ناکامی میں کامیابی

حضرت یوسف علیہ السلام کے دشمنوں نے آپ کو ایک سنسان کنویں میں ڈال دیا۔ بظاہر یہ ہلاکت کا واقعہ تھا۔ مگر عین اس وقت خدا نے حضرت یوسف کو مطلع کیا کہ ہلاکت کے اس کنویں سے تمہارے لیے  ایک نئی زندگی بر آمد ہوگی ۔ قرآن میں ہے کہ جب حضرت یوسف کے دشمنوں نے آپ کو کنویں میں ڈالا تو اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف کے پاس وحی بھیجی کہ عنقریب تم ایسی بلندی پر پہنچو گے کہ تمہارے بھائی تمہیں دیکھ کر پہچانیں گے بھی نہیں۔ (یوسف :۱۵) گویا خدا نے حضرت یوسف کے واقعے کو ظاہری پہلو سے دیکھنے کے بجائے اس کے اندرونی پہلو کے اعتبار سے دیکھا۔ اس کو حال کے اعتبار سے دیکھنے کے بجائے مستقبل کے اعتبار سے دیکھا۔ اس نظر سے دیکھنے میں ساری بات بدل گئی۔ چناں چہ  اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت یوسف کو مطلع کیا کہ تمہارا اسوء القصص آئندہ احسن القصص بننے والا ہے۔ جہاں لوگوں نے تمہاری تاریخ ختم کر دینی چاہی تھی و ہیں سے تمہاری نئی تاریخ شروع ہو جائے گی۔

ایک حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :اتَّقُوا ‌فِرَاسَةَ» ‌الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ (سنن الترمذي :3127)۔ مومن کی ہوشیاری سے ڈرو کیوں کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔ حضرت یوسف کے واقعے کا یہ پہلو گویا اس حدیث کی تشریح ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نور سے دیکھنے کا مطلب کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے چیزوں کو ان کے اندرونی امکانات کے اعتبار سے دیکھنا۔ جب اس طرح کسی واقعے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو قصہ بظاہر اسوء القصص تھا وہ مستقبل کے اعتبار سے احسن القصص ہے۔ نور خداوندی سے دیکھنے والا نا موافق میں موافق کو دیکھ لیتا ہے. وہ تاریک حالات میں روشن حالات کا پتہ لگالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی میں تسخیر کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کا مقابلہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو حالات کو صرف ظاہر کے اعتبار سے دیکھنا جانتےہوں۔

موجودہ زمانےمیں مسلمانوں کو دیگر اقوام سے مختلف قسم کی تکلیفیں پہنچی ہیں اور پہنچ رہی ہیں۔ یہ بات یقیناً افسوسناک ہے لیکن اگر معاملے کو صرف اس کے ظاہری پہلو کےاعتبار سے دیکھا جائے تو ہمیں اس کے سوا کوئی اور کرنے کا کام نظر نہ آئے گا کہ کچھ قوموں کو ظالم قرار دے کر ان کے خلاف احتجاج اور شکایت کا طوفان برپا کرتے رہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ زمانےکے مسلمان یہی ایک کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے ابھی تک اس واقعے کو نور خداوندی سےنہیں دیکھا۔ اگر وہ اس کو نور خداوندی سے دیکھتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ جہاں تاریک پہلوہے وہاں روشن پہلو بھی موجود ہے۔ جو قصہ بظا ہر اسوء القصص نظر آتا ہے وہ احسن القصص میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

یہاں میں انسانی تاریخ کا ایک حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کو خصوصیت سے آرنلڈ ٹوائن بی نے ریکارڈ کیا ہے۔ آرنلڈ ٹوائن بی مشہور انگریز مورخ ہے جس کی کتاب اسٹڈی آف ہسٹری اپنے موضوع پر نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔ ٹوائن بی نے اس کتاب میں قدیم و جدید دنیا کی ۲۱ تہذیبوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اس تفصیلی مطالعے کے بعد اس نے ایک بڑی عجیب بات لکھی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ دنیا کی جن قوموں نے کوئی تہذیب پیدا کی وہ اکثر وہ تھیں جو اپنی زندگی میں شکست سے دوچار ہوئیں۔ جنھیں سخت نا موافق حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم کے موافق حالات ہمیشہ اس کے ناموافق حالات کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔

ٹوائن بی کے اس نظریےکی ایک واضح مثال جدید تہذیب ہے جو مغربی قوموں کے ذریعہ پیدا ہوئی ۔ مغربی قوموں کے عروج سے پہلے دنیا کے بڑے حصےپر مسلمانوں کا اقتدار تھا۔ مسلمانوں نے اس زمانےمیں شام اور فلسطین پر قبضہ کرلیا جو مغرب کی مسیحی قوموں کے نزدیک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا تھا ۔ چناں چہ  ان مقدس مقامات کو واپس لینے کے لیے  مغرب کی مسیحی قومیں متحدہ طاقت سے مسلم دنیا پر حملہ آور ہوئیں۔ ان جنگوں کو تاریخ میں صلیبی جنگیں (Crusades) کہا جاتا ہے۔ یہ صلیبی جنگیں ۱۰۹۵ء سے ۱۲۷۱ تک جاری رہیں۔ یعنی وقفہ وقفہ سے پورے دو سو سال تک۔مگر آخر کار مغربی قوموں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ وہ اپنے مقدس مقامات کو حاصل کرنے میں کا میاب نہ ہوئے۔

 مغربی قوموں کی یہی وہ ناکامی ہے جس کے بطن سے جدید تہذیب نکلی ۔ جس نے مغربی قوموں کو سارے عالم میں غالب کر دیا۔ صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد مغربی قومیں اپنا جنگی حوصلہ کھو چکی تھیں۔ اب انھیں اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا کہ وہ جنگ کے میدان میں مسلمانوں کو چیلنج کر سکیں۔ ان حالات نے ان کے اندر ایک نیا ذہن ابھارا جس کو ان کے مفکرین نے روحانی کروسیڈ (Spiritual crusades) کا نام دیا، یعنی غیر حربی میدان میں مقابلہ ۔ اب انھوں نے مسلمانوں کے علوم سیکھنے شروع کیے۔ عربی زبان کی علمی کتا بیں لاطینی میں ترجمہ کی گئیں۔ اولاً انھوں نے مسلمانوں کے علوم کو سیکھا۔ اور اس کے بعد اس میں اضافہ کرنا شروع کیا۔

 یہ کوششیں کئی سو سال تک جاری رہیں ۔ یہاں تک کہ انھوں نے علم وفن کی دنیا میں اتنی ترقی کی کہ تاریخ انسانی کونئے دور میں داخل کر دیا۔ انھوں نے روایتی دور کی جگہ سائنسی دور پیدا کیا۔ انھوں نے دست کاری نظام کو مشینی نظام میں تبدیل کر دیا۔ وغیرہ

 اس ترقی کے بعد ان کی طاقت بے پناہ ہو چکی تھی ۔ انھوں نے نہ صرف مسلم قوموں کو از سر نو مغلوب کیا بلکہ ساری دنیا پر براہ راست یا بالواسطہ انداز میں غلبہ حاصل کر لیا۔ وہ تمام اقوام کے اوپر قائدبن کر کھڑے ہو گئے۔

 مغربی اقوام کی یہ عظیم کامیابی ان کی عظیم نا کامی سے برآمد ہوئی۔ صلیبی دور کی شکستوں نے ان کو موجودہ دور کی فتح تک پہنچایا۔

 خدا کی اس دنیا میں شکست بھی فتح کا دروازہ ہے۔ یہاں ناکامی میں بھی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ بشرطیکہ اس کو جان کر اسے استعمال کیا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom