ یقینی طور پر ایک بے خطا طریقہ ہے۔ وہ کبھی ناکام ہونے والا نہیں۔
اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ انسان کی سرشت اور اس کے مزاج سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس نے جو اصلاحی اور دفاعی تدبیر بتائی ہے وہ اپنے علم کلی کے تحت بتائی ہے۔ اللہ کے لیے یہ ایک پوری طرح معلوم مسئلہ کا پوری طرح معلوم جواب ہے۔ یہ حل تمام متعلق پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی بھی صورت حال ایسی نہیں جو اس کے دائرہ ٔاثر سے خارج ہو ۔
ان خصوصیات نے اس حل کو ایک بے خطاحل بنا دیا ہے۔ تم جب بھی اس کو استعمال کرو گے اس کا نتیجہ تمہارے حق میں ہی نکلے گا۔ کوئی بھی انسانی گروہ اس کے دائرہ سے باہر نہیں۔ شر انگیزی کی کوئی بھی آگ ایسی نہیں جو اس طریقہ کو کام میں لا کر بجھائی نہ جاسکتی ہو۔ اس تدبیر کے اندر ہر بم کو ناکارہ بنا دینے کی طاقت ہے، خواہ بظاہر وہ کیسا ہی خطرناک بم کیوں نہ ہو۔