ہجرت کی ضرورت

اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول وہ ہے جس کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ ہجرت کی ایک صورت زمینی انتقال ہے۔ مگر یہی کل ہجرت نہیں۔ ہجرت دراصل اسلامی مشن کا ایک مرحلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک میدانِ کار میں عمل کرنا بے نتیجہ بن گیا ہو تو مشن کے افراد اس میدان کو چھوڑ کر دوسرےایسے میدان میں منتقل ہو جائیں جہاں نتیجہ خیز کام کرنے کا امکان نظر آتا ہو۔

پچھلے سو سال سے مسلمانوں نے مبنی بر غیر تحریکیں چلائیں اور وہ سب کی سب بے نتیجہ رہیں۔ اب مسلمانوں کو مبنی بر غیر میدان سے نکل کر مبنی بر خویش میدان میں آجانا چاہیے جہاں نتیجہ حاصل کر نا بلا شبہ یقینی ہے۔

 بیسویں صدی کے آغاز میں ہندستانی مسلمانوں نے پر شور خلافت تحریک چلائی مگر تحریک جب اپنے آخری عروج پر پہنچ گئی تو معلوم ہوا کہ اس کا سرا ترکی کے حکمراں کمال اتاترک کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۹۲۴ میں کمال اتاترک نے خلافت کے ادارے کے خاتمہ کا اعلان کر دیا اور ہندستان کی تحریک خلافت اچانک زمین بوس ہو کر رہ گئی۔

یہی حال موجودہ زمانے  میں مسلمانوں کی تمام تحریکوں کا ہوا ہے۔ ہر بار وہ اپنی تحریک ایسی زمین پر اٹھاتے ہیں جس کا سرا کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہنگامہ خیز تحریک بالآخر کسی غیر کی ایک کارروائی سے ختم ہو جاتی ہے۔ ہر بار یہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں مسلمان کامیابی کا جشن مناتے ہیں اور آخر میں شکایت اور فریاد کا دفتر لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال وہ ہے جو اگست۱۹۹۱ میں پیش آئی ۔

 اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام چو تھا فقہی سیمینار حیدر آباد میں۱۲-۹ اگست ۱۹۹۱ کو ہوا۔ اس کی روداد لکھنؤکے ماہنامہ الفرقان (اکتوبر -نومبر ۱۹۹۱) میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

اس سمینار میں ہندستان بھر کے علماء و فقہاء نیز مصر، سعودی عرب، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ممتاز اہل ِعلم شریک ہوئے۔ اس سمینار میں جو مسلم مسائل زیرِ بحث تھے ان میں سے " ایک ہندستان کے موجودہ حالات اور مسلمانوں کی جان و مال پر مسلسل منصوبہ بند حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال جان و مال کے انشورنس کا مسئلہ " بھی تھا۔

مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ حالات یہ ہیں کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت ہندستانی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اقتصادی طور پر ان کو کنگال بنا دینے کی زبر دست کوشش ہو رہی ہے۔ یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ فسادات وقتی جھگڑے سے نہیں پھوٹ پڑتے بلکہ مہینوں پہلے سے کی گئی منصوبہ بند تیاریوں سے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں کیا ہم بدرجۂ مجبوری مسلمانوں کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں یا اپنے املاک کا بیمہ کروالیں۔ اور انشورنس کی اسکیموں کا فائدہ اٹھائیں۔ کیوں کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ فساد کے موقع پر ان دکانوں کو نہیں جلایا گیا یا ان اموال کو برباد نہیں کیا گیا جن کا بیمہ کر وایا جا چکا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جان کر کہ مسلمانوں نے اب عام طور پر اپنی جانوں اور اپنی املاک کا بیمہ کرالیا ہے، انتظامیہ فسادات روکنے کے سلسلے میں زیادہ چوکنا ہو جائے۔

اس مباحثےکے دوران یاد دلایا گیا کہ ۱۹۶۵ میں مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء (لکھنو) نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ضرورت شدیدہ کے پیش نظر اگر کوئی شخص اپنی زندگی یا اپنے مال یا اپنی جائداد کا بیمہ کرائے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے۔

رپورٹ کے مطابق علماء کے درمیان طویل، دلچسپ، پر مغز، مفید اور زور دار مباحثے کے بعد تقریباً طے ہوگیا کہ فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کو جان و مال کے مسلسل نقصان سے بچانے کے لیے انھیں انشورنس کی اجازت دے دی جائے۔ پروگرام یہ تھا کہ ۱۲ اگست ۱۹۹۱ کی نشست میں مذکورہ مفہوم کی تجویز پیش کر کے رسمی طور پر اس کو منظور کر ا لیا جائے گا۔ مگر عین اس دن حیدر آباد کے ایک مسلم ڈاکٹر وہاں آئے۔ وہ انشورنس کے قواعد و ضوابط سے متعلق ضروری دستاویزات اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ اس میں انھوں نے ایک خاص حصے کو پہلے ہی سے نشان زد کر دیا تھا جو زیر ِبحث موضوع سے متعلق تھا۔ ان نشان زد سطروں سے یہ بات مشکوک ہوگئی کہ فسادات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کو انشورنس کا فائدہ مل سکے گا۔

ان نشان زد سطروں میں کہاگیا تھا کہ انشورنس کارپوریشن اس بات کی ذمہ دار نہ ہوگی کہ وہ محولہ اے اور بی کے قاعدہ کے تحت کسی شخص کو مقررہ مزید رقم ادا کرے، جب کہ زیر بیمہ شخص کی معذوری یا موت قانون کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہو، یا ان زخموں کے سبب سے ہو جو فسادات، سماجی شورش یا بغاوت کے دوران پیش آئیں:

The Corporation shall not be liable to pay the additional sum referred in (a) or (b) above if the disability of the death of the Life Assured shall:(iii) result from the Life Assured committing any breach of law; or (iv) be caused by injuries resulting from riots, civil commotion, rebellion.

مذکورہ واقعہ سامنے آنے کے بعد ساری صورت حال بدل گئی۔ چناں چہ  سمینار میں شرکت کرنے والے سب حضرات نے یہ رائے دی کہ اس حالت میں انشورنس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ چناں چہ  اعلان کر دیا گیا کہ اس مسئلہ پر مزید تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس کی تجویز آئندہ سیمینار میں پیش کی جائے گی۔

۱۹۶۵ سے ۱۹۹۱ تک مسلم رہنما فرقہ وارانہ فسادات کا یہ حل تجویز کرتے رہے کہ مسلمان اپنی جان و مال کا بیمہ کرائیں۔ مگر بیمہ کمپنی پر مسلمانوں کا قبضہ نہیں تھا بلکہ کسی اور کا قبضہ تھا۔ اس نے مسلمانوں کا رحجان دیکھ کر یہ ضابطہ بنا دیا کہ فسادات میں جو ہلاکت ہوگی، بیمہ کمپنی اس کی تلافی کرنے کی ذمہ دار نہ ہوگی ۔غیر کی ایک جنبش قلم سے مسلمانوں کا سارا منصوبہ ڈھ کر رہ گیا۔

دبیر کی تبدیلی

فرقہ وارانہ فسادات کے مسئلے کا واحد قابل عمل حل ہجرت ہے۔ یعنی میدان محنت کی تبدیلی۔ ان فسادات کے معاملے میں اب تک مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے مبنی بر غیر انداز میں اپنی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ یعنی فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف احتجاج ۔حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کرنا کہ وہ فساد کو روکیں۔ مگر ان کوششوں کے نتیجے میں فسادات میں ایک فی صد بھی کمی نہیں آئی۔

 اب مسلمانوں کو اس معاملےمیں "مبنی بر خویش "روش پر آجانا چاہیے۔ یعنی خود اپنی بنیاد پر سوچنا ۔خود اپنی کوشش سے مسئلہ کا حل نکالنا۔

 مبنی بر خویش حل سے میری مراد ہر گز دفاعی تدبیر نہیں ہے جس کو مسلمانوں کے کچھ نادان لکھنے اور بولنے والے لوگ پیش کر رہے ہیں۔ نام نہاد دفاع اس مسئلہ کو صرف بڑھانے والا ہے۔ وہ ہر گز اس کو گھٹانے والا نہیں۔ مبنی بر خویش حل سے میری مراد صرف صبر و اعراض ہے۔ اس مسئلہ کا واحد یقینی حل صبر و اعراض ہے۔ یہ حل وہ ہے جو مکمل طور پر مسلمانوں کے اپنے اختیار میں ہے۔ یہاں کسی دوسرے کے لیے یہ موقع نہیں کہ وہ اپنی حرکتِ لب یا جنبشِ قلم سے اس کو بے اثر بنا دے۔

صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے دشمنوں  پر اس وقت تک غالب رہو گے جب تک تم میرے طریقے کو پکڑے رہو۔ اگر تم میرے طریقے سے ہٹ گئے تو اللہ تمہارے اوپر ایسے لوگوں کو مسلط کر دے گا جو نہ تم سے ڈریں گے اور نہ تم پر رحم کریں گے، یہاں تک کہ تم میری سنت کی طرف لوٹ آؤ :

 لا زلتم منصورين على اعدائكم ما دمتم متمسكين بسنتی - فإن خرجتم عن سنتي سلط الله عليكم من لا يخافكم ولا يرحمكم حتى تعودوا إلى سنتى

(اس حدیث  حوالہ  نہیں ملا)

جاء في الحديث الشريف عن النبي صلّى الله عليه وسلم:لازلتم ‌منصورين، ما دمتم متبعين سنتي فمتى اختلفتم سلط عليكم عدوكم:(بيان المعاني-ج 454:4ص)

مسلمانوں کی موجودہ حالت حقیقۃً ترکِ سنت کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ ۔ فسادات کے پس منظر میں مسلمانوں نے جس سنت کو ترک کیا ہے وہ صبر و اعراض کی سنت ہے۔ اسی سنت کو چھوڑنے سے موجودہ صورت حال پیدا ہوئی ہے اور دوبارہ اسی سنت کو اختیار کر کے اس صورت حال کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسری تدبیر اس مسئلہ کو حل کرنے والی نہیں۔

مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ بے صبری سے صبر کی طرف لوٹیں ۔ وہ ٹکراؤ کو چھوڑ کر اعراض کی طرف واپس آئیں۔ اشتعال انگیزی پرمشتعل ہو جانے کے بجائے وہ اشتعال انگیزی کے با وجود مشتعل نہ ہونے کا طریقہ اختیار کریں۔ یہی پیغمبر اسلام کی سنت ہے اور اسی سنت میں کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔

 مسلمانوں کو آج ایک ہجرت کرنا ہے۔ یہ تدبیری ہجرت ہے نہ کہ کوئی جغرافی ہجرت۔ اسی ہجرت میں ان کی کامیابی کا یقینی راز چھپا ہوا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom