اسلام—امن و رحمت کا مذہب
موجودہ زمانہ میں مسلم دنیا میں ایک گروہ ابھرا ہے جس کو مجاہد یا مجاہدین کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان کو مسلم ہیرو کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان مجاہدین کاتعلق نہ جہاد سے ہے اور نہ اسلام سے۔حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر 23967)۔ یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرمانبرداری کے لیے خود اپنے نفس سے جہاد کرے۔ مگر یہ مجاہد لوگ بالکل الٹا کررہے ہیں۔وہ دوسروں کے خلاف تشدد کی کارروائی کرتے ہیں یہاں تک کہ جہاں انہیں کھلے طورپر تشدد کا موقع نہیں ملتا وہاں وہ خودکش بمباری کرکے دوسروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ نام نہاد مجاہد سڑکوں اور راستوں پر landmine بچھا دیتے ہیں اورجب گزرنے والے وہاں سے گزرتے ہیں تو اچانک دھماکہ ہوتا ہے جس میں کتنے ہی مسافر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وہ جلسہ گاہ اور تھیٹر ہال میں بم مار کر لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ وہ بے قصور لوگوں کو یرغمال بنا کر سینکڑوں خاندانوں کو سوگوار کر دیتے ہیں۔ وہ بے قصور لوگوں کو مارنے میں یہاں تک جری ہوتے ہیں کہ اس معاملہ میں وہ مسلمان اور غیر مسلمان کافرق بھی نہیں کرتے۔ وہ کسی آبادی یا کسی بھی مجمع یا بلڈنگ میں دھماکہ کرکے ہزاروں لوگوں کو بے قصور مارڈالتے ہیں۔ یہ لوگ اتنے نادان ہیں کہ اس قسم کادھماکہ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے خدا کو خوش کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے اس فعل سے صرف شیطان کو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جنگ یا تشدد کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے۔ کسی بھی شخص یاگروہ کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ وہ بطور خود ایک نظریہ بنائے اور اُس خود ساختہ نظریہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو درست سمجھتے ہوئے کسی کے خلاف تشدد شروع کردے۔
اسلام میں جنگ اور تشدد کے لیے بہت شدید قسم کی شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ مثلاً جارحیت کے خلاف ایک جائز جنگ میں بھی صرف مقاتل (combatant) پر حملہ کیا جاسکتا ہے، غیر مقاتل (non-combatant) پر حملہ کرنا کسی بھی عذر کی بنا پر جائز نہیں (البقرۃ 190:)۔ کسی انسان کو قتل کرنا اسلام کے نزدیک انتہائی حد تک ناروا فعل ہے۔
یہاں اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں نقل کی جاتی ہیں جس سے اس معاملہ کی شدت کا اندازہ ہوگا۔ پہلی آیت کا تعلق عام انسان سے ہے۔اس آیت کاترجمہ یہ ہے: اسی سبب ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جوشخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اُس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا۔ (5:32)۔
دوسری آیت مومن کے قتل کے بارے میں ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے: اور جو شخص کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے تو اُس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔ (4:93)۔ قرآن کی یہ دو آیتیں وہ ہیں جن میں قتل کی بُرائی کو بیان کیا گیا ہے۔ جہاں تک قتل سے کم درجہ کے تشدد کی بات ہے، وہ بھی اسلام میں اتنا زیادہ نامحمود ہے کہ جو لوگ اُس میں ملوّث ہوں اور اُس سے توبہ نہ کریں تو اُن کا ایمان اور اسلام ہی مشتبہ ہوجائے گا۔
اس سلسلہ میں ایک حدیث رسول یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے: خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے۔ خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے۔ خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے، جس کی بری حرکتوں سے اُس کا پڑوسی امن میں نہ ہو (مسند احمد، حدیث نمبر 27162)۔ خلاصہ یہ کہ اسلام میں صرف ایک ہی جنگ جائز ہے اور وہ کھلی جارحیت کے خلاف حکومت کے تحت دفاعی جنگ ہے۔ کوئی اور جنگ، مثلاً جارحانہ جنگ، بلا عنوان جنگ، کی اسلام میں اجازت نہیں۔ اس طرح وہ جنگیں بھی اسلام میں جائز نہیں ہیں جن کو پراکسی وار اور گوریلا وار کہا جاتا ہے۔اسلام مکمل معنوں میں امن اور رحمت کا مذہب ہے۔ کسی کے خلاف تشدد کرنا اسلام میں قطعاً جائز نہیں۔ کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ ایک خود ساختہ عذر تراشے اور اُس کے نام پر لوگوں کے خلاف تشدد شروع کردے۔