اجتہاد کیا ہے
اجتہاد کے لفظی معنیٰ ہیں بھر پور کوشش کرنا۔ شریعت میں یہ لفظ اس فکری کوشش کے لئے بولا جاتا ہے جب کہ نئے حالات کے اندر قرآن و سنت کی روشنی میں دین کا از سر نو انطباق (re-application) معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اجتہاد احکام کے استنباط کے سلسلہ میں ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے بار بار ایسی صورتیں پیش آتی ہیں جب کہ دین کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے نئے حالات میں ان کا ازسرِنو انطباق تلاش کیا جائے۔
اجتہاد کا یہ عمل اسلام کی تاریخ میں مسلسل جاری رہا ہے، پیغمبر کی زندگی میں بھی اور پیغمبر کی وفات کے بعد بھی۔ مگر اسلام کی بعد کی صدیوں میں ایسا ہوا کہ بعض اسباب سے اجتہاد کا یہ عمل زیادہ تر جزئی مسائل تک محدود ہو کر رہ گیا۔ کُلّی یا بنیادی نوعیت کے مسائل میں اجتہاد کا یہ عمل حقیقی طورپر جاری ہی نہ ہوسکا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ ہے جو قرآن کی آیت:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّہ (8:39)سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے دمشق کو اپنا دار السلطنت بنایا۔ اس زمانہ میں عبد اللہ بن زبیر (وفات 73ھ) نے حجاز میں اپنی علیٰحدہ خلافت قائم کر لی۔ یہ خلافت نو سال تک باقی رہی۔ بنوامیہ کے گورنر الحجاج سے ان کا ٹکراؤ ہوا۔ اس ٹکراؤ کے وقت ان کے قریبی افراد نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ تنہا لڑتے ہوئے حجاج کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
اس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں فتنہ ٔ ابن الزبیر کہا جاتا ہے۔ جس زمانہ میں یہ جنگ ہورہی تھی، عبد اللہ بن عمر (وفات 73ھ) موجود تھے۔ مگر وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ ابن الزبیر کے کچھ حامی ان کے پاس گئے اور انہیں عار دلاتے ہوئے کہا کہ آپ اس جنگ میں شامل ہو کر کیوں نہیں لڑتے۔ جب کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے— وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ۔ عبداللہ بن عمر نے جوا ب دیا کہ جو کام کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوگیا(قد فعلنا على عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم إذ کان الإسلام قلیلا، فکان الرجل یفتن فی دینہ إما یقتلونہ وإما یوثقونہ، حتى کثر الإسلام فلم تکن فتنة)۔صحیح البخاری، حدیث نمبر 4650۔عبد اللہ بن عمر کا یہ قول میرے نزدیک کلیاتی امور میں اجتہاد کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابی ٔ رسول نے اپنی مجتہدانہ بصیرت سے سمجھا کہ مذکورہ آیت میں جو حکم دیا گیا وہ قتال برائے استیصال فتنہ تھا، نہ کہ قتال برائے قتال۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ ختم ہوگیا تو قتال بھی ختم ہوگیا۔ اب وہ محنت ان مواقع دعوت کو استعمال کرنے کے لیے کی جائے گی جو کہ فتنہ کے خاتمہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کے اس قول کی مزید تفصیل عمر بن عبد العزیز کے ایک قو ل سے معلوم ہوتی ہے۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز مدینہ میں عبد اللہ بن عمر کی وفات سے 12 سال پہلے 61ھ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے دور حکومت میں خراسان کے گورنر الجراح بن عبد اللہ الحکمیکو لکھاتھا: إن اللہ إنما بعث محمدا صلى اللہ علیہ وسلم داعیا، ولم یبعثہ جابیا (اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف داعی بنا کر بھیجا تھا،اللہ نے آپ کو ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا)۔ البدایۃ و النہایۃ 9/213۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن دعوت تھا، وہ قتال کے لئے یا زمین پر قبضہ کر کے اُس پر حکومت قائم کرنے کے لئے نہیں بھیجے گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دعوت کے راستہ کی رکاوٹیں ختم کر دیں تو اس کے بعد آپ کا اور آپ کے اصحاب کا کام یہ ہوگیا کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچائیں۔
یہ اجتہاد کی وہ مثالیں ہیں جو ایک جلیل القدر صحابی اور ایک جلیل القدر تابعی نے دور اول میں قائم کیں۔ مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی تاریخ میں ان کا یہ اجتہاد عملاً رائج نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں بدستور جنگ و قتال میں مشغول رہیں، اور آج تک مشغول ہیں۔ وہ حقیقی طورپر دعوت کے میدان میں سرگرم نہ ہوسکیں۔ اگر چہ بعد کی صدیوں میں بھی اسلام مسلسل پھیلتا رہا ہے۔ مگر وہ زیادہ تر اپنی فطری کشش کے زور پرپھیلا ہے، نہ کہ داعیوں اور مبلغوں کی کسی منظم کوشش کے زور پر۔
