سکون کا سرچشمہ
انڈیا کے سابق وزیر خارجہ مسٹر نٹور سنگھ (پیدائش 1931) اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو، اور جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی اُن کی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ (study room) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں دنیا بھر کی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میں اپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, p. 14)
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتابیں نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے سکے۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spiritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ، اور وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک خیالی نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہے— اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اورجانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ او ر ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرہ6:15-515)
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہرحال ہونے والا تھا، اور وہ اپنے ٹھیک وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں۔یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
انسانوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ایک بار اختلاف کردیں تو اس کے بعد وہ اس پر اس طرح جم جائیں کہ وہ اپنے اختلاف کو کبھی ختم نہ کریں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو اختلاف کے ساتھ اعتراف کرنا بھی جانتے ہوں۔ جن کے اختلاف کی ایک حد ہو، ایک حد کے بعد وہ اپنا اختلاف ختم کردیں اور دل میں کوئی شکایت رکھے بغیر فریق ثانی کے ساتھ متحد ہوجائیں۔