بے بنیاد شکایت
ہندستان کے ایک مسلمان تاجر ہیں۔ پہلے وہ الرسالہ کے باقاعدہ قاری تھے۔ پھر ایک مسئلہ پر اُن کو شکایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے خلاف کبھی نہیں لکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ کو ہندوؤں کی طرف سے اس کام کے لئے پیسہ ملتا ہے کہ آپ ہندو— مسلم معاملات میں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اس قسم کی بات کہہ کر اُنہوں نے الرسالہ کی خریداری بند کردی۔ اُنہوں نے نہ صرف الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے مخالف بن گئے۔
کئی سال بعد 16 اپریل 2002ء کو دہلی میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کوئی اختلافی بات کیے بغیر اُن سے کہا کہ آپ اپنی زندگی کا کوئی خاص تجربہ بتائیے۔ اُنہوں نے کہا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ اُن کے الفاظ میں، مسلمان لفظ کا اگر انگلش ترجمہ کیا جائے تو وہ اِن سینسیر(insincere) ہوگا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ اسی ذاتی تجربہ کی بنیاد پر اُنہوں نے اب اپنا پارٹنر ایک ہندو کو بنایا ہے۔ ہندو کی پارٹنر شپ میں ان کا کاروبار کافی ترقی کررہا ہے۔
مگر عبرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ مسلم تاجر نے نجی ملاقات میں تو یہ بات کہی لیکن وہ اس بات کو اسٹیج پر کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز اُنہوں نے الرسالہ کی نسبت سے اپنی پچھلی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا یہی دہرا معیار موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے جو صاحب فہم اور صاحبِ علم افراد ہیں وہ اپنی نجی گفتگو میں ہمیشہ اس قسم کی بات کرتے ہیں مگر وہ پبلک میں اُسے کہنے کے لیے تیار نہیں۔ اس دہرا معیار کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا معاملہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کیےرہتے ہیں مگر مسلم عوام کو ذہنی گمراہی میں ڈال کر اُنہیں اُس کا انجام بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اپنا ذاتی مسئلہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کر لیتے ہیں، مگر وہ عوام کو بدستور بے شعوری کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اُس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں، اور کبھی ترقی نہ کرسکیں۔ ترقی کے لیے صحیح طریقہ غیر جانبدارانہ انداز میں نصیحت کا طریقہ ہے۔ مگر مسلمانوں میں کوئی غیر جانبدارانہ نصیحت کی بولی بولنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات کو میں 1947 سے مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان اپنے مسئلہ کاحل قرآن میں نہیں ڈھونڈتے، وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اسلام اُن کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہے۔ اسلام اُن کا قومی کلچر ہے، وہ اُن کا دین نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اُن کی ملّی پالیسی قرآن سے ماخوذ نہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے بیانات، ہیومن رائٹس اور کمیشن کی رپورٹیں، تعلیم یافتہ طبقہ کا اظہار خیال، یہی مسلمانوں کی ذہن سازی کے ذریعے ہیں۔ اُن کا مشترک طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو قانون اور منطق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ جب بھی اُنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خُدا نے اس آگ کو بجھا دیا (المائدۃ:64)۔
اس اعتبار سے دیکھئے تو دوسروں کا طریقہ آگ بھڑکانے والوں کا ہے۔جب کہ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کا طریقہ آگ بجھانے کا ہونا چاہیے، نہ کہ ایسا طریقہ اختیار کرنا جو آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جائے— اس طرح کے معاملات میں قرآن کا طریقہ اصلاحِ خویش کے اصول پر قائم ہے، اور دوسروں کا طریقہ احتساب غیر کے اصول پر۔
انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو دیکھ کر آخرت کی نعمتوں کو یاد کرے۔ مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کے مطابق، دنیا میں گم ہو کر آخرت کو بھول گئے ہیں (الدھر:27)۔