فطری شناخت

بے پردگی اور باپردگی دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے علامتی الفاظ ہیں۔ باپردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائیت کو محفوظ رکھتے ہوئے دنیا میں زندگی گزارے۔ اس کے برعکس،بے پردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائیت کو کھودے، وہ اپنی فطری شناخت کو مٹا کر ایک قسم کی مصنوعی زندگی گذارنے لگے۔

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: أنہ لعن المتشبہات من النساء بالرجال، والمتشبہین من الرجال بالنساء(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4097)۔ یعنی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت کریں۔ اسی طرح آپ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت کریں۔ یہ وہی چیز ہے جس کو شناخت (identity) کہا جاتا ہے، مرد اگر اپنی فطری وضع کو چھوڑ کر عورت کی مانند بن جائے اور عورت اگر اپنی فطری وضع کو چھوڑ کر مرد کی طرح بن جائے تو یہ دونوں ہی اللہ کے یہاں سخت مبغوض ہیں۔ اللہ نے جس کو حیسی وضع کے ساتھ بنایا ہے وہی اُس کی فطری پہچان ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو چاہیے کہ وہ اس فطری وضع کو کسی حال میں نہ چھوڑ یں۔ وہ فطرت کی وضع پر قائم رہتے ہوئے زندگی گذاریں۔

باپردگی کسی عورت کے لیے اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنی فطری نسائی قدروں کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔ وہ قدریں یہ ہیں ـــسنجیدگی، پاکدامنی، اصول پسندی، شرافت،حساسیت، فرائض کی اہمیت، بامقصدیت، وغیرہ۔ اس کے مقابلہ میں بے پردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائی قدروں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ وہ کھوئی ہوئی قدریں یہ ہیں— غیر سنجیدگی، اخلاقی بے قیدی، عدم شرافت، بے حسی، فرائض حیات سے بے رغبتی اور بے مقصدیت، وغیرہ۔

پردہ کا مطلب معروف معنوں میں، محض ’’برقعہ‘‘ یا سرپر اسکارف باندھنا نہیں ہے۔ پردہ کسی عورت کے بااصول ہونے کی ایک پہچان ہے۔ ایسی عورت اپنی نسائی شناخت کے ساتھ دوسروں کو بتاتی ہے کہ وہ ایک بامقصد خاتون ہے۔ وہ واجبات حیات کو ہر قیمت پر ادا کرنے والی ہے۔

اصولی اور معیاری اعتبار سے اسلام میں عورت اور مرد کا مقام عمل (workplace) الگ الگ ہے۔ یعنی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح باہر کام کریں۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ باپردہ ہوں اور اُن کا مقام عمل مردوں سے الگ ہو۔

تاہم حالات کے مطابق، اگر یہ ممکن نہ ہو کہ عورت مردوں سے مکمل طورپر الگ رہ کر کام کرے تو معاشی اور سماجی ضرورت کے تحت اس شرط میں رخصت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ضروری تقاضہ کی بنا پر مقامِ عمل تو پوری طرح الگ نہ ہو مگر پھر بھی یہ ضروری ہوگا کہ عورت باپردہ ہونے کی شرط کو نہ چھوڑے۔ وہ اپنی نسائی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مشترک مقامات عمل پر اپنا کام کرے۔

 

سجدہ اظہار عبودیت کا آخری ماڈل (final model) ہے۔ اس دنیا میں اللہ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ چیونٹی، شیر، دریا، پہاڑ، درخت، انسان، غرض ہر چیز، حتی کہ گھاس بھی اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ بھی کسی چیز کا کوئی اور ماڈل تیار نہ کرسکا۔ اس دنیا کی ہر چیز اتنی مکمل ہے کہ اس کے آگے تکمیل کا کوئی اور درجہ پانا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں۔

یہی معاملہ اسلامی عبادت کا ہے جو اللہ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم جزء سجدہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ واسجد واقترب (96:19)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سجدہ انسانی عبودیت کے اظہار کا آخری ماڈل ہے، اس کے آگے کوئی اور ماڈل قابل تصور نہیں۔ اس لئے وہ موجودہ دنیا میں قربتِ الٰہی کا بھی آخری لمحہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom