ذہنی سکون
موجودہ زمانہ کا شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کسی بھی انسان کو ذہنی سکون حاصل نہیں۔ تقریباً ہر آدمی ذہنی تناؤ اور فکری الجھن میں مبتلا ہے۔ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ سامان والا ہو یا بے سروسامان۔ کچھ سال پہلے بنگلور کے ایک کمپیوٹر انجینئر کو اس کی ایک ایجاد پر امریکہ کی ایک کمپنی کی طرف سے 750 ملین ڈالر اچانک مل گئے۔ مگر اس غیر معمولی دولت نے اس کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیا۔ یہاں تک کہ صرف ایک سال کے اندر اس کا یہ حال ہوا کہ اس کی نیند ختم ہوگئی اور رات کے وقت وہ نیند کی گولیاں کھا کر سونے لگا۔ موجودہ دنیا کے بیشتر لوگوں کا حال کم وبیش یہی ہے، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔
اس مسئلہ کا عام طور پر دو حل بتایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کماؤ تاکہ زیادہ سے زیادہ راحت کے سامان حاصل کرسکو۔ مگر تجربہ واضح طورپر اس کی تردید کرتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بے شمار دولت کمائی اور راحت اور آرام کے تمام سامان اپنے پاس اکٹھا کرلئے۔ مگر ان سب کے باوجود وہ سکون اور چین سے محروم رہے یہاں تک کہ مرکر اس دنیا سے چلے گئے۔
اصل یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے معیار پسند(perfectionist)ہے۔ جب کہ موجودہ دنیا ہر اعتبار سے غیر معیاری(imperfect) ہے۔اس صورت حال نے انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک تضاد پیدا کردیا ہے۔ اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی انسان ہر قسم کے دنیوی سامان کو حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر چیز اس کو اپنے ذہنی معیار سے کم تر معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ان کو پاکر بھی مطمئن نہیں ہوتا۔بظاہر راحت کے سامان کے درمیان بھی وہ ہمیشہ ایک قسم کے غیر شعوری عدم اطمینان میں مبتلا رہتا ہے۔ فطرت کا یہ قانون ثابت کرتا ہے کہ دنیوی راحت کے سامانوں میں ذہنی سکون تلاش کرنا ایک ایسا بے سود عمل ہے جو کبھی کار آمد بننے والا ہی نہیں۔
دوسرا حل وہ ہے جو خاص طور سے یوگا کے مبلغین کی طرف سے بتایا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ملک کے اندر اور ملک کے باہر بہت سے میڈیٹیشن سینٹر قائم کیےہیں۔ یہاں دھیان اور میڈیٹیشن کے ذریعہ لوگوں کو ذہنی سکون کی تربیت دی جاتی ہے۔ اُن کا طریقہ یہ ہے کہ مخصوص مراقبہ کے ذریعہ انسانی ذہن میں سوچ کے عمل کو معطّل کر دیا جائے تاکہ وہ پریشانی کو شعوری طور پر محسوس کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ مگر اس قسم کا ذہنی سکون حقیقتاً ذہنی تخدیر(mental anesthesia) کے ہم معنٰی ہے۔ یہ انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو کند کرکے اس کو بے حس حیوان کی سطح پر پہنچا دینا ہے۔ اس قسم کا ذہنی سکون، اگر بالفرض حاصل بھی ہو جائے تب بھی وہ یقینی طور پر غیر مطلوب چیز ہے۔ کیوں کہ جو چیز انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو دبا دے۔ وہ گویا انسان کو کوما(coma) کی حالت میں پہنچانا ہے۔ ایسا ذہنی سکون انسانی موت ہے،نہ کہ انسانی زندگی۔
میڈیٹیشن(meditation) کا یہ طریقہ فطرت کے نظام کی تردید ہے۔ فطرت نے انسان کو جو سب سے اعلیٰ چیز دی ہے وہ اس کا دماغ (mind) ہے۔ فطرت کے نقشے کے مطابق، دماغ کے لئے پریشانیوں کا پیش آنا کوئی برائی کی بات نہیں۔ یہ دراصل زحمت میں رحمت(blessing in disguise) ہے۔ فطرت نے انسان کی ذہنی ترقی کے لئے شاک ٹریٹمنٹ کا طریقہ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں شاک ٹریٹمنٹ کے عمل کو ختم کرنا انسان کی ذہنی ترقی کے دروازہ کو بند کرنا ہے۔ اس اعتبار سے یہ طریقہ فطرت کے نظام کے خلاف ہے اور جو چیز فطرت کے نظام کے خلاف ہو وہ اپنے آپ قابل رد ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی(mental tension) کے مسئلہ کا حل ذہنی پریشانی کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کو مینج (manage) کرنا ہے۔ فکری تدبیر کے ذریعہ اس کو اس طرح غیرمؤثر کر دینا ہے کہ وہ عملاً تو انسان کے لئے پیش آئے، مگر وہ انسان کے ذہنی سکون کو برہم (disturb) نہ کرسکے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔ دہلی میں ایک 30 سالہ نوجوان ہیں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔ ان کو وہاں 75 ہزار روپیہ مہینہ ملتا ہے، اور دوسری سہولتیں حاصل ہیں۔ مگر چونکہ ان کمپنیوں میں ہائر اینڈ فائر کا اصول ہے، اس لئے وہ ہمیشہ ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہمیشہ سروس سے محرومی کا اندیشہ(fear of losing one’s job) ستاتا رہتا ہے، نہ دن کو سکون رہتا ہے اور نہ رات کو۔ میں نے انہیں سمجھایا اور کہا کہ میں آپ کو ایک فارمولا دیتا ہوں، اگر آپ اس کو پکڑ لیں تو آپ کا ذہنی سکون کبھی برہم ہونے والا نہیں— ایک شخص آپ کا روز گار چھین سکتا ہے مگر وہ کبھی آپ کی قسمت کو آپ سے چھین نہیں سکتا:
One can take away your job. But no one has the power to take away your destiny.
