انسان، حیوان

پٹنہ کی خدا بخش لائبریری سے ایک جرنل شائع ہوتا ہے۔ اس کے نمبر ۴۹ (۱۹۸۹) میں شری بشمبھر نا تھ پانڈے کا ایک مفصل مضمون چھپا ہے اس کا عنوان ہے "ہندوستان میں قومی یک جہتی کی روایات"۔ یہ فخر الدین علی احمد میموریل لکچر کے تحت ۱۹۸۶ میں لکھنؤ کے ایک اجتماع میں پڑھا گیا تھا۔ اس لکچرکے آخر میں انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے :

 اکتوبر ۱۹۶۹ء میں تمام ملک میں گاندھی جی کی پیدائش کا سو سالہ جشن منایا گیا۔ لیکن ہمارے ملک کی ایک فرقہ پرست جماعت نے اس موقعے کو فرقہ وارانہ فساد کے لیے چنا اور وہ بھی احمد آباد کے شہر کو، جہاں گاندھی جی نے ۱۹۱۵ میں اپنی قومی خدمات کی ابتدا کی تھی۔ اس وقت وہاں جس صوبائی پارٹی کی سرکار بر سر اقتدار تھی وہ مرکزی سرکار کے اثر سے باہر تھی۔ دنگائی بے خوف مکانوں کو جلاتے رہے، دکانوں کو لوٹتے رہے۔ اور معصوم انسانوں کا قتل کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گاندھی جی کے ساتھ وابستہ اس شہر سے انسانیت رخصت ہو چکی ہے۔ محترمہ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مجھ سے کہا کہ "بہت سے لوگ وہاں گئے ہیں اور لوٹ کر مجھے اپنی رپورٹیں دی ہیں لیکن مجھے تسلی نہیں ہوئی ہے، میں چاہتی ہوں کہ آپ وہاں جائیں، شہر میں گشت کریں اور اس بات کو دیکھیں کہ حیوانیت کے بیچ میں کیا وہاں انسانیت بھی زندہ ہے ؟ "

میں احمد آباد گیا۔ قریب مہینے بھر وہاں رہا۔ زخمیوں سے اسپتال میں ملا ۔مظلوموں کی درد ناک کہانیاں سن کر ان کے آنسو پونچھے۔ قریب چھ ہزار مکان جلا دیے گئے تھے۔ اور وہاں کی سرکار کے بیان کے مطابق ساڑھے تین سو آدمی، لیکن فوجی انٹلی جنس کے آنکڑوں کے مطابق قریب دو ہزار آدمی، اس فرقہ وارانہ فساد میں شہید ہوئے ۔مظلوموں کی کثیر تعداد اقلیتی فرقے کی تھی۔ ایک دن گشت کرتا ہوا میں میمو بائی کی چال میں پہنچا۔ وہاں محلوں کو چال کہتے ہیں۔ میرے پہنچنے پر اس علاقے کے سوڈیڑھ سو آدمی جمع ہو گئے۔ چال کے سبھی مکان جلے ہوئے تھے۔ دو چار مکانوں سے اب بھی دھواں نکل رہا تھا۔ میں نے ان سے سوال کیا ۔ کیوں بھائیو! کیا یہ سب کے سب مکان مسلمانوں کے تھے ؟ "

چالیس پینتالیس برس کی عمر کے ایک صاحب نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا :"جی نہیں، یہاں پینتیس گھر مسلمانوں کے تھے اور ۲۰ اگھر ہندوؤں کے تھے "۔

میں نے پوچھا آپ کا نام ؟ جواب ملا "میرا نام کلیان سنگھ ہے "۔

میں نے پھر پوچھا:" تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار مسلمانوں کا مجمع آیا جو ہندوؤں کے مکان جلا گیا، اور دوبارہ ہندوؤں کا مجمع آیا جو مسلمانوں کے مکان جلا گیا ؟"

وہ صاحب بولے جی نہیں۔ مجمع تو ایک ہی آیا تھا اور وہ ہندوؤں کا تھا ۔"

میں نے حیران ہو کر پوچھا :" تو کیا ہندوؤں نے ہی ہندوؤں کے مکان جلا دیے ؟"

 جواب ملا :"جی "۔ میں نے کہا :"آپ کا گھر کون سا ہے ؟" انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا :"وہ جس سے اب بھی دھواں نکل رہا ہے۔اس میں میری رہائش بھی تھی اور دکان بھی۔دکان موٹروں کے ٹائروں اور سائیکل کے ٹائروں کی تھی۔ اسی وجہ سے دھواں اب بھی نکل رہا ہے ۔

" میں نے پھر پوچھا :"کلیان سنگھ جی ! کتنے کی مالیت رہی ہوگی؟"