اصل یہ ہے کہ ضرورت تھی کہ صحابی اور تابعی کے مذکورہ قول کی بنیاد پر ایک مکمل نظریہ تشکیل دیا جائے۔ اس کو ایک آئیڈیا لاجیکل سسٹم کے طورپر جامع انداز میں مرتب کیا جائے۔ مگر بعد کے مسلم علماء یہ کام نہ کرسکے۔ اور بعد کے لوگوں کی یہی کوتاہی اس کا سبب بن گئی کہ بعد کی تاریخ کا سفردعوت کے رخ پر جاری ہونے کے بجائے قتال کے رُخ پر جاری ہوگیا جو بدستور آج تک قائم ہے۔
اس معاملہ کی وضاحت کے لئے ایک متوازی مثال لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:کما تکونون یولى أو یؤمر علیکم (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 577)۔یعنی جیسے تم ہوگے، ویسے ہی تمہارے حکمراں ہوں گے۔ اس حدیث میں ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ قدیم زمانہ میں سیاست کا مرکز بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ اس قول میں اس جمہوری اصول کی طرف رہنمائی دی گئی جس میں سیاست کامرکز عوام ہوں۔ قدیم سیاسی نظام کی بابت عربی میں یہ مقولہ تھا:الناس علی دین ملوکھم۔ مذکورہ قول رسول میں اس مقولہ کو گویا بدل کر اس طرح کر دیا گیا:الملوک علی دین الناس۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ تاریخ کو بادشاہ رُخی ہونے کے بجائے عوام رُخی ہونا چاہیے۔ قدیم زمانہ میں تاریخ بادشاہ نامہ ہوا کرتی تھی۔ بادشاہوں کے واقعات کو قلمبند کرنے کا نام تاریخ تھا۔ مذکورہ قولِ رسول میں یہ رہنمائی تھی کہ تاریخ کو وسیع تر معنوں میں پوری انسانیت کے احوال پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ صرف حاکم کے احوال پر۔قولِ رسول میں مذکورہ اشاراتی رہنمائی کے باوجود بعد کی کئی صدیوں تک تاریخ نویسی کا یہ طریقہ عملاً جاری نہ ہوسکا۔ حتیٰ کہ اُس دور میں اسلام کی جو تاریخیں لکھی گئیں وہ بھی قدیم طریقہ کے مطابق، زیادہ تر سیاسی احوال تک محدود رہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مذکورہ مجتہدانہ اصول کی بنیاد پر تاریخ نویسی کا ایک مکمل فلسفہ تیار نہ کیا جاسکا۔
یہ کام پہلی بار ابن خلدون (وفات 808ھ) نے کیا۔ ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمہ میں تاریخ نویسی کے جدید اصول کو ایک مکمل فلسفہ کی شکل میں مرتب کیا۔ اس کی یہ کتاب اتنی اہم تھی کہ دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں اس کے ترجمے کیےگئے۔ اس کتاب نے عالمی ذہن پر زبردست اثر ڈالا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد تاریخ نویسی کا قدیم اسلوب ختم ہوگیا اور جدید اسلوب ساری دنیا میں رائج ہوا۔ابن خلدون نے جس طرح تاریخ نویسی کے معاملہ میں مذکورہ قولِ رسول کو ایک جامع نظام فکر کی صورت میں مرتب کیا۔ ضرورت تھی کہ اُسی طرح دعوت کے معاملہ کو بھی ایک جامع نظام فکر کی صورت میں مرتب کیاجائے۔ مگر اس کام کے لئے اجتہاد کلی کی صلاحیت درکار تھی، جب کہ ہمارے علماء اجتہاد کو جزئی مسائل تک محدود کیےہوئے تھے۔ یہی واحد وجہ ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ دعوت کی بنیاد پر جامع نظامِ فکر تشکیل نہ دیا جاسکا۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا جو فکر ہے، اس کی ایک نمائندگی الاخوان المسلمون کے ذریعہ ہوتی ہے۔ الاخوان المسلمون 1920 میں مصر میں قائم کی گئی۔ اس کے ابتدائی لیڈر حسن البناء اور سیدقطب، وغیرہ تھے۔ اس کو غیر معمولی پھیلاؤ حاصل ہوا۔الاخوان المسلمون نے اپنے عقیدہ و عمل کے لیے جو نعرہ اختیار کیا وہ یہ تھا:الإسلام دیننا و الجہاد منہجنا (اسلام ہمارا دین ہے اور جہاد ہمارا طریقِ عمل ہے)۔لیکن مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت اخوانی لیڈروں کو یہ جاننا چاہیے تھا کہ ان کے لئے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ وہ ہے جو مبنی بر أمن ہو، نہ کہ مبنی بر تشدد۔ اس لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہ تھی کہ وہ یہ اعلان کریں:الإسلام دیننا والدعوۃ منہجنا (اسلام ہمارا دین ہے اور دعوت ہمارا طریقِ عمل ہے)۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ مگر ان کی تمام قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں۔ ان کا وہ حال ہوا جس کو ایک اسرائیلی پیغمبر نے ان الفاظ میں بتایا تھا: تم نے بہت سابویا پر تھوڑا کاٹا۔ تم کھاتے ہو پر آسودہ نہیں ہوتے۔ تم پیتے ہو پر پیاس نہیں بجھتی۔ تم کپڑے پہنتے ہو پر گرم نہیں ہوتے اور مزدور اپنی مزدوری سوراخ دار تھیلی میں جمع کرتا ہے۔ (بائبل، حجی،1:6)