مذکورہ نوجوان نے اس فارمولا کو پکڑ لیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ ملے، اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے پوری طرح ذہنی سکون حاصل ہوگیا ہے۔ اب میں اطمینان کے ساتھ سوتا ہوں، اور اطمینان کے ساتھ دن گزارتا ہوں۔ اسی طرح ہر آدمی اپنی ذہنی پریشانی کو مینج کرکے اس کو ڈیفیوز (defuse)کر سکتا ہے۔ وہ ذہنی پریشانیوں کے باوجود ذہنی سکون کی زندگی حاصل کرسکتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دماغ اتھاہ صلاحیتوں کا خزانہ ہے۔ تمام ذہنی پریشانیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرسکنا۔ اسی طرح تمام ذہنی پریشانیوں کا حل بھی صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروقت استعمال کرلینا۔
ایک بڑے شہر کے ایک تاجر ہیں۔ اُنہوں نے ایک سامان(production) تیار کیا۔ اس میں انہوں نے پچاس لاکھ روپئے لگا دئیے۔ سامان جب تیار ہوا تو اس کے بعد اچانک مارکیٹ میں اس کا دام بہت گر گیا۔ مجبوراً اُنہیں اپنے سامان کو گودام میں رکھ دینا پڑا۔ اس حادثہ کا اُن پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ راتوں کی نیند غائب ہوگئی۔ وہ اعصابی کمزوری کا شکار ہوگئے۔
اُن سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ اس معاملہ کو صرف حال(present) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ آپ اپنی اس سوچ کو بدلیے اور معاملہ کو مستقبل(future) کے اعتبار سے دیکھنا شروع کر دیجیے۔ آپ سادہ طورپر صرف اتنا کیجیے کہ اس معاملہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دیجیے۔ انہوں نے میری نصیحت پکڑ لی۔ اس کے تقریبا دو سال بعد اُن کا خط آیا جس میں انہوں نے خوشی کے ساتھ لکھا تھا کہ میرا تمام سامان نفع کے ساتھ فروخت ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا انحصار سوچنے کے طریقہ پر ہے۔ اگر آپ ایک طریقہ سے سوچیں تو آپ کا ذہن ایک ڈھنگ کا بنے گا اور اگر آپ دوسرے طریقہ سے سوچیں توآپ کا ذہن دوسرے ڈھنگ پر کام کرنے لگے گا۔ اس طرح ہر مایوسی کو اعتماد میں بدلا جاسکتا ہے اور ہر پست ہمتی کو بلند ہمتی میں۔
قرآن میں پیغمبر کو حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے: وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا (25:52)۔ یعنی تم ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیرکرو۔ ظاہر ہے کہ جہاد کبیر کے لئے قوت کبیردرکار ہے۔ آپ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم پنسل کے ذریعہ بڑی لڑائی کرو۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں قرآن خود ایک بڑی طاقت ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بڑا جہاد کرو بڑی طاقت کے ذریعہ جیسا کہ قرآن ہے:
Do great jihad with the great power that is the Quran.
اس سے مزید یہ نکلتاہے کہ نظریہ کی طاقت تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قرآن کے ذریعہ جہاد کبیرکا حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی طاقت سیاسی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے:
Ideological power is greater than political power.