جواب ملا:"مکان کی مالیت تو قریب ایک لاکھ ہی ہوگی اور دکان کی بھی کم و بیش اتنی ہی۔"

میں نے حیران ہو کر پوچھا:"آخر ہندوؤں کے مکان جلانے کی وجہ کیا تھی؟"

 کلیان سنگھ نے کہا :" مجمع نے آکر ہم لوگوں سے پوچھا کہ ہمیں یہ بتاؤ کون سے مکان ہندوؤں کے ہیں اور کون سے مسلمانوں کے۔ہم ہندوؤں کے مکانوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے مکان جلانا چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں یہ بتانے سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ بہت خفا ہوئے۔ اور لوگوں سے انھوں نے پوچھا۔ سب نے میری بات کی ہی تائید کی۔ بھیڑ میں لوگوں نے چلا کر کہا :" تب ہم سب مکان جلا دیں گے ۔" ہم نے کہا :"آپ کی مرضی۔"انھوں نے سارے مکانوں میں پٹرول سے آگ لگادی۔ جب شعلے پوری طرح بھڑک اٹھے تب وہ یہاں سے رخصت ہوئے ۔"

میں نے پوچھا :"کلیان سنگھ! تم نے اپنی دو لاکھ کی مالیت خاک میں ملوادی۔ شاید زندگی بھر کی کمائی۔ اور یہ بتا کیوں نہیں دیا کہ تم ہندو ہو ۔"

کلیان سنگھ نے پاس کھڑے ہوئے مسلمانوں سے تعارف کراتے ہوئے کہا :" ہم اور یہ دونوں راجستھان میں سیکر کے ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ پہلے ہم ہندو یہاں آکر بسے اور ہم نے اپنا کاروبار جمایا۔ اس کے برسوں بعد ہمارے مسلم پڑوسیوں نے ہم سے کہا، کیا ہم بھی آپ کے ساتھ وہاں چل سکتے ہیں اور آپ کے زیر سایہ دو روٹی کما سکتے ہیں ؟ ہم نے ہامی بھری۔ وہ ہمارے بھروسے اور اطمینان پر یہاں آئے۔ اچھے کاری گر اور ہنر مند تھے ۔ جلد ہی انھوں نے اپنا کاروبار کھڑا کر لیا اور اپنے گھربھی بنالیے ۔ تو جن لوگوں سے ہمارے سیکڑوں برس کے تعلقات تھے، جو ہمارے گاؤں کے لوگ تھے، جو ہمارے بھروسے پر یہاں آئے تھے، اور جنہیں ہم چچا، تاؤ، ماموں کہہ کر پکارتے ہیں، اگر ہم اپنے گھر بچا کر ان کے گھر جلوا دیتے تو پھر اوپر والے کو کیسے منہ دکھاتے ؟"

میرا دل بھر آیا۔ میں اپنے کو ضبط نہ کر سکا۔ میں نے کہا " کلیان سنگھ ! جب تک تیرے جیسے آدمی ہندستان میں ہیں تو اس ملک سے باہمی محبت اور یک جہتی کی جڑوں کو کوئی ہلا نہیں سکتا ۔"

فطرتِ انسانی

کلیان سنگھ نے جو کچھ کیا، اپنی فطرت کی پکار پر کیا۔ ہر آدمی اسی فطرتِ صحیح پر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی ابتدائی طور پر اپنی فطرت کے زیر اثر ہی کام کرتا ہے۔ البتہ جب اس کو بھڑکا کرغصہ دلادیا جائے تو اس وقت اس کی انسانی فطرت دب جاتی ہے اور اس کی حیوانی خصلت ابھر آتی ہے۔ تخریب اور فساد کے تمام واقعات اسی وقت ہوتے ہیں جب کہ انسان کو غصہ دلا کر اس کو اس کی فطرت سے ہٹادیا گیا ہو۔

 جب تک آپ فریق ثانی کو مشتعل نہ کریں، وہ آپ کے لیے " انسان سنگھ"رہتا ہے۔ مگر جب آپ اپنی کسی حرکت سے اس کے اندر اشتعال پیدا کر دیں تو وہ آپ کے لیے "حیوان سنگھ" بن جائے گا۔ اب اس کی گاڑی فطرت کی پٹری سے اتر جائے گی۔ اور جو گاڑی اپنی اصل پٹری سے اتر جائے وہ خود بھی تباہ ہوگی اور دوسرے کے لیے بھی تباہی کا سبب بن جائے گی۔

 فریق ثانی کی انسانی فطرت کو جگائیے، اور اس کی حیوانی فطرت کو سویا رہنے دیجیے۔ یہی کامیاب اجتماعی زندگی کا واحد یقینی راز ